باب: قسم کھانے کے بعد قدرے توقف سے «إن شاء الله» کہنا
)
Abu-Daud:
Oaths and Vows (Kitab Al-Aiman Wa Al-Nudhur)
(Chapter: Making An Exception (Saying: In-Sha'-Allah) After Swearing One's Oath)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
3286.
جناب عکرمہ ؓ مرفوعاً بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ” اﷲ کی قسم ! میں قریش پر ضرور چڑھائی کروں گا ۔ پھر فرمایا ” «إن شاء الله» اگر اﷲ نے چاہا ۔ “ پھر آپ ﷺ نے کہا : ” اﷲ کی قسم ! میں قریش پر ضرور چڑھائی کروں گا ‘«إن شاء الله» “ آپ ﷺ نے پھر کہا : ” اﷲ کی قسم ! میں قریش پر ضرور چڑھائی کروں گا ۔ “ پھر خاموش رہے بعد میں فرمایا ” «إن شاء الله» اگر اﷲ نے چاہا ۔ “ امام ابوداؤد ؓ کہتے ہیں کہ اس روایت میں ولید بن مسلم نے شریک سے مزید یہ بھی بیان کیا ” پھر آپ ﷺ نے ان پر چڑھائی نہیں کی ۔ “
٭قسم کی اہمیت اور اس کی اقسام: کسی معاملے کو اللہ کے نام یا اس کی صفات کا ذکر کر کے یقینی بنانے کو حلف اٹھانا یا قسم کھانا کہتے ہیں ۔چونکہ عرب لوگ ایسے مواقع پر با ہم مصافحہ بھی کرتے تھے اس لیے اسے (يمين) اس کی تین قسمیں ہیں:ایک حقیقی اور سچی قسم ‘جو بالعزم اٹھائی جاتی ہے ‘اسے ’’یمین مُعَقَّد‘‘ کہتے ہیں اور اس کے مطابق عمل کرنا حتی الامکان لازم ہوتا ہے ‘ورنہ کفارہ واجب ہوتا ہے ۔ دوسری ’’یمین لغو‘‘ ہے ۔یعنی بلا عزم بات بات پر قسمیں اٹھانا جیسے کہ بعض لوگوں کا تکیہ کلام ہوتا ہے ‘اسے معاف قرار دیا گیا ہے ۔تا ہم اسے معمولی نہیں جاننا چاہیے بلکہ اپنی عادت بدلے کی بھر پور کوشش کرنی چاہیے اور تیسری جھوٹی قسم ‘اسے ’’یمین غموس‘‘ کہتے ہیں یعنی گناہ‘ عتاب اور ہلاکت میں ڈبو دینے والی اسے اکبر الکبائر میں شمار کیا گیا ہے قرآن مجید میں ہے (وَلَا تَنْقُضُوا الْأَيْمَانَ بَعْدَ تَوْكِيدِهَا)(النخل :91) ’’اپنی قسموں کو پختہ کرنے کے بعد مت توڑو۔‘‘( لَا يُؤَاخِذُكُمُ اللَّهُ بِاللَّغْوِ فِي أَيْمَانِكُمْ وَلَكِنْ يُؤَاخِذُكُمْ بِمَا كَسَبَتْ قُلُوبُكُمْ)(القرۃ :225)’’ اللہ تمہیں تمہاری ان قسموں پر نہیں پکڑے گا جو پختہ نہ ہوں ‘ہاں اس چیز پر پکڑے گا جو تمہارے دلوں کا فعل ہو۔‘‘
٭نذر کی لغوی اور اصطلاحی تعریف: لغت میں نذر کے معنی ہیں (اَلْوعدُ بخيرٍ أوْشَرٍّ)’’اچھا یا برا وعدہ‘‘۔ شرع میں نذر کا مطلب ہے(هوَ الْتزامُ قُرْبَةٍ غَيْرِ لاَزِمَةٍ)’’ اللہ تعالیٰ کے قرب کے حصول کے لیے کسی چیز کو اپنے اوپر لازم قرار دے لینا نذر کہلاتا ہے۔‘‘
