باب: قسم کھانے کے بعد قدرے توقف سے «إن شاء الله» کہنا
)
Abu-Daud:
Oaths and Vows (Kitab Al-Aiman Wa Al-Nudhur)
(Chapter: Making An Exception (Saying: In-Sha'-Allah) After Swearing One's Oath)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
3285.
جناب عکرمہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ” اﷲ کی قسم ! میں قریش پر ضرور چڑھائی کروں گا ۔ اﷲ کی قسم ! میں قریش پر ضرور چڑھائی کروں گا ۔ “ اﷲ کی قسم ! میں قریش پر ضرور چڑھائی کروں گا ۔ پھر فرمایا «إن شاء الله» ” اگر اﷲ نے چاہا ۔ “ امام ابوداؤد ؓ فرماتے ہیں : اس حدیث کو کئی ایک نے شریک سے ‘ انہوں نے سماک سے ‘ اس نے عکرمہ سے ‘ اس نے ابن عباس ؓ سے ‘ اس نے نبی کریم ﷺ سے مسند روایت کیا ہے ۔ ولید بن مسلم نے شریک سے روایت میں کہا ہے ” پھر آپ ﷺ نے ان پر چڑھائی نہیں کی ۔ “
تشریح:
مستقبل کے امور میں ان شاء اللہ کہنا ضروری ہے۔قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔( وَلَا تَقُولَنَّ لِشَيْءٍ إِنِّي فَاعِلٌ ذَٰلِكَ غَدًا)(الکہف۔23۔24۔) اور (اے نبی) آپ کسی شے کے متعلق نہ کہیں بے شک میں اسے کل کرنے والا ہوںمگر یہ کہ اللہ چاہے علاوہ ازیں قدرے توقف سے بھی کہے تب بھی جائز ہے۔
٭قسم کی اہمیت اور اس کی اقسام: کسی معاملے کو اللہ کے نام یا اس کی صفات کا ذکر کر کے یقینی بنانے کو حلف اٹھانا یا قسم کھانا کہتے ہیں ۔چونکہ عرب لوگ ایسے مواقع پر با ہم مصافحہ بھی کرتے تھے اس لیے اسے (يمين) اس کی تین قسمیں ہیں:ایک حقیقی اور سچی قسم ‘جو بالعزم اٹھائی جاتی ہے ‘اسے ’’یمین مُعَقَّد‘‘ کہتے ہیں اور اس کے مطابق عمل کرنا حتی الامکان لازم ہوتا ہے ‘ورنہ کفارہ واجب ہوتا ہے ۔ دوسری ’’یمین لغو‘‘ ہے ۔یعنی بلا عزم بات بات پر قسمیں اٹھانا جیسے کہ بعض لوگوں کا تکیہ کلام ہوتا ہے ‘اسے معاف قرار دیا گیا ہے ۔تا ہم اسے معمولی نہیں جاننا چاہیے بلکہ اپنی عادت بدلے کی بھر پور کوشش کرنی چاہیے اور تیسری جھوٹی قسم ‘اسے ’’یمین غموس‘‘ کہتے ہیں یعنی گناہ‘ عتاب اور ہلاکت میں ڈبو دینے والی اسے اکبر الکبائر میں شمار کیا گیا ہے قرآن مجید میں ہے (وَلَا تَنْقُضُوا الْأَيْمَانَ بَعْدَ تَوْكِيدِهَا)(النخل :91) ’’اپنی قسموں کو پختہ کرنے کے بعد مت توڑو۔‘‘( لَا يُؤَاخِذُكُمُ اللَّهُ بِاللَّغْوِ فِي أَيْمَانِكُمْ وَلَكِنْ يُؤَاخِذُكُمْ بِمَا كَسَبَتْ قُلُوبُكُمْ)(القرۃ :225)’’ اللہ تمہیں تمہاری ان قسموں پر نہیں پکڑے گا جو پختہ نہ ہوں ‘ہاں اس چیز پر پکڑے گا جو تمہارے دلوں کا فعل ہو۔‘‘
٭نذر کی لغوی اور اصطلاحی تعریف: لغت میں نذر کے معنی ہیں (اَلْوعدُ بخيرٍ أوْشَرٍّ)’’اچھا یا برا وعدہ‘‘۔ شرع میں نذر کا مطلب ہے(هوَ الْتزامُ قُرْبَةٍ غَيْرِ لاَزِمَةٍ)’’ اللہ تعالیٰ کے قرب کے حصول کے لیے کسی چیز کو اپنے اوپر لازم قرار دے لینا نذر کہلاتا ہے۔‘‘
٭نذر کی مشروعیت: نذر گزشتہ ادیان میں بھی مشروع تھی اور زمانہ جاہلیت میں بھی اس کا رواج عام تھا مشرکین بتوں کے نام پر نذر مانتے تھے تا کہ ان کا قرب حاصل ہو اپنی حاجات طلبی کے لیے نذر و نیاز ان کے ہاں مقبول عام عمل تھا۔ اسلام نے نذر کو مشروع رکھا ہے لیکن اس کے لیے قواعد و ضوابط رکھے ہیں تا کہ یہ اللہ کی رضا کے حصول کا باعث بنے اور غیر اللہ کے ساتھ اس کا تعلق ختم ہو جائے۔قرآن مجید میں اس کی مشروعیت کے بارے میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
(وَمَا أَنْفَقْتُمْ مِنْ نَفَقَةٍ أَوْ نَذَرْتُمْ مِنْ نَذْرٍ فَإِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُهُ)(ال بقرۃ:270)
’’تم جتنا کچھ خرچ کرو یعنی خیرات کرو اور جو کچھ نذر مانو اسے اللہ بخوبی جانتا ہے ۔‘‘
«مَنْ نَذَرَ أَنْ يُطِيعَ اللَّهَ فَلْيُطِعْهُ، وَمَنْ نَذَرَ أَنْ يَعْصِيَهُ فَلاَ يَعْصِهِ» (صحیح البخاری‘ الایمان والنذور‘ حدیث:6696)
’’جس شخص نے اللہ کی اطاعت کی نذر مانی تو وہ اس کی اطاعت کرے (نذر پوری کرے) اور حس نے اس کی معصیت کی نذر مانی وہ اس کی نافرمانی نہ کرے۔‘‘
جناب عکرمہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ” اﷲ کی قسم ! میں قریش پر ضرور چڑھائی کروں گا ۔ اﷲ کی قسم ! میں قریش پر ضرور چڑھائی کروں گا ۔ “ اﷲ کی قسم ! میں قریش پر ضرور چڑھائی کروں گا ۔ پھر فرمایا «إن شاء الله» ” اگر اﷲ نے چاہا ۔ “ امام ابوداؤد ؓ فرماتے ہیں : اس حدیث کو کئی ایک نے شریک سے ‘ انہوں نے سماک سے ‘ اس نے عکرمہ سے ‘ اس نے ابن عباس ؓ سے ‘ اس نے نبی کریم ﷺ سے مسند روایت کیا ہے ۔ ولید بن مسلم نے شریک سے روایت میں کہا ہے ” پھر آپ ﷺ نے ان پر چڑھائی نہیں کی ۔ “
حدیث حاشیہ:
مستقبل کے امور میں ان شاء اللہ کہنا ضروری ہے۔قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔( وَلَا تَقُولَنَّ لِشَيْءٍ إِنِّي فَاعِلٌ ذَٰلِكَ غَدًا)(الکہف۔23۔24۔) اور (اے نبی) آپ کسی شے کے متعلق نہ کہیں بے شک میں اسے کل کرنے والا ہوںمگر یہ کہ اللہ چاہے علاوہ ازیں قدرے توقف سے بھی کہے تب بھی جائز ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عکرمہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” قسم اللہ کی ، میں قریش سے جہاد کروں گا ، قسم اللہ کی ، میں قریش سے جہاد کروں گا ، قسم اللہ کی ، میں قریش سے جہاد کروں گا “ پھر کہا : ” ان شاءاللہ ( اگر اللہ نے چاہا ) “ ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اس روایت کو ایک نہیں کئی لوگوں نے شریک سے ، شریک نے سماک سے ، سماک نے عکرمہ سے ، عکرمہ نے ابن عباس ؓ سے اور ابن عباس نے نبی اکرم ﷺ سے مسنداً بیان کیا ہے ، اور ولید بن مسلم نے شریک سے روایت کیا ہے اس میں ہے : ” پھر آپ نے ان سے غزوہ نہیں کیا “ ۔
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Karimah (RA):
The Prophet (ﷺ) said: It is a duty of every Muslim (to provide hospitality) to a guest for a night. If anyone comes in the morning to his house, it is a debt due to him. If he wishes, he may fulfil it, and if he wishes he may leave it.