Abu-Daud:
The Office of the Judge (Kitab Al-Aqdiyah)
(Chapter: Regarding The Judge Who Is Mistaken)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
3576.
سیدنا ابن عباس ؓ نے بیان کیا کہ سورۃ المائدہ کی یہ تینوں آیات: (وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ فَأُولَئِكَ هُمْ الْكَافِرُونَ *** إلى قوله *** الفاسقون) یہودیوں کے قبائل بالخصوص قریظہ اور بنو نضیر کے متعلق نازل ہوئی تھیں۔
تشریح:
فائدہ: ان آیات میں ہے کہ جو فیصلہ کرنے والے اللہ کی نازل کردہ شریعت کے مطابق فیصلہ نہ کریں۔ وہ کافر ہیں۔ ظالم ہیں۔ فاسق ہیں۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے فرمان سے پتہ چلتا ہے کہ فیصلے کے فریق غیر مسلم ہوں۔ تو پھر بھی فیصلہ مبنی بروحی قوانین کے مطابق کرنا ہوں گا۔ چاہے وہ ان کی آسمانی کتاب کے قوانین کیوں نہ ہوں۔ ان کے خود ساختہ قوانین کے مطابق فیصلہ کرنا ہو تو یہ منصب کوئی مسلمان قبول نہیں کرسکتا۔ چہ جائے کہ مسلمانوں کے درمیان قوانین وحی سے ہٹ کر دوسرے قوانین کے ذریعے سے فیصلہ کیا جائے؟
سنن ابوداود کی کتاب القضاء کا آغاز عمل قضا کی اہمیت‘ غرض مندوں اور مفاد پرستوں سے عمل قضا کو دور رکھنے اور فیصلہ کرنے کے حوالے سے اہم بنیادی اصول و آداب کے بیان سے ہوا اس کے بعد شہادت کے بارے میں انتہائی اہم اصولوں کا تذکرہ کیا گیا ۔پھر وہ احادیث لائی گئیں جن میں بتایا گیا ہے کہ شہادت کی عدم دستیابی کی صورت میں کیا طریقہ اختیار کرنا چاہیے اس کے بعد اس بارے میں روایات لائی گئیں کہ قرض وغیرہ کے معاملے میں حق دار کا حق ثابت ہو جانے کے بعد عملاً اس کی حق رسی کیسے کرائی جائے ‘اس کے بعد وکالت کا تذکرہ ہے اور آخر میں بعض انتہائی مشکل کیسوں کے بارے میں رسول اللہ ﷺ کے فیصلے ذکر کیے گئے ہیں۔ ان میں سے ہر فیصلے کے ذریعے سے کئی انتہائی اہم اصول سامنے آتے ہیں جن کی قدم قدم پر جج کی ضرورت پڑتی ہے۔
یہ ذیلی کتاب بنیادی طور پر قضا اور آداب ِقضا کے متعلق ہے اس میں وہ اصول بیان کیے گئے ہیں جن کو آج کل قانون ضابطہ یا (Proedural Law) کی اساس سمجھا جاتا ہے اس حصے میں بالتفصیل قوانین کا بیان مقصود نہیں کیونکہ قوانین الگ الگ عنوانات سے بیان کر دیے گئے ہیں سول قوانین کا بیان کتا ب البیوع وغیرہ میں‘فوجداری قوانین کتاب الحدود میں ۔ اسی طرح میراث ‘نکاح و طلاق ‘ہبہ‘وصیت‘جنگ و امن وغیرہ کے قوانین اپنے اپنے متعلقہ عنوانات کے تحت بیان کر دیے گئے ہیں۔
٭منصب قضا کی اہمیت اور قاضی(judge) بننے کی صلاحیت : جج کا منصب ہمیشہ ایک پرُ وقار منصب سمجھا گیا۔ اس میں انسان کو ہر پیش ہونے والے معاملے میں بہت زیادہ اختیار بھی حاصل ہو جاتا ہے اس لیے یہ ایک ’’پرُ کشش ‘‘ ذمہ داری ہے اور اس بات کا امکان بہت زیادہ ہے کہ جو اس کی کشش کا شکار ہو جاتا ہے وہ ’’ذمہ داری‘‘ والے عنصر کو صحیح طور پر پیش نظر رکھنے میں ناکام رہتا ہے رسول اللہ ﷺ کا فرمان جس سے امام ابودادونے کتاب کے اس حصہ کا آغاز کیا ہے اس ذمہ داری کی سنگینی کو واضح کرتا ہے اگر کوئی انسان اس کی طلب اور کشش سے بچا رہا لیکن ذمہ داری اس کے سپرد کر دی گئی تو اس کے لیے وہ عظیم خوش خبری ہے جو حضرت عمرو بن العاص کی روایت کردہ حدیث (3574) میں بیان کی گئی ہے۔مسلمان کے لیے یہ بات لازمی ہے کہ قضا کی ذمہ داری صرف اور صرف اسی صورت میں قبول کرے جب وہ فیصلہ وحی الہٰی پر مبنی قوانین اور انصاف کے مطابق کر سکتا ہو ان سے ہٹ کر دوسرے قوانین کے تحت جن سے عموماً انصاف کے تقاضے پورے نہیں ہوتے فیصلہ کرنے کا امکان ہو تو اس صورت میں یہ ذمہ داری قبول کرنا ہی حرام ہے۔(حدیث:3576‘3590‘3591)اگر کوئی انسان خود اس عہدے کا طلب گار ہو گا تو ظاہر ہے وہ اس عہدے کی مادی یا منصبی کشش ہی کی بنا پر اس کا خواہاں ہوگا رسول اللہ ﷺ نے ایسے شخص کو اس عہدہ کے لیے نا اہل قرار دیا ہے مادی کشش میں رشوت ستانی بدترین ہے اس سلسلے میں رشوت کے ساتھ ہدیے وغیرہ کنے کو بھی سختی سے ممنوع قرار دیا گیا ہے۔
سیدنا ابن عباس ؓ نے بیان کیا کہ سورۃ المائدہ کی یہ تینوں آیات: (وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ فَأُولَئِكَ هُمْ الْكَافِرُونَ*** إلى قوله *** الفاسقون) یہودیوں کے قبائل بالخصوص قریظہ اور بنو نضیر کے متعلق نازل ہوئی تھیں۔
حدیث حاشیہ:
فائدہ: ان آیات میں ہے کہ جو فیصلہ کرنے والے اللہ کی نازل کردہ شریعت کے مطابق فیصلہ نہ کریں۔ وہ کافر ہیں۔ ظالم ہیں۔ فاسق ہیں۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے فرمان سے پتہ چلتا ہے کہ فیصلے کے فریق غیر مسلم ہوں۔ تو پھر بھی فیصلہ مبنی بروحی قوانین کے مطابق کرنا ہوں گا۔ چاہے وہ ان کی آسمانی کتاب کے قوانین کیوں نہ ہوں۔ ان کے خود ساختہ قوانین کے مطابق فیصلہ کرنا ہو تو یہ منصب کوئی مسلمان قبول نہیں کرسکتا۔ چہ جائے کہ مسلمانوں کے درمیان قوانین وحی سے ہٹ کر دوسرے قوانین کے ذریعے سے فیصلہ کیا جائے؟
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ بن عباس ؓ کہتے ہیں آیت کریمہ (وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ فَأُولَئِكَ هُمْ الْكَافِرُونَ) ”جو اللہ کے حکم کے موافق فیصلہ نہ کریں وہ کافر ہیں۔“ اللہ تعالیٰ کے قول «الفاسقون» سورة المائدة: (۴۴، ۴۵، ۴۷) تک، یہ تینوں آیتیں یہودیوں کے متعلق اور بطور خاص بنی قریظہ اور بنی نضیر کی شان میں نازل ہوئیں۔
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Ibn 'Abbas (RA) said: "If any do fail to judge (by the light of) what Allah has revealed, they are (no better than) unbelievers "up to" wrongdoers". These three verses were revealed about the Jews, particularly about Quraizah and al-Nadir.