Abu-Daud:
Wages (Kitab Al-Ijarah)
(Chapter: Regarding One Who Does Two Transactions In One)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
3461.
سیدنا ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جس نے ایک سودے میں دو سودے کیے تو اس کے لیے ان میں سے یا تو کم قیمت ہے یا سود ہے۔“
تشریح:
توضیح۔ اس کی وضاحت میں فقہائے کرام یہ کہتے ہیں کہ اگر کوئی یوں کہے کہ اس چیز کی نقد قیمت سو روپیہ اور ادھار دو سوروپیہ ہے۔ اور وہ دونوں معاملہ کرلیں۔ لیکن نقد یا ادھار میں سے کوئی سی صورت وضاحت سے متعین نہ کریں تو یہ ایک سودے میں دو سودے ہوں گے۔ اس میں چونکہ ایک قیمت متعین نہیں ہوتی۔ اس لئے بیع فاسد ہے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ کوئی کہے میں تمھیں یہ چیز سوروپے میں فروخت کرتا ہوں۔ بشرط یہ کہ تم اپنی فلاں چیز پچاس روپے میں مجھے فروخت کرو۔ یہ بھی ایک سودے میں دو سودے ہیں۔ اور غرض دو سرے کی چیز سستی لینا ہے۔ اس میں سود کا عنصر شامل ہے۔ یہ صورت بھی مذکورہ بالا باب میں بیان کردہ صورت کی طرح سود کا ایک حیلے کے طور پر اختیار کرنا ہے۔ علامہ ابن اثیر ؒ نے ایک سودے میں دو سودوں کی ایک صورت یہ بھی لکھی ہے۔ کہ کسی ایک نے دوسرے کو پانچ سو روپے دیے ہوں۔ کہ ایک مہینے میں مجھے گندم کی بوری دے دینا مگر وقت آنے پر وہ گندم نہ دے سکے تو دوسرا پہلے سے کہہ سکے کہ تم مجھے وہ بوری فروخت کردو۔ میں ایک مہینہ بعد تمھیں دو بوریاں دوں گا۔ یہ تو صریح سود ہے۔ نیز ایک معدوم شے کی بیع بھی ہے۔جو جائز نہیں۔ خیال رہے کہ پہلی صورت میں اگر دونوں فریق کسی ایک قیمت پر متفق ہوکرعلیحدہ ہوں۔ تو کوئی حرج نہیں۔ یہ بیع بالکل صحیح ہوگی۔ علماء فقہاء کی اکثریت اس کے جواز کی قائل ہے۔ بنا بریں ان فقہاء کے نزدیک نقد ادھار کی قیمت میں فرق جائز ہے۔ اور اس طرح قسطوں پر کاروبار بھی جائز ہے۔ تاہم علماء کا ایک گروہ اس کے جواز کا قائل نہیں ہے۔ ان کے نزدیک نقد وادھار کی قیمت کا فرق حدیث کے الفاظ (فله أوكسها أو الربا) کی رو سے ربا کا واضح احتمال اپنے اندر رکھتا ہے۔ اس لئے قسطوں کا کاروبار ربا (سود) کے شائبے سے پاک نہیں ہے۔ جب ایسے ہے تو اس کاروبار سے بچنا بہرحال بہتر ہے۔ اسی طرح قسطوں پر اشیاء کا خریدنا بھی خلاف اولیٰ ہے۔ واللہ اعلم۔
اجارہ اور اجر دونوں کا بنیادی مفہوم اُجرت پر کچھ دینا ہے قرآن مجید نے اُجرت کے الفاظ حضرت شعیب اور موسیٰ کے باہمی معاہدے کے ساتھ ساتھ دودھ پلانے والی عورت کے حق کے لیے بھی استعمال کیے ہیں ‘ارشاد باری تعالیٰ ہے (فَإِنْ أَرْضَعْنَ لَكُمْ فَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ)
فقہاء نے اجارہ کی تعریف کرتے ہوئے یہ کہا ہے کہ اجارہ کسی چیز کو اپنی ملکیت میں رکھتے ہوئے متعین عوض (اجرت) کے بدلے مقررہ مدت کے لیے اس کی منفعت دوسرے کو دینے کا نام ہے ۔ جس طرح گھر اور سواری کرائے پر دی جاتی ہے یا جس طر ح کوئی مزدور اُجرت پر اپنی خدمات فروخت کرتا ہے ۔ان فقہاء کے نزدیک پھل دار درخت یا انگور کی بیل کرائے پر نہیں چڑھائی جا سکتی اس کی وجہ یہ ہے کہ اس سے درخت یا بیل کا پھل دوسرے کو ملتا ہے اور وہ منفعت نہیں ’’ایک چیز‘‘ ہے جس کی ملکیت دوسرے کو منتقل ہوتی ہے نیز حاصل کرنے والا اسے صرف کر ڈالتا ہے ۔اسی طرح ان کے نزدیک دودھ دینے والے جانور دودھ وغیرہ کے لیے کرائے پر نہیں دیے جا سکتے کیونکہ دودھ منفعت نہیں ’’ایک چیز‘‘ ہے جو دوسرے کی ملکیت میں جا کر صرف ہوتی ہے ۔(فقہ السنہ 4/119‘الفقہ الاسلامی وادلتہ:4/733)
امام ابن قیم کے نزدیک اجارے کی جو تعریف فقہاء نے کی ہے اس میں دودھ پلانے والی عورت کے حق الخدمت کو اجرت قرار نہیں دیا جا سکتا جبکہ قرآن نے اس کو ’’اجر‘‘ قرار دیا ہے اس لیے فقہاء کی بیان کردہ تعریف درست نہیں ۔فقہاء نے او اپنی وضع کر دہ تعریف پر اصرار کرتے ہوئے الٹا قرآن کے حکم کو خلاف قیاس قرار دے دیا ہے اور کئی قسم کی تاویلیں اختیار کی ہیں ۔مثلاً یہ کہ مرضعہ کو اُجرت دودھ کی نہیں بلکہ بچے کو گود میں لینے اور سینے سے لگانے وغیرہ کی دی جاتی ہے دودھ اصل مقصود ہیں نہیں وہ ویسے ہی بچے کو حاصل ہو جاتا ہے ۔ابن قیم یہ تاویلیں نقل کر کے کہتے ہیں کہ ’’ان حضرات نے حقائق کو اُلٹ دیا ہے ۔مقصود (یعنی بچے کا بطور غذا دودھ پینا) کو ذریعہ قرار دیا ہے اور ذریعے (گود میں اُٹھانا‘ سینے سے لگانا ) کو مقصد بنا دیا ہے ۔(اعلام الموقعین:2/21‘22) اس میں کوئی شک نہیں کہ فقہی تعریفیں انسانی کا وش ہیں ۔ جس میں غلطی کا امکان موجود رہتا ہے اجارے کی تعریف کرتے ہوئے قرآن نے جہاں اجر کا لفظ لولا ہے ‘ تعریف وضع کرتے ہوئے اس کو پیش نظر رکھنا چاہیے تھا۔ کیونکہ قیاس تو ہوتا ہی نص قرآن یا نص حدیث کی بنیاد پر ہے ۔ یہ بات کیسے قابل قبول ہو سکتی ہے کہ خود تعریف کر کے قرآن کے کسی حکم کو خلاف قیاس قرار دے دیا جائے۔امام ابن قیم کے نزدیک یہ اصول کہ اجارہ منفعت کا معاہدہ ہے عین یا چیز کا نہیں سرے ہی سے غلط ہے ان کے اپنے الفاظ میں:’’ اس اصل پر نہ قرآن دلالت کرتا ہے نہ سنت نہ اجماع اور نہ قیاس صحیح ۔‘‘ ان کے نزدیک جس طرح اصل چیز کے باقی رہتے ہوئے اس کا منافع سے استفادے کا معاہدہ اجارہ ہوتا ہے اسی طرح اصل چیز کے باقی رہتے ہوئے ان اشیاء کے بارے میں معاہدہ بھی جو بتدریج اس سے حاصل ہوتی رہتی ہیں ‘اجارہ ہی کہلاتا ہے اسی طرح ان کے نقظۂ نظر کے مطابق درخت یا دودھ دینے والے جانور کو اجارہ (کرایہ) پر دینا درست ہوگا کیونکہ قرآن نے دودھ پلانے والی (مُرْضِعَه) کے حق خدمت کو خود’’اجر‘‘ قرار دیا ہے (اعلام الموقعین‘ فصل ا جارۃ الظئر‘ ص31۔32)
امام ابن حزم کا موقف اگرچہ وہ نہیں جو ابن قیم کا ہے لیکن اعتراض کی حد تک دونوں میں اتفاق نظر آتا ہے ابن حزم کہتے ہیں امام مالک دودھ کے لیے ایک یا دو بھیڑوں کو اجارے پر دینا نا جائز سمجھتے ہیں لیکن دودھ ہی کے لیے پورا ریوڑ اجارے پر دینے کی اجازت دیتے ہیں جبکہ اس معاملے میں صحیح ترین قیاس یہ ہے کہ ’’دودھ کی غرض سے ایک بھیڑ کے اجرے کو رضاعت کے لیے دودھ کی تعریف باقی فقہاء کی وضع کی ہوئی تعریف کے بالمقابل قیاس صحیح اور قرآن مجید کے قریب تر ہے ۔جدید اسلامی بنکاری میں لیزنگ (Leasing) کو اجارہ قرار دیا جاتا ہے اور اس تصور کو مغربی ممالک کے بنکوں میں بھی وسیع پیمانے پر اختیار کیا گیا ہے ۔بنکوں کے طریق کار کے مطابق چیز قانونی طور مالک ہی کی ملکیت رہتی ہے استعمال کے حقوق البتہ لینے والے کو حاصل ہوتے ہیں اجرت یا کرایہ اس طرح مقرر کیا جاتا ہے کہ بنک اپنے اثاثے کی قیمت کچھ منافع سمیت مقرر مدت میں بالاقساط وصول کر لیتا ہے یہ مدت عام طور پر وہی ہوتی ہے جو چیز بنانے والے کے مطابق یا عرف عام میں اس چیز کی طبعی عمر پوری ہو جاتی ہے ۔ (تفصیل کے لیے دیکھیے:رپورٹ اسلامی نظریاتی کونسل)کا روغیرہ کی لیزنگ اسلامی طریقے پر اسی صورت کے مطابق کی جا سکتی ہے اس کو بنک فنانس لیز کہتے ہیں ۔
اگر کوئی چیز کم یا درمیانی مدت کے لیے اجارہ پر استعمال کے لیے دی جائے اور جب ایک استعمال کرنے والے کے ساتھ معاہدے کی مدت ختم ہو جائے تو مالک چیز اس سے واپس نے کر کسی دوسرے کو استعمال کے لیے اجارے پر دے دے تو اس کو بنک استعمالی اجارہ کہتے ہیں ۔
ہمارے ہاں بنکوں میں جن معاہدوں کو اجارے پر مبنی قرار دیا جا رہا ہے ان میں اجارے کی شرعی شرائط میں سے بعض کی مخالفت کی جا رہی ہے اجارے کی اسلامی صورت کے مطابق اُجرت یا کرائے پر دی گئی چیز کو لاحق ہوتے والے خطرات اور نقصانات کا ذمہ دار مالک ہوتا ہے ‘چیز لینے والے پر اس سلسلے میں کوئی بار نہیں ڈالا جا سکتا ۔ جبکہ آج کل بنک یہ ذمہ داری اجارے پر چیز لینے والے فریق پر ڈال دیتے ہیں ۔ اگر اس قباحت کو درست کر لیا جائے تو بنک کا معاہدہ اجارہ شرعاً درست ہوگا ورنہ نہیں۔اگر امام ابن قیم کی وسیع تر تعریف کو قبول کر لیا جائے (جو کہ در حقیقت صحیح ترین تعریف ہے ) تو اسلامی بنکاری کا دائرہ بہ آسانی زرعی میدانوں تک پھیلا یا جا سکتا ہے ۔امام الوداود نے ترتیب کی مناسبت سے کتاب الاجارہ کو کتاب البیوع کے وسط میں رکھا ہے تقریباً گیارہ ابواب میں ذکر کی گئی احادیث مبارکہ معاہدۂ اجارہ کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالتی ہیں ۔زیادہ تر احادیث اجرت پر مختلف خدمات(معلم کی خدمات ‘معالج کی خدمات وغیرہ) حاصل کرنے کے بارے میں ہیں ان احادیث سے واضح ہوتا ہے کہ کس طرح کی خدمات میں اجارہ جائز ہوگا اور کس طرح کی خدمات میں نا جائز ہوگا ان احادیث کےذریعے سے معاہدۂ اجارہ کے مختلف پہلوؤں پر کیا روشنی پڑتی ہے ۔ اس کی تفصیل احادیث کے مطالب کے ضمن میں آئے گی۔
سیدنا ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جس نے ایک سودے میں دو سودے کیے تو اس کے لیے ان میں سے یا تو کم قیمت ہے یا سود ہے۔“
حدیث حاشیہ:
توضیح۔ اس کی وضاحت میں فقہائے کرام یہ کہتے ہیں کہ اگر کوئی یوں کہے کہ اس چیز کی نقد قیمت سو روپیہ اور ادھار دو سوروپیہ ہے۔ اور وہ دونوں معاملہ کرلیں۔ لیکن نقد یا ادھار میں سے کوئی سی صورت وضاحت سے متعین نہ کریں تو یہ ایک سودے میں دو سودے ہوں گے۔ اس میں چونکہ ایک قیمت متعین نہیں ہوتی۔ اس لئے بیع فاسد ہے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ کوئی کہے میں تمھیں یہ چیز سوروپے میں فروخت کرتا ہوں۔ بشرط یہ کہ تم اپنی فلاں چیز پچاس روپے میں مجھے فروخت کرو۔ یہ بھی ایک سودے میں دو سودے ہیں۔ اور غرض دو سرے کی چیز سستی لینا ہے۔ اس میں سود کا عنصر شامل ہے۔ یہ صورت بھی مذکورہ بالا باب میں بیان کردہ صورت کی طرح سود کا ایک حیلے کے طور پر اختیار کرنا ہے۔ علامہ ابن اثیر ؒ نے ایک سودے میں دو سودوں کی ایک صورت یہ بھی لکھی ہے۔ کہ کسی ایک نے دوسرے کو پانچ سو روپے دیے ہوں۔ کہ ایک مہینے میں مجھے گندم کی بوری دے دینا مگر وقت آنے پر وہ گندم نہ دے سکے تو دوسرا پہلے سے کہہ سکے کہ تم مجھے وہ بوری فروخت کردو۔ میں ایک مہینہ بعد تمھیں دو بوریاں دوں گا۔ یہ تو صریح سود ہے۔ نیز ایک معدوم شے کی بیع بھی ہے۔جو جائز نہیں۔ خیال رہے کہ پہلی صورت میں اگر دونوں فریق کسی ایک قیمت پر متفق ہوکرعلیحدہ ہوں۔ تو کوئی حرج نہیں۔ یہ بیع بالکل صحیح ہوگی۔ علماء فقہاء کی اکثریت اس کے جواز کی قائل ہے۔ بنا بریں ان فقہاء کے نزدیک نقد ادھار کی قیمت میں فرق جائز ہے۔ اور اس طرح قسطوں پر کاروبار بھی جائز ہے۔ تاہم علماء کا ایک گروہ اس کے جواز کا قائل نہیں ہے۔ ان کے نزدیک نقد وادھار کی قیمت کا فرق حدیث کے الفاظ (فله أوكسها أو الربا) کی رو سے ربا کا واضح احتمال اپنے اندر رکھتا ہے۔ اس لئے قسطوں کا کاروبار ربا (سود) کے شائبے سے پاک نہیں ہے۔ جب ایسے ہے تو اس کاروبار سے بچنا بہرحال بہتر ہے۔ اسی طرح قسطوں پر اشیاء کا خریدنا بھی خلاف اولیٰ ہے۔ واللہ اعلم۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ”جس نے ایک معاملہ میں دو طرح کی بیع کی تو جو کم والی ہو گی وہی لاگو ہو گی (اور دوسری ٹھکرا دی جائے گی) کیونکہ وہ سود ہو جائے گی۱؎۔“
حدیث حاشیہ:
۱؎: «بيعتين في بيعة» ایک چیز کے بیچنے میں دو طرح کی بیع کرنا جیسے بیچنے والا خریدنے والے سے یہ کہے کہ یہ کپڑا ایک دینار کا ہے اور یہ دو دینار کا اور خریدنے والے کو دونوں میں سے ایک لینا پڑے، بعض لوگوں نے کہا کہ اس کی مثال یہ ہے کہ بیچنے والا خریدنے والے سے کہے کہ میں نے تمہارے ہاتھ یہ کپڑا نقد دس روپیہ میں اور ادھار پندرہ میں بیچا، بعضوں نے کہا: بیچنے والا خریدار سے کہے کہ میں نے اپنا باغ تمہارے ہاتھ اس شرط سے بیچا کہ تم اپنا گھر میرے ہاتھ بیچو، مگر دوسری صورت اس حدیث کے مضمون سے زیادہ مناسب ہے کیونکہ ایک چیز کی دو بیع میں دو قیمتیں کم اور زیادہ ہیں، اور اگر کم کو اختیار نہ کرے تو سود لازم ہو گا، ایک بیع میں دو بیع کی تشریح ابن القیم نے اس طرح کی ہے: بیچنے والا خریدنے والے کے ہاتھ کوئی سامان سو روپے ادھار پر بیچے، پھر خریدار سے اسی سامان کو اسی روپے نقد پر خرید لے، چونکہ یہ بیع سود تک پہنچانے والی ہے اس لئے ناجائز ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurayrah (RA): The Prophet (ﷺ) said: If anyone makes two transactions combined in one bargain, he should have the lesser of the two or it will involve usury.