باب: جو شخص ایسی نذر مان لے جس کی وہ طاقت نہ رکھتا ہو
)
Abu-Daud:
Oaths and Vows (Kitab Al-Aiman Wa Al-Nudhur)
(Chapter: On A Man Who Takes Vows For A Thing Over Which He has no control)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
3322.
سیدنا ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جس نے کوئی غیر معین نذر مانی ہو، اس کا کفارہ قسم والا ہے، اور جس نے کسی گناہ کے کام کی نذر مان لی ہو تو اس کا کفارہ قسم والا ہے، اور جس نے کوئی ایسی نذر مان لی ہو، جس کی وہ طاقت نہ رکھتا ہو تو اس کا کفارہ قسم والا ہے، اور جس نے ایسی نذر مانی ہو، جس کی وہ طاقت رکھتا ہو تو اسے پورا کرے۔“ امام ابوداؤد ؓ فرماتے ہیں: اس حدیث کو وکیع وغیرہ نے عبداللہ بن سعید بن ابی الہند سے روایت کرتے ہوئے سیدنا ابن عباس ؓ پر موقوف قرار دیا ہے۔
تشریح:
یہ روایت موقوف ہے۔ اس لئے مرفوع کے مقابلے میں حجت نہیں۔ صحیح مرفوع روایات سے جو ثابت ہے۔ اس کا خلاصہ امام شوکانی نےاس طرح بیان کیا ہے کہ اگرمعین نذر نیکی سے متعلق ہو لیکن اس پر عمل طاقت سے باہر ہو۔ تو اس میں قسم کا کا کفارہ ہے۔ اور اگر وہ انسانی طاقت و وسعت کے اندر ہو تو اس کا پورا کرنا واجب ہے۔ چاہے اس کا تعلق بدن سے ہویا مال سے اور اگر وہ نذر کسی معصیت کی ہو۔ تو اسے پورا نہ کرنا واجب ہے۔ لیکن اس میں کفارے کی ادایئگی ضروری نہیں اگر اس نذر کا تعلق مباح (جائز) امر سے ہو وہ انسانی طاقت سے بالا بھی نہ ہو۔ تو وہ نذ ر بھی منعقد ہوجائے گی۔ اور اس میں کفارے کی ادائیگی بھی لازمی ہوگی۔ جیسے پیدل چلنے والی صحابیہ کو آپ نے پیدل حج پر جانے سے منع فرمایا۔ اور اسے سوار ہونے کا کفارہ ادا کرنے کا حکم دیا۔ اور اگر وہ کام انسانی طاقت سے بالا ہو تو اس میں کفارہ واجب ہے۔ (نیل الأوطار، أبواب الأیمان،کفارتھا، باب من نذر نزرا لم یسعه ولایطیقه: 278/8)
٭قسم کی اہمیت اور اس کی اقسام: کسی معاملے کو اللہ کے نام یا اس کی صفات کا ذکر کر کے یقینی بنانے کو حلف اٹھانا یا قسم کھانا کہتے ہیں ۔چونکہ عرب لوگ ایسے مواقع پر با ہم مصافحہ بھی کرتے تھے اس لیے اسے (يمين) اس کی تین قسمیں ہیں:ایک حقیقی اور سچی قسم ‘جو بالعزم اٹھائی جاتی ہے ‘اسے ’’یمین مُعَقَّد‘‘ کہتے ہیں اور اس کے مطابق عمل کرنا حتی الامکان لازم ہوتا ہے ‘ورنہ کفارہ واجب ہوتا ہے ۔ دوسری ’’یمین لغو‘‘ ہے ۔یعنی بلا عزم بات بات پر قسمیں اٹھانا جیسے کہ بعض لوگوں کا تکیہ کلام ہوتا ہے ‘اسے معاف قرار دیا گیا ہے ۔تا ہم اسے معمولی نہیں جاننا چاہیے بلکہ اپنی عادت بدلے کی بھر پور کوشش کرنی چاہیے اور تیسری جھوٹی قسم ‘اسے ’’یمین غموس‘‘ کہتے ہیں یعنی گناہ‘ عتاب اور ہلاکت میں ڈبو دینے والی اسے اکبر الکبائر میں شمار کیا گیا ہے قرآن مجید میں ہے (وَلَا تَنْقُضُوا الْأَيْمَانَ بَعْدَ تَوْكِيدِهَا)(النخل :91) ’’اپنی قسموں کو پختہ کرنے کے بعد مت توڑو۔‘‘( لَا يُؤَاخِذُكُمُ اللَّهُ بِاللَّغْوِ فِي أَيْمَانِكُمْ وَلَكِنْ يُؤَاخِذُكُمْ بِمَا كَسَبَتْ قُلُوبُكُمْ)(القرۃ :225)’’ اللہ تمہیں تمہاری ان قسموں پر نہیں پکڑے گا جو پختہ نہ ہوں ‘ہاں اس چیز پر پکڑے گا جو تمہارے دلوں کا فعل ہو۔‘‘
٭نذر کی لغوی اور اصطلاحی تعریف: لغت میں نذر کے معنی ہیں (اَلْوعدُ بخيرٍ أوْشَرٍّ)’’اچھا یا برا وعدہ‘‘۔ شرع میں نذر کا مطلب ہے(هوَ الْتزامُ قُرْبَةٍ غَيْرِ لاَزِمَةٍ)’’ اللہ تعالیٰ کے قرب کے حصول کے لیے کسی چیز کو اپنے اوپر لازم قرار دے لینا نذر کہلاتا ہے۔‘‘
٭نذر کی مشروعیت: نذر گزشتہ ادیان میں بھی مشروع تھی اور زمانہ جاہلیت میں بھی اس کا رواج عام تھا مشرکین بتوں کے نام پر نذر مانتے تھے تا کہ ان کا قرب حاصل ہو اپنی حاجات طلبی کے لیے نذر و نیاز ان کے ہاں مقبول عام عمل تھا۔ اسلام نے نذر کو مشروع رکھا ہے لیکن اس کے لیے قواعد و ضوابط رکھے ہیں تا کہ یہ اللہ کی رضا کے حصول کا باعث بنے اور غیر اللہ کے ساتھ اس کا تعلق ختم ہو جائے۔قرآن مجید میں اس کی مشروعیت کے بارے میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
(وَمَا أَنْفَقْتُمْ مِنْ نَفَقَةٍ أَوْ نَذَرْتُمْ مِنْ نَذْرٍ فَإِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُهُ)(ال بقرۃ:270)
’’تم جتنا کچھ خرچ کرو یعنی خیرات کرو اور جو کچھ نذر مانو اسے اللہ بخوبی جانتا ہے ۔‘‘
«مَنْ نَذَرَ أَنْ يُطِيعَ اللَّهَ فَلْيُطِعْهُ، وَمَنْ نَذَرَ أَنْ يَعْصِيَهُ فَلاَ يَعْصِهِ» (صحیح البخاری‘ الایمان والنذور‘ حدیث:6696)
’’جس شخص نے اللہ کی اطاعت کی نذر مانی تو وہ اس کی اطاعت کرے (نذر پوری کرے) اور حس نے اس کی معصیت کی نذر مانی وہ اس کی نافرمانی نہ کرے۔‘‘
سیدنا ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جس نے کوئی غیر معین نذر مانی ہو، اس کا کفارہ قسم والا ہے، اور جس نے کسی گناہ کے کام کی نذر مان لی ہو تو اس کا کفارہ قسم والا ہے، اور جس نے کوئی ایسی نذر مان لی ہو، جس کی وہ طاقت نہ رکھتا ہو تو اس کا کفارہ قسم والا ہے، اور جس نے ایسی نذر مانی ہو، جس کی وہ طاقت رکھتا ہو تو اسے پورا کرے۔“ امام ابوداؤد ؓ فرماتے ہیں: اس حدیث کو وکیع وغیرہ نے عبداللہ بن سعید بن ابی الہند سے روایت کرتے ہوئے سیدنا ابن عباس ؓ پر موقوف قرار دیا ہے۔
حدیث حاشیہ:
یہ روایت موقوف ہے۔ اس لئے مرفوع کے مقابلے میں حجت نہیں۔ صحیح مرفوع روایات سے جو ثابت ہے۔ اس کا خلاصہ امام شوکانی نےاس طرح بیان کیا ہے کہ اگرمعین نذر نیکی سے متعلق ہو لیکن اس پر عمل طاقت سے باہر ہو۔ تو اس میں قسم کا کا کفارہ ہے۔ اور اگر وہ انسانی طاقت و وسعت کے اندر ہو تو اس کا پورا کرنا واجب ہے۔ چاہے اس کا تعلق بدن سے ہویا مال سے اور اگر وہ نذر کسی معصیت کی ہو۔ تو اسے پورا نہ کرنا واجب ہے۔ لیکن اس میں کفارے کی ادایئگی ضروری نہیں اگر اس نذر کا تعلق مباح (جائز) امر سے ہو وہ انسانی طاقت سے بالا بھی نہ ہو۔ تو وہ نذ ر بھی منعقد ہوجائے گی۔ اور اس میں کفارے کی ادائیگی بھی لازمی ہوگی۔ جیسے پیدل چلنے والی صحابیہ کو آپ نے پیدل حج پر جانے سے منع فرمایا۔ اور اسے سوار ہونے کا کفارہ ادا کرنے کا حکم دیا۔ اور اگر وہ کام انسانی طاقت سے بالا ہو تو اس میں کفارہ واجب ہے۔ (نیل الأوطار، أبواب الأیمان،کفارتھا، باب من نذر نزرا لم یسعه ولایطیقه: 278/8)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ بن عباس ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جو شخص غیر نامزد نذر مانے تو اس کا کفارہ قسم کا کفارہ ہے اور جو کسی گناہ کی نذر مانے تو اس کا (بھی) کفارہ وہی ہے جو قسم کا ہے، اور جو کوئی ایسی نذر مانے جسے پوری کرنے کی طاقت نہ رکھتا ہو تو اس کا کفارہ وہی ہے جو قسم کا کفارہ ہے، اور جو کوئی ایسی نذر مانے جسے وہ پوری کر سکتا ہو تو وہ اسے پوری کرے۔“ ابوداؤد کہتے ہیں: وکیع وغیرہ نے اس حدیث کو عبداللہ بن سعید (بن ابوہند) سے ابن عباس ؓ پر موقوفاً روایت کیا ہے۔
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Abdullah ibn 'Abbas (RA): The Prophet (ﷺ) said: If anyone takes a vow but does not name it, its atonement is the same as that for an oath, if anyone takes a vow to do an act of disobedience, its atonement is the same as that for an oath, if anyone takes a vow he is unable to fulfil, its atonement is the same as that for an oath, but if anyone takes a vow he is able to fulfil, he must do so.