٭نذر کی مشروعیت: نذر گزشتہ ادیان میں بھی مشروع تھی اور زمانہ جاہلیت میں بھی اس کا رواج عام تھا مشرکین بتوں کے نام پر نذر مانتے تھے تا کہ ان کا قرب حاصل ہو اپنی حاجات طلبی کے لیے نذر و نیاز ان کے ہاں مقبول عام عمل تھا۔ اسلام نے نذر کو مشروع رکھا ہے لیکن اس کے لیے قواعد و ضوابط رکھے ہیں تا کہ یہ اللہ کی رضا کے حصول کا باعث بنے اور غیر اللہ کے ساتھ اس کا تعلق ختم ہو جائے۔قرآن مجید میں اس کی مشروعیت کے بارے میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
(وَمَا أَنْفَقْتُمْ مِنْ نَفَقَةٍ أَوْ نَذَرْتُمْ مِنْ نَذْرٍ فَإِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُهُ)(ال بقرۃ:270)
’’تم جتنا کچھ خرچ کرو یعنی خیرات کرو اور جو کچھ نذر مانو اسے اللہ بخوبی جانتا ہے ۔‘‘
«مَنْ نَذَرَ أَنْ يُطِيعَ اللَّهَ فَلْيُطِعْهُ، وَمَنْ نَذَرَ أَنْ يَعْصِيَهُ فَلاَ يَعْصِهِ» (صحیح البخاری‘ الایمان والنذور‘ حدیث:6696)
’’جس شخص نے اللہ کی اطاعت کی نذر مانی تو وہ اس کی اطاعت کرے (نذر پوری کرے) اور حس نے اس کی معصیت کی نذر مانی وہ اس کی نافرمانی نہ کرے۔‘‘
جناب عکرمہ ؓ مرفوعاً بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ” اﷲ کی قسم ! میں قریش پر ضرور چڑھائی کروں گا ۔ پھر فرمایا ” «إن شاء الله» اگر اﷲ نے چاہا ۔ “ پھر آپ ﷺ نے کہا : ” اﷲ کی قسم ! میں قریش پر ضرور چڑھائی کروں گا ‘«إن شاء الله» “ آپ ﷺ نے پھر کہا : ” اﷲ کی قسم ! میں قریش پر ضرور چڑھائی کروں گا ۔ “ پھر خاموش رہے بعد میں فرمایا ” «إن شاء الله» اگر اﷲ نے چاہا ۔ “ امام ابوداؤد ؓ کہتے ہیں کہ اس روایت میں ولید بن مسلم نے شریک سے مزید یہ بھی بیان کیا ” پھر آپ ﷺ نے ان پر چڑھائی نہیں کی ۔ “
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عکرمہ سے مرفوعاً روایت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : ” قسم اللہ کی میں قریش سے جہاد کروں گا “ ، پھر فرمایا : ” ان شاءاللہ “ پھر فرمایا : ” قسم اللہ کی میں قریش سے جہاد کروں گا ان شاءاللہ “ پھر فرمایا : ” قسم اللہ کی میں قریش سے جہاد کروں گا “ پھر آپ خاموش رہے پھر فرمایا : ” ان شاءاللہ “ ۱؎ ۔ ابوداؤد کہتے ہیں کہ ولید بن مسلم نے شریک سے اپنی روایت میں اتنا اضافہ کیا ہے : ” پھر آپ نے ان سے جہاد نہیں کیا “ ۔
حدیث حاشیہ:
۱؎ : اگر قسم میں ” ان شاء اللہ “ بدون توقف اور سکوت کہے تب قسم میں حانث ہونے سے کفارہ لازم نہیں آئے گا، ورنہ لازم آئے گا، جیسا کہ حدیث نمبر (۳۲۶۱) میں ہے، یہ حدیث ضعیف ہے ۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Al-Miqdam Abu Karimah (RA):
The Prophet (ﷺ) said: If any Muslim is a guest of people and is given nothing, it is the duty of every Muslim to help him to the extent of taking for him from their crop and property for the entertainment of one night.