مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
3647.
مطلب بن عبداللہ بن حنطب سے منقول ہے کہ سیدنا زید بن ثابت ؓ، سیدنا معاویہ ؓ کے ہاں آئے تو انہوں نے ان سے ایک حدیث کے بارے میں پوچھا۔ تو معاویہ ؓ نے ایک شخص سے کہا کہ اسے لکھ لو، تو سیدنا زید بن ثابت ؓ نے ان سے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں حکم دیا تھا کہ ہم ان کی کوئی حدیث ضبط تحریر میں نہ لائیں۔ چنانچہ انہوں نے اسے مٹا دیا۔
تشریح:
فائدہ: یہ روایت سندا ضعیف ہے۔ تاہم ایک صحیح حدیث بھی ہے۔ جس میں نبی کریم ﷺ نے فرمایا۔ تم مجھ سے قرآن کے والوہ کچھ نہ لکھو۔ اور قرآن کے علاوہ کچھ مجھ سے لکھا ہے۔ تو اسے مٹا دو۔ اور مجھ سے حدیث بیان کرو۔ اس میں کوئی حرج نہیں۔ (صحیح مسلم، الذھد، باب الثبت في الحدیث وحکم کتابة العلم، حدیث: 3004) اس حدیث میں حدیث رسول لکھنے سے منع کیا گیا ہے۔ جب کہ دوسری روایات سے صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین کے احادیث لکھنے کا اثبات ہوتا ہے۔ اور خود نبی ﷺ کی طرف سے حدیث کے لکھنے کا حکم ملتا ہے۔ علماء نے ان کے درمیان یہ تطبیق دی ہے۔ کہ جن صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین کی قوت ضبط وحافظہ زیادہ تھی۔ (اور عربوں میں یہ خوبی عام تھی) ان کو آپ نے حدیث لکھنے سے منع فرمایا۔ تاکہ وہ کتابت ہی پر سارا بھر وسا نہ کریں۔ اور حفظ وضبط سے بے نیاز نہ ہوجایئں۔ اور لکھنے کا حکم اور اس کی اجازت ان لوگوں کو دی جن کی قوت حافظہ کمزور تھی۔ دوسری توجیہ اس ی یہ کی گئی ہے کہ ابتداء میں حدیث لکھنے سے روک دیا گیا تھا تاکہ قرآن کے ساتھ اس کا اختلاط نہ ہو۔ اور جب صحابہ قرآن کے اسلوب سے اچھی طرح واقف ہوگئے اور اختلاط کا خطرہ نہ رہا تو احادیث لکھنے کی بھی اجازت دے دی گئی۔ تیسری تطبیق یہ ہے کہ نہی کا مطلب یہ تھا کہ ایک ہی صحیفے میں قرآن کے ساتھ حدیث نہ لکھوتا کہ پڑھنے والا اشتباہ میں نہ پڑے۔ (شرح نووی) بہر حال ممانعت کی حدیث سے یہ استدلال کرنا کہ حدیث کی حفاظت کا اہتمام نہیں کیا گیا۔ بلکہ اس س روک دیا گیا۔ یکسر غلط ہے۔ اگر اس کا یہ مقصد ہوتا تو پھر آپ اسی حدیث میں حدیث بیان کرنے کی اجازت کیوں دیتے؟ جو حفظ وضبط کے بغیر ممکن ہی نہیں اسی طرح حدیث رسول ﷺ کو اچھی طرح یاد کرکے اسےآگے بیان کرنے والے کےلئے نبی کریمﷺدعائے خیر کیوں فرماتے؟ بہرحال یہ امر مسلمہ ہے کہ آپﷺ کی حیات مبارکہ میں احادیث ضبط تحریر میں لائی گئی تھیں۔
اللہ تعالیٰ کی بے شمار وان گنت نعمتوں میں سے علم ایک عظیم نعمت ہے علم ہی کی بدولت دین و دنیا کی کامیابی و کامرانی نصیب ہوتی ہے۔دنیا کی قیادت اور آخرت کی سیادت علم ہی پر موقوف ہے دنیا میں جتنے بھی نامور ہوئے ہیں وہ اپنے علم و عمل ہی کی بدولت اپنے ہم عنصروں پر فوقیت کے حقدار ٹھہرے علم وہ نور ہے جس سے جہالت کی گمراہیاں دور ہوتی ہیں ۔انسان حقوق اللہ اور حقوق العباد کو پہچان کر ادائیگی کے قابل ہوتا ہے اگر علم کی روشنی نہ ہو تو انسان ہر دوقسم کے حقوق ضائع کر کے دنیا و آخرت کی رسوائیاں سمیٹ لیتا ہے علم کی اسی فضیلت کی بدولت پروردگار عالم کو جاہل پر فوقیت دی ہے ارشاد ہے(قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَالَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ إِنَّمَا يَتَذَكَّرُ أُولُو الْأَلْبَابِ)
’’کیا جاننے والے اور نہ جاننے والے برابر ہو سکتے ہیں بے شک عقل مند ہی نصیحت پکڑتے ہیں۔‘‘
علم کی اعلیٰ وارفع شان کا پتہ اس سے بھی چلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے انبیاء و رسل پر علم کا خصوصی فضل کر کے اسے بطور احسان جتلایا ہے اور اس نعمت کے عطا کرنے پر خصوصی طور پر اس ے ذکر کیا ہے ۔نبی آخرالزمانﷺ کو یہ نعمت عطا کی تو فرمایا(وَأَنْزَلَ اللَّهُ عَلَيْكَ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَعَلَّمَكَ مَا لَمْ تَكُنْ تَعْلَمُ وَكَانَ فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكَ عَظِيمًا) (النساء:4/113) ’’اللہ تعالیٰ نے تجھ پر کتاب و حکمت اتاری ہے اور تجھے وہ سکھایا ہے جسے تو جانتا نہیں تھا اور اللہ تعالیٰ کا تجھ پر بڑا بھاری فضل ہے۔‘‘
یوسف پر اس نعمت کے فیضان کو ان الفاظ میں ذکر کیا(وَلَمَّا بَلَغَ أَشُدَّهُ آتَيْنَاهُ حُكْمًا وَعِلْمًا وَكَذَلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ)(یوسف:12/22)
’’اور جب(یوسف) پختگی کی عمر کو پہنچ گئے تو ہم نے اسے قوتِ فیصلہ اور علم دیا‘ ہم نیک کاروں کو اسی طرح بدلہ دیتے ہیں۔‘‘
عیسیٰ روح اللہ کو اپنی نعمت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:( يَا عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ اذْكُرْ نِعْمَتِي عَلَيْكَ وَعَلَى وَالِدَتِكَ إِذْ أَيَّدْتُكَ بِرُوحِ الْقُدُسِ تُكَلِّمُ النَّاسَ فِي الْمَهْدِ وَكَهْلًا وَإِذْ عَلَّمْتُكَ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَالتَّوْرَاةَ وَالْإِنْجِيلَ)(المائدہ:5/110)
’’اے عیسیٰ ابن مریم !میرا انعام یاد کرو جوتم پر اور تمہاری والدہ پر ہوا ‘جب میں نے تم کو روح القدس سے تائید دی تم لوگوں سے کلام کرتے تھے گود میں بھی اور بڑی عمر میں بھی ‘اور جب کہ میں نے تم کو کتاب اور حکمت کی باتیں اور تورات اور انجیل کی تعلیم دی۔‘‘
اہل علم ہی وہ خوش نصیب ہیں جو حقوق اللہ کو جانتے ہیں‘ لوگوں کو ان کی تعلیم دیتے ہیں اور خود بھی عمل پیرا ہوتے ہیں ،لہذا وہ جانتے ہیں کہ مشکل کشا ‘گنج بخش ‘دستگیر‘حاجت روا اور داتا صرف وہی ذات الہی ہے ‘ان کی اس شہادت کو مالک جہاں نے نہایت شرف و منزلت سے نوازہ ہے ،ارشاد ہے:( شَهِدَ اللَّهُ أَنَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ وَالْمَلَائِكَةُ وَأُولُو الْعِلْمِ قَائِمًا بِالْقِسْطِ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ)(آل عمران:3/18)
’’اللہ تعالیٰ ‘فرشتے اور اہل علم اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی سچا معبود نہیں۔وہ انصاف کے ساتھ حکومت کر رہا ہے اس کے سوا کوئی معبود حقیقی نہیں ہے وہ زبر دست حکمت والا ہے ۔‘‘
اس طرح اللہ تعالیٰ نے اہل علم کی گواہی کو اپنی گواہی کے ساتھ ملا کر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے عظیم و بر تر بنا دیا ۔ علم وہ ومنفرد نعمت ہے جس میں اضافے کے حصول کے لیے تاجدار مدینہ کو اپنے رب سے خصوصی دعا کرنے کا حکم دیا گیا ہے ارشاد ہے() (طہ :20/114)
’’اور (اے نبی)جب تک تجھ پر قرآن کا ترنا پورا نہ ہو اس کے پڑھنے میں جلدی نہ کیا کر اور دعا کر میرے رب میرے علم میں اضافہ فرما۔‘‘
رسول اللہ ﷺنے نا صرف خود علم میں اضافے کے لیے التجائیں کی ہیں بلکہ اپنی امت کو بھی علم کے حصول کے لیے ترغیب دلائی ہے ،لہذا آپ کا ارشاد گرامی ہے:
[فضل العالم على العابد كفضلي على أدناكم إن الله عز وجل وملائكته وأهل السموات والأرض حتى النملة في جحرها وحتى الحوت ليصلون على معلم الناس الخير ](صحيح الجامع :حديث634 او جامع الترمذى ،العلم ،باب ما جاء فى فضل الفقه على العبادة ،حديث:2685)’’بے شک اللہ تعالیٰ لوگوں کو خیر کی تعلیم دینے والے پر اپنی خصوصی رحمتیں نازل کرتا ہے ‘اس کے فرشتے ‘اور زمین میں بسنے والی تمام مخلوقات حتی کہ چیونٹی اپنے بل میں اور مچھلی (سمندر میں) اس کے لیے دعائے خیر کرتی ہے۔‘‘نیز فرمایا:
[فَضْلُ العَالِمِ عَلَى العَابِدِ كَفَضْلِي عَلَى أَدْنَاكُمْ](صحيح الجامع،حديث:4089 و جامع الترمذى،العلم،باب ماجاء فى فضل الفقه على العبادة،حديث:2685)
’’عالم کی عابد پر اسی طرح فضیلت ہے جیسے میری تم میں سے کم تر شخص پر ہے۔‘‘
عالم ربانی کے لیے اس سے بڑھ کر اور فضل و کرم ہو سکتا ہے ؟کیا علم سے بڑھ کر بھی کسی اور چیز کی قدرومنزلت ہو سکتی ہے ؟
علم کی اسی فضیلت کی بدولت اہل علم نے دن رات کے حصول کے لیے محنت شاقہ کی ہے ۔ہزاروں میل کا سفر اس کے حصول کے لیے کیا ہے دنیا کی ہر نعمت سے بڑھ کر اس کا اکرام کیا ہے تب یہ علم اپنی تمام تر روشنائیوں سمیت ہم تک منتقل ہوا ہے اللہ تعالیٰ ہمیں علم کی قدر کرنے کی توفیق نصیب فرمائے۔آمین
مطلب بن عبداللہ بن حنطب سے منقول ہے کہ سیدنا زید بن ثابت ؓ، سیدنا معاویہ ؓ کے ہاں آئے تو انہوں نے ان سے ایک حدیث کے بارے میں پوچھا۔ تو معاویہ ؓ نے ایک شخص سے کہا کہ اسے لکھ لو، تو سیدنا زید بن ثابت ؓ نے ان سے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں حکم دیا تھا کہ ہم ان کی کوئی حدیث ضبط تحریر میں نہ لائیں۔ چنانچہ انہوں نے اسے مٹا دیا۔
حدیث حاشیہ:
فائدہ: یہ روایت سندا ضعیف ہے۔ تاہم ایک صحیح حدیث بھی ہے۔ جس میں نبی کریم ﷺ نے فرمایا۔ تم مجھ سے قرآن کے والوہ کچھ نہ لکھو۔ اور قرآن کے علاوہ کچھ مجھ سے لکھا ہے۔ تو اسے مٹا دو۔ اور مجھ سے حدیث بیان کرو۔ اس میں کوئی حرج نہیں۔ (صحیح مسلم، الذھد، باب الثبت في الحدیث وحکم کتابة العلم، حدیث: 3004) اس حدیث میں حدیث رسول لکھنے سے منع کیا گیا ہے۔ جب کہ دوسری روایات سے صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین کے احادیث لکھنے کا اثبات ہوتا ہے۔ اور خود نبی ﷺ کی طرف سے حدیث کے لکھنے کا حکم ملتا ہے۔ علماء نے ان کے درمیان یہ تطبیق دی ہے۔ کہ جن صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین کی قوت ضبط وحافظہ زیادہ تھی۔ (اور عربوں میں یہ خوبی عام تھی) ان کو آپ نے حدیث لکھنے سے منع فرمایا۔ تاکہ وہ کتابت ہی پر سارا بھر وسا نہ کریں۔ اور حفظ وضبط سے بے نیاز نہ ہوجایئں۔ اور لکھنے کا حکم اور اس کی اجازت ان لوگوں کو دی جن کی قوت حافظہ کمزور تھی۔ دوسری توجیہ اس ی یہ کی گئی ہے کہ ابتداء میں حدیث لکھنے سے روک دیا گیا تھا تاکہ قرآن کے ساتھ اس کا اختلاط نہ ہو۔ اور جب صحابہ قرآن کے اسلوب سے اچھی طرح واقف ہوگئے اور اختلاط کا خطرہ نہ رہا تو احادیث لکھنے کی بھی اجازت دے دی گئی۔ تیسری تطبیق یہ ہے کہ نہی کا مطلب یہ تھا کہ ایک ہی صحیفے میں قرآن کے ساتھ حدیث نہ لکھوتا کہ پڑھنے والا اشتباہ میں نہ پڑے۔ (شرح نووی) بہر حال ممانعت کی حدیث سے یہ استدلال کرنا کہ حدیث کی حفاظت کا اہتمام نہیں کیا گیا۔ بلکہ اس س روک دیا گیا۔ یکسر غلط ہے۔ اگر اس کا یہ مقصد ہوتا تو پھر آپ اسی حدیث میں حدیث بیان کرنے کی اجازت کیوں دیتے؟ جو حفظ وضبط کے بغیر ممکن ہی نہیں اسی طرح حدیث رسول ﷺ کو اچھی طرح یاد کرکے اسےآگے بیان کرنے والے کےلئے نبی کریمﷺدعائے خیر کیوں فرماتے؟ بہرحال یہ امر مسلمہ ہے کہ آپﷺ کی حیات مبارکہ میں احادیث ضبط تحریر میں لائی گئی تھیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
مطلب بن عبداللہ بن حنطب کہتے ہیں کہ زید بن ثابت ؓ معاویہ ؓ کے پاس آئے اور ان سے ایک حدیث کے متعلق پوچھا، تو انہوں نے ایک شخص کو اس حدیث کے لکھنے کا حکم دیا، تو زید ؓ نے ان سے کہا: رسول اللہ ﷺ نے ہمیں حکم دیا ہے کہ ہم آپ کی حدیثوں میں سے کچھ نہ لکھیں تو انہوں نے اسے مٹا دیا۱؎۔
حدیث حاشیہ:
۱؎: یہ ممانعت پہلے تھی جب احادیث کے قرآن کے ساتھ خلط ملط ہو جانے کا اندیشہ تھا، بعد میں کتابت حدیث کی اجازت دے دی گئی، جیسا کہ پہلی روایت سے واضح ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Zayd ibn Thabit (RA): Al-Muttalib ibn 'Abdullah ibn Hantab said: Zayd ibn Thabit entered upon Mu'awiyah and asked him about a tradition. He ordered a man to write it. Zayd said: The Apostle of Allah (ﷺ) ordered us not to write any of his traditions. So he erased it.