Abu-Daud:
Purification (Kitab Al-Taharah)
(Chapter: The Wounded Person Performing Tayammum)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
337.
سیدنا عبداللہ بن عباس ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے دور میں ایک شخص کو زخم لگ گیا، پھر اسے احتلام ہو گیا، تو اسے غسل کرنے کا حکم دیا گیا۔ چنانچہ اس نے غسل کیا اور مر گیا۔ رسول اللہ ﷺ کو اس کی خبر پہنچی تو آپ ﷺ نے فرمایا ”انہوں نے اس کو مار ڈالا، اللہ انہیں ہلاک کرے۔ کیا جاہل کی شفاء سوال کر لینا نہیں ہے؟“
تشریح:
(1) باب کا عنوان ہمارے اس نسخے میں (اَلمَجدُور) ہے یعنی: ’’ چیچک زدہ : چونکہ اس مرض میں جسم پرچھوٹے چھوٹے زخم اور دانے نکل آتے ہیں تو بعض اوقات پانی کا استعمال کرنا مشکل ہوتا ہے۔ اور بعض نسخوں میں (اَلمَجرُوع) کا لفظ ہے، اس سے حدیث اورباب میں کوئی الجھن نہیں رہتی۔ (2) بغیر علم مکے فتوی ٰ دینا بہت بڑی جہالت ہے۔ چاہیے کہ اصحاب علم سے مُرَاجَعَہ کیا جائے۔ صحابہ کرام کے بھی اس اعتبار سے کئی مراتب تھے۔ (3) حدیث میں مذکورہ قسم کے زخم پرپٹی باندہ کر مسح کیا جائے اوراس مسح کے لیے موزوں والی کوئی شرط نہیں ہے کہ پہلے وضوکیا ہو یا وقت متعین ہو۔ (4) اگر جسم کے تھوڑے حصے پرزخم آیا ہو تو مسئلہ اسی طرح ہے جیسے کہ حدیث میں ذکر ہوا اوراگر جسم کا زیادہ حصہ مجروح اور تھوڑا صحیح ہوتو پٹیوں اور صحیح حصے پر مسح ہی کافی ہوگا۔ واللہ أعلم
گندگی و نجاست سے صفائی ستھرائی جو شرعی اصولوں کے مطابق ہو‘ اسے شرعی اصطلاح میں ’’طہارت ‘‘ کہتے ہیں نجاست خواہ حقیقی ہو ، جیسے کہ پیشاب اور پاخانہ ، اسے (خَبَثَ ) کہتے ہیں یا حکمی اور معنوی ہو ،جیسے کہ دبر سے ریح (ہوا) کا خارج ہونا، اسے (حَدَث) کہتے ہیں دین اسلام ایک پاکیزہ دین ہے اور اسلام نے اپنے ماننے والوں کو بھی طہارت اور پاکیزگی اختیار کرنے کو کہا ہے اور اس کی فضیلت و اہمیت اور وعدووعید کا خوب تذکرہ کیا ہے ۔ رسول اللہ ﷺنے طہارت کی فضیلت کے بابت فرمایا:( الطُّهُورُ شَطْرُ الْإِيمَانِ)(صحیح مسلم ‘الطہارۃ‘ حدیث:223)’’طہارت نصف ایمان ہے ‘‘ ایک اور حدیث میں طہارت کی فضیلت کے متعلق ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : .’’وضو کرنے سے ہاتھ ‘منہ اور پاؤں کے تمام (صغیرہ) گناہ معاف ہو جاتے ہیں ۔‘‘ (سنن النسائی ‘ الطہارۃ‘ حدیث: 103) طہارت اور پاکیزگی کے متعلق سرور کائنات ﷺ کا ارشاد ہے (لاَ تُقْبَلُ صَلاَةٌ بِغَيْرِ طُهُوْرٍ)(صحيح مسلم ‘الطہارۃ‘ حدیث:224) ’’ اللہ تعالیٰ طہارت کے بغیر کوئی نماز قبول نہیں فرماتا ۔‘‘اور اسی کی بابت حضرت ابوسعید خدری فرماتے ہیں ‘نبی کریم نے فرمایا (مِفْتِاحُ الصَّلاَةِ الطُّهُوْرٍ)(سنن اابن ماجہ ‘الطہارۃ‘حدیث 275۔276 ) ’’طہارت نماز کی کنجی ہے ۔‘‘ طہارت سے غفلت برتنے کی بابت نبی ﷺ سے مروی ہے :’’قبر میں زیادہ تر عذاب پیشاب کے بعد طہارت سے غفلت برتنے پر ہوتا ہے ۔‘‘ صحیح االترغیب والترھیب‘حدیث:152)
ان مذکورہ احادیث کی روشنی میں میں ایک مسلمان کے لیے واجب ہے کہ اپنے بدن ‘کپڑے اور مکان کو نجاست سے پاک رکھے ۔اللہ عزوجل نے اپنے نبی کو سب سے پہلے اسی بات کا حکم دیا تھا(وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ)المدثر:4‘5) ’’اپنے لباس کو پاکیزہ رکھیے اور گندگی سے دور رہیے۔‘‘ مکان اور بالخصوص مقام عبادت کے سلسلہ میں سیدنا ابراہیم اور اسماعیل کو حکم دیا گیا:(أَنْ طَهِّرَا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْعَاكِفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ)(البقرۃ:125)’’میرے گھر کو طواف کرنے والوں ‘اعتکاف کرنے والوں اور رکوع و سجدہ کرنے والوں کے لیے پاک صاف رکھیں۔‘‘ اللہ عزوجل اپنے طاہر اور پاکیزہ بندوں ہی سے محبت کرتا ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے (إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ)( البقرۃ:222)’’بلاشبہ اللہ توبہ کرنے والوں اور پاک رہنے والوں سے محبت کرتا ہے ۔‘‘ نیز اہل قباء کی مدح میں فرمایا:(فِيهِ رِجَالٌ يُحِبُّونَ أَنْ يَتَطَهَّرُوا وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُطَّهِّرِينَ)(التوبۃ:108)’’اس میں ایسے آدمی ہیں جو خوب پاک ہوتے کو پسند کرتے ہیں اور اللہ عزوجل پاک صاف رہنے والوں سے محبت فرماتا ہے۔‘‘
سیدنا عبداللہ بن عباس ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے دور میں ایک شخص کو زخم لگ گیا، پھر اسے احتلام ہو گیا، تو اسے غسل کرنے کا حکم دیا گیا۔ چنانچہ اس نے غسل کیا اور مر گیا۔ رسول اللہ ﷺ کو اس کی خبر پہنچی تو آپ ﷺ نے فرمایا ”انہوں نے اس کو مار ڈالا، اللہ انہیں ہلاک کرے۔ کیا جاہل کی شفاء سوال کر لینا نہیں ہے؟“
حدیث حاشیہ:
(1) باب کا عنوان ہمارے اس نسخے میں (اَلمَجدُور) ہے یعنی: ’’ چیچک زدہ : چونکہ اس مرض میں جسم پرچھوٹے چھوٹے زخم اور دانے نکل آتے ہیں تو بعض اوقات پانی کا استعمال کرنا مشکل ہوتا ہے۔ اور بعض نسخوں میں (اَلمَجرُوع) کا لفظ ہے، اس سے حدیث اورباب میں کوئی الجھن نہیں رہتی۔ (2) بغیر علم مکے فتوی ٰ دینا بہت بڑی جہالت ہے۔ چاہیے کہ اصحاب علم سے مُرَاجَعَہ کیا جائے۔ صحابہ کرام کے بھی اس اعتبار سے کئی مراتب تھے۔ (3) حدیث میں مذکورہ قسم کے زخم پرپٹی باندہ کر مسح کیا جائے اوراس مسح کے لیے موزوں والی کوئی شرط نہیں ہے کہ پہلے وضوکیا ہو یا وقت متعین ہو۔ (4) اگر جسم کے تھوڑے حصے پرزخم آیا ہو تو مسئلہ اسی طرح ہے جیسے کہ حدیث میں ذکر ہوا اوراگر جسم کا زیادہ حصہ مجروح اور تھوڑا صحیح ہوتو پٹیوں اور صحیح حصے پر مسح ہی کافی ہوگا۔ واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عطاء بن ابی رباح سے روایت ہے کہ انہوں نے عبداللہ بن عباس ؓ کو کہتے سنا کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں ایک آدمی کو زخم لگا، پھر اسے احتلام ہو گیا، تو اسے غسل کرنے کا حکم دیا گیا، اس نے غسل کیا تو وہ مر گیا، یہ بات رسول اللہ ﷺ کو معلوم ہوئی تو آپ نے فرمایا: ”ان لوگوں نے اسے مار ڈالا، اللہ انہیں مارے، کیا لاعلمی کا علاج مسئلہ پوچھ لینا نہیں تھا؟“
حدیث حاشیہ:
بغیر علم کے فتویٰ نہیں دینا چاہیے۔ چاہیے کہ اصحاب علم سے مراجعہ کیا جائے۔ زخم پر پٹی باندھ کر مسح کیا جائے اور اس مسح کے لیے موزوں والی کوئی شرط نہیں ہے کہ پہلے وضو کیا ہو یا وقت متعین ہو۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abdullah ibn Abbas:A man was injured during the lifetime of the Messenger of Allah (ﷺ); he then had a sexual dream, and he was advised to wash and he washed himself. Consequently he died. When this was reported to the Messenger of Allah (ﷺ) he said: They killed him; may Allah kill them! Is not inquiry the cure of ignorance?