مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
3655.
سیدنا عروہ بن زبیر سے منقول ہے کہ نبی کریم ﷺ کی زوجہ محترمہ ام المؤمنین سیدہ عائشہ ؓ نے کہا: کیا تمہیں ابوہریرہ پر تعجب نہیں آتا کہ وہ آئے اور میرے حجرے کے پاس بیٹھ کر مجھے سنانے کو، رسول اللہ ﷺ کی حدیثیں بیان کرنے لگے، جبکہ میں نوافل پڑھ رہی تھی، اور پھر میرے نماز مکمل کرنے سے پہلے ہی اٹھ کر چل دیے۔ اگر میں انہیں پاتی تو میں انہیں بتاتی کہ رسول اللہ ﷺ تمہاری طرح تیز تیز باتیں نہیں کیا کرتے تھے۔
تشریح:
فائدہ: تیزتیز بولناعام طور پر بھی کسی طرح ممدوح نہیں ہے۔ بالخصوص داعی خطیب اور مدرس کی گفتگو میں ٹھرائو کا ہونا بہت ہی عمدہ صفت ہے۔
اللہ تعالیٰ کی بے شمار وان گنت نعمتوں میں سے علم ایک عظیم نعمت ہے علم ہی کی بدولت دین و دنیا کی کامیابی و کامرانی نصیب ہوتی ہے۔دنیا کی قیادت اور آخرت کی سیادت علم ہی پر موقوف ہے دنیا میں جتنے بھی نامور ہوئے ہیں وہ اپنے علم و عمل ہی کی بدولت اپنے ہم عنصروں پر فوقیت کے حقدار ٹھہرے علم وہ نور ہے جس سے جہالت کی گمراہیاں دور ہوتی ہیں ۔انسان حقوق اللہ اور حقوق العباد کو پہچان کر ادائیگی کے قابل ہوتا ہے اگر علم کی روشنی نہ ہو تو انسان ہر دوقسم کے حقوق ضائع کر کے دنیا و آخرت کی رسوائیاں سمیٹ لیتا ہے علم کی اسی فضیلت کی بدولت پروردگار عالم کو جاہل پر فوقیت دی ہے ارشاد ہے(قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَالَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ إِنَّمَا يَتَذَكَّرُ أُولُو الْأَلْبَابِ)
’’کیا جاننے والے اور نہ جاننے والے برابر ہو سکتے ہیں بے شک عقل مند ہی نصیحت پکڑتے ہیں۔‘‘
علم کی اعلیٰ وارفع شان کا پتہ اس سے بھی چلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے انبیاء و رسل پر علم کا خصوصی فضل کر کے اسے بطور احسان جتلایا ہے اور اس نعمت کے عطا کرنے پر خصوصی طور پر اس ے ذکر کیا ہے ۔نبی آخرالزمانﷺ کو یہ نعمت عطا کی تو فرمایا(وَأَنْزَلَ اللَّهُ عَلَيْكَ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَعَلَّمَكَ مَا لَمْ تَكُنْ تَعْلَمُ وَكَانَ فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكَ عَظِيمًا) (النساء:4/113) ’’اللہ تعالیٰ نے تجھ پر کتاب و حکمت اتاری ہے اور تجھے وہ سکھایا ہے جسے تو جانتا نہیں تھا اور اللہ تعالیٰ کا تجھ پر بڑا بھاری فضل ہے۔‘‘
یوسف پر اس نعمت کے فیضان کو ان الفاظ میں ذکر کیا(وَلَمَّا بَلَغَ أَشُدَّهُ آتَيْنَاهُ حُكْمًا وَعِلْمًا وَكَذَلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ)(یوسف:12/22)
’’اور جب(یوسف) پختگی کی عمر کو پہنچ گئے تو ہم نے اسے قوتِ فیصلہ اور علم دیا‘ ہم نیک کاروں کو اسی طرح بدلہ دیتے ہیں۔‘‘
عیسیٰ روح اللہ کو اپنی نعمت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:( يَا عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ اذْكُرْ نِعْمَتِي عَلَيْكَ وَعَلَى وَالِدَتِكَ إِذْ أَيَّدْتُكَ بِرُوحِ الْقُدُسِ تُكَلِّمُ النَّاسَ فِي الْمَهْدِ وَكَهْلًا وَإِذْ عَلَّمْتُكَ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَالتَّوْرَاةَ وَالْإِنْجِيلَ)(المائدہ:5/110)
’’اے عیسیٰ ابن مریم !میرا انعام یاد کرو جوتم پر اور تمہاری والدہ پر ہوا ‘جب میں نے تم کو روح القدس سے تائید دی تم لوگوں سے کلام کرتے تھے گود میں بھی اور بڑی عمر میں بھی ‘اور جب کہ میں نے تم کو کتاب اور حکمت کی باتیں اور تورات اور انجیل کی تعلیم دی۔‘‘
اہل علم ہی وہ خوش نصیب ہیں جو حقوق اللہ کو جانتے ہیں‘ لوگوں کو ان کی تعلیم دیتے ہیں اور خود بھی عمل پیرا ہوتے ہیں ،لہذا وہ جانتے ہیں کہ مشکل کشا ‘گنج بخش ‘دستگیر‘حاجت روا اور داتا صرف وہی ذات الہی ہے ‘ان کی اس شہادت کو مالک جہاں نے نہایت شرف و منزلت سے نوازہ ہے ،ارشاد ہے:( شَهِدَ اللَّهُ أَنَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ وَالْمَلَائِكَةُ وَأُولُو الْعِلْمِ قَائِمًا بِالْقِسْطِ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ)(آل عمران:3/18)
’’اللہ تعالیٰ ‘فرشتے اور اہل علم اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی سچا معبود نہیں۔وہ انصاف کے ساتھ حکومت کر رہا ہے اس کے سوا کوئی معبود حقیقی نہیں ہے وہ زبر دست حکمت والا ہے ۔‘‘
اس طرح اللہ تعالیٰ نے اہل علم کی گواہی کو اپنی گواہی کے ساتھ ملا کر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے عظیم و بر تر بنا دیا ۔ علم وہ ومنفرد نعمت ہے جس میں اضافے کے حصول کے لیے تاجدار مدینہ کو اپنے رب سے خصوصی دعا کرنے کا حکم دیا گیا ہے ارشاد ہے() (طہ :20/114)
’’اور (اے نبی)جب تک تجھ پر قرآن کا ترنا پورا نہ ہو اس کے پڑھنے میں جلدی نہ کیا کر اور دعا کر میرے رب میرے علم میں اضافہ فرما۔‘‘
رسول اللہ ﷺنے نا صرف خود علم میں اضافے کے لیے التجائیں کی ہیں بلکہ اپنی امت کو بھی علم کے حصول کے لیے ترغیب دلائی ہے ،لہذا آپ کا ارشاد گرامی ہے:
[فضل العالم على العابد كفضلي على أدناكم إن الله عز وجل وملائكته وأهل السموات والأرض حتى النملة في جحرها وحتى الحوت ليصلