مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
3437.
سیدنا ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے اس بات سے منع فرمایا ہے کہ منڈی میں سامان لانے والوں سے راستے ہی میں ملاقات کی جائے (یعنی سامان خرید لیا جائے) اگر کوئی خریدار اس سے ملا ہو اور سامان خریدا ہو تو مال والے کو بازار میں آنے کے بعد اختیار ہے۔ امام ابوداؤد ؓ نے کہا، سفیان ؓ نے کہا: کوئی شخص کسی کے سودے پر سودا نہ کرے یعنی یوں کہے کہ میرے پاس اس سے دس گنا بہتر ہے۔ (ایسا کہنا جائز نہیں۔)
تشریح:
فائدہ۔ راستے میں مال لانے والے سے مل کر سودا کرنے کا عموما مقصد ہی یہ ہوتا ہے۔ کہ بازار سے کم قیمت پر خرید لیا جائے۔ اور بازار کا بھائو مالک کے علم میں ہی نہ آئے۔ یہ طریقہ تجارت کےآزادانہ طور پر جاری رہنے میں رکاوٹ ہے۔ مارکیٹ کے عوامل میں اس طرح کی مداخلت ممنوع ہے۔ دوسرے مسلمان بھائی کی بے خبری سے فائدہ اٹھانے کی کوشش ہے۔جو مذموم ہے۔ اس لئے ممانعت کے ساتھ ہی یہ طے کردیا گیا کہ اگر راستے میں سودا طے ہو اور اس کے بعد بیچنے والے کو پتہ چل گیا کہ اس کے ساتھ دھوکا ہوا ہے۔ تو اسے بیع واپس کرنے کا اختیار ہوگا۔
اجارہ اور اجر دونوں کا بنیادی مفہوم اُجرت پر کچھ دینا ہے قرآن مجید نے اُجرت کے الفاظ حضرت شعیب اور موسیٰ کے باہمی معاہدے کے ساتھ ساتھ دودھ پلانے والی عورت کے حق کے لیے بھی استعمال کیے ہیں ‘ارشاد باری تعالیٰ ہے (فَإِنْ أَرْضَعْنَ لَكُمْ فَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ)
فقہاء نے اجارہ کی تعریف کرتے ہوئے یہ کہا ہے کہ اجارہ کسی چیز کو اپنی ملکیت میں رکھتے ہوئے متعین عوض (اجرت) کے بدلے مقررہ مدت کے لیے اس کی منفعت دوسرے کو دینے کا نام ہے ۔ جس طرح گھر اور سواری کرائے پر دی جاتی ہے یا جس طر ح کوئی مزدور اُجرت پر اپنی خدمات فروخت کرتا ہے ۔ان فقہاء کے نزدیک پھل دار درخت یا انگور کی بیل کرائے پر نہیں چڑھائی جا سکتی اس کی وجہ یہ ہے کہ اس سے درخت یا بیل کا پھل دوسرے کو ملتا ہے اور وہ منفعت نہیں ’’ایک چیز‘‘ ہے جس کی ملکیت دوسرے کو منتقل ہوتی ہے نیز حاصل کرنے والا اسے صرف کر ڈالتا ہے ۔اسی طرح ان کے نزدیک دودھ دینے والے جانور دودھ وغیرہ کے لیے کرائے پر نہیں دیے جا سکتے کیونکہ دودھ منفعت نہیں ’’ایک چیز‘‘ ہے جو دوسرے کی ملکیت میں جا کر صرف ہوتی ہے ۔(فقہ السنہ 4/119‘الفقہ الاسلامی وادلتہ:4/733)
امام ابن قیم کے نزدیک اجارے کی جو تعریف فقہاء نے کی ہے اس میں دودھ پلانے والی عورت کے حق الخدمت کو اجرت قرار نہیں دیا جا سکتا جبکہ قرآن نے اس کو ’’اجر‘‘ قرار دیا ہے اس لیے فقہاء کی بیان کردہ تعریف درست نہیں ۔فقہاء نے او اپنی وضع کر دہ تعریف پر اصرار کرتے ہوئے الٹا قرآن کے حکم کو خلاف قیاس قرار دے دیا ہے اور کئی قسم کی تاویلیں اختیار کی ہیں ۔مثلاً یہ کہ مرضعہ کو اُجرت دودھ کی نہیں بلکہ بچے کو گود میں لینے اور سینے سے لگانے وغیرہ کی دی جاتی ہے دودھ اصل مقصود ہیں نہیں وہ ویسے ہی بچے کو حاصل ہو جاتا ہے ۔ابن قیم یہ تاویلیں نقل کر کے کہتے ہیں کہ ’’ان حضرات نے حقائق کو اُلٹ دیا ہے ۔مقصود (یعنی بچے کا بطور غذا دودھ پینا) کو ذریعہ قرار دیا ہے اور ذریعے (گود میں اُٹھانا‘ سینے سے لگانا ) کو مقصد بنا دیا ہے ۔(اعلام الموقعین:2/21‘22) اس میں کوئی شک نہیں کہ فقہی تعریفیں انسانی کا وش ہیں ۔ جس میں غلطی کا امکان موجود رہتا ہے اجارے کی تعریف کرتے ہوئے قرآن نے جہاں اجر کا لفظ لولا ہے ‘ تعریف وضع کرتے ہوئے اس کو پیش نظر رکھنا چاہیے تھا۔ کیونکہ قیاس تو ہوتا ہی نص قرآن یا نص حدیث کی بنیاد پر ہے ۔ یہ بات کیسے قابل قبول ہو سکتی ہے کہ خود تعریف کر کے قرآن کے کسی حکم کو خلاف قیاس قرار دے دیا جائے۔امام ابن قیم کے نزدیک یہ اصول کہ اجارہ منفعت کا معاہدہ ہے عین یا چیز کا نہیں سرے ہی سے غلط ہے ان کے اپنے الفاظ میں:’’ اس اصل پر نہ قرآن دلالت کرتا ہے نہ سنت نہ اجماع اور نہ قیاس صحیح ۔‘‘ ان کے نزدیک جس طرح اصل چیز کے باقی رہتے ہوئے اس کا منافع سے استفادے کا معاہدہ اجارہ ہوتا ہے اسی طرح اصل چیز کے باقی رہتے ہوئے ان اشیاء کے بارے میں معاہدہ بھی جو بتدریج اس سے حاصل ہوتی رہتی ہیں ‘اجارہ ہی کہلاتا ہے اسی طرح ان کے نقظۂ نظر کے مطابق درخت یا دودھ دینے والے جانور کو اجارہ (کرایہ) پر دینا درست ہوگا کیونکہ قرآن نے دودھ پلانے والی (مُرْضِعَه) کے حق خدمت کو خود’’اجر‘‘ قرار دیا ہے (اعلام الموقعین‘ فصل ا جارۃ الظئر‘ ص31۔32)
امام ابن حزم کا موقف اگرچہ وہ نہیں جو ابن قیم کا ہے لیکن اعتراض کی حد تک دونوں میں اتفاق نظر آتا ہے ابن حزم کہتے ہیں امام مالک دودھ کے لیے ایک یا دو بھیڑوں کو اجارے پر دینا نا جائز سمجھتے ہیں لیکن دودھ ہی کے لیے پورا ریوڑ اجارے پر دینے کی اجازت دیتے ہیں جبکہ اس معاملے میں صحیح ترین قیاس یہ ہے کہ ’’دودھ کی غرض سے ایک بھیڑ کے اجرے کو رضاعت کے لیے دودھ کی تعریف باقی فقہاء کی وضع کی ہوئی تعریف کے بالمقابل قیاس صحیح اور قرآن مجید کے قریب تر ہے ۔جدید اسلامی بنکاری میں لیزنگ (Leasing) کو اجارہ قرار دیا جاتا ہے اور اس تصور کو مغربی ممالک کے بنکوں میں بھی وسیع پیمانے پر اختیار کیا گیا ہے ۔بنکوں کے طریق کار کے مطابق چیز قانونی طور مالک ہی کی ملکیت رہتی ہے استعمال کے حقوق البتہ لینے والے کو حاصل ہوتے ہیں اجرت یا کرایہ اس طرح مقرر کیا جاتا ہے کہ بنک اپنے اثاثے کی قیمت کچھ منافع سمیت مقرر مدت میں بالاقساط وصول کر لیتا ہے یہ مدت عام طور پر وہی ہوتی ہے جو چیز بنانے والے کے مطابق یا عرف عام میں اس چیز کی طبعی عمر پوری ہو جاتی ہے ۔ (تفصیل کے لیے دیکھیے:رپورٹ اسلامی نظریاتی کونسل)کا روغیرہ کی لیزنگ اسلامی طریقے پر اسی صورت کے مطابق کی جا سکتی ہے اس کو بنک فنانس لیز کہتے ہیں ۔
اگر کوئی چیز کم یا درمیانی مدت کے لیے اجارہ پر استعمال کے لیے دی جائے اور جب ایک استعمال کرنے والے کے ساتھ معاہدے کی مدت ختم ہو جائے تو مالک چیز اس سے واپس نے کر کسی دوسرے کو استعمال کے لیے اجارے پر دے دے تو اس کو بنک استعمالی اجارہ کہتے ہیں ۔
ہمارے ہاں بنکوں میں جن معاہدوں کو اجارے پر مبنی قرار دیا جا رہا ہے ان میں اجارے کی شرعی شرائط میں سے بعض کی مخالفت کی جا رہی ہے اجارے کی اسلامی صورت کے مطابق اُجرت یا کرائے پر دی گئی چیز کو لاحق ہوتے والے خطرات اور نقصانات کا ذمہ دار مالک ہوتا ہے ‘چیز لینے والے پر اس سلسلے میں کوئی بار نہیں ڈالا جا سکتا ۔ جبکہ آج کل بنک یہ ذمہ داری اجارے پر چیز لینے والے فریق پر ڈال دیتے ہیں ۔ اگر اس قباحت کو درست کر لیا جائے تو بنک کا معاہدہ اجارہ شرعاً درست ہوگا ورنہ نہیں۔اگر امام ابن قیم کی وسیع تر تعریف کو قبول کر لیا جائے (جو کہ در حقیقت صحیح ترین تعریف ہے ) تو اسلامی بنکاری کا دائرہ بہ آسانی زرعی میدانوں تک پھیلا یا جا سکتا ہے ۔امام الوداود نے ترتیب کی مناسبت سے کتاب الاجارہ کو کتاب البیوع کے وسط میں رکھا ہے تقریباً گیارہ ابواب میں ذکر کی گئی احادیث مبارکہ معاہدۂ اجارہ کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالتی ہیں ۔زیادہ تر احادیث اجرت پر مختلف خدمات(معلم کی خدمات ‘معالج کی خدمات وغیرہ) حاصل کرنے کے بارے میں ہیں ان احادیث سے واضح ہوتا ہے کہ کس طرح کی خدمات میں اجارہ جائز ہوگا اور کس طرح کی خدمات میں نا جائز ہوگا ان احادیث کےذریعے سے معاہدۂ اجارہ کے مختلف پہلوؤں پر کیا روشنی پڑتی ہے ۔ اس کی تفصیل احادیث کے مطالب کے ضمن میں آئے گی۔
سیدنا ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے اس بات سے منع فرمایا ہے کہ منڈی میں سامان لانے والوں سے راستے ہی میں ملاقات کی جائے (یعنی سامان خرید لیا جائے) اگر کوئی خریدار اس سے ملا ہو اور سامان خریدا ہو تو مال والے کو بازار میں آنے کے بعد اختیار ہے۔ امام ابوداؤد ؓ نے کہا، سفیان ؓ نے کہا: کوئی شخص کسی کے سودے پر سودا نہ کرے یعنی یوں کہے کہ میرے پاس اس سے دس گنا بہتر ہے۔ (ایسا کہنا جائز نہیں۔)
حدیث حاشیہ:
فائدہ۔ راستے میں مال لانے والے سے مل کر سودا کرنے کا عموما مقصد ہی یہ ہوتا ہے۔ کہ بازار سے کم قیمت پر خرید لیا جائے۔ اور بازار کا بھائو مالک کے علم میں ہی نہ آئے۔ یہ طریقہ تجارت کےآزادانہ طور پر جاری رہنے میں رکاوٹ ہے۔ مارکیٹ کے عوامل میں اس طرح کی مداخلت ممنوع ہے۔ دوسرے مسلمان بھائی کی بے خبری سے فائدہ اٹھانے کی کوشش ہے۔جو مذموم ہے۔ اس لئے ممانعت کے ساتھ ہی یہ طے کردیا گیا کہ اگر راستے میں سودا طے ہو اور اس کے بعد بیچنے والے کو پتہ چل گیا کہ اس کے ساتھ دھوکا ہوا ہے۔ تو اسے بیع واپس کرنے کا اختیار ہوگا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے جلب سے یعنی مال تجارت بازار میں آنے سے پہلے ہی راہ میں جا کر سودا کر لینے سے منع فرمایا ہے، لیکن اگر خریدنے والے نے آگے بڑھ کر (ارزاں) خرید لیا، تو صاحب سامان کو بازار میں آنے کے بعد اختیار ہے (کہ وہ چاہے اس بیع کو باقی رکھے، اور چاہے تو فسخ کر دے)۔ ابوعلی کہتے ہیں: میں نے ابوداؤد کو کہتے سنا کہ سفیان نے کہا کہ کسی کے بیع پر بیع نہ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ (خریدار کوئی چیز مثلاً گیارہ روپے میں خرید رہا ہے تو کوئی اس سے یہ نہ کہے) کہ میرے پاس اس سے بہتر مال دس روپے میں مل جائے گا۔
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Abu Hurairah (RA) said: Do not go out to meet what is being brought (to market for sale). If anyone does so and buys some of it, the owner of merchandise has a choice (of canceling the deal) when it comes to the market. Abu 'Ali said: I heard Abu Dawud رحمۃ اللہ علیہ say: Sufyan said: none of you must buy in opposition to one another; that is he says: I have a better one for ten (dirhams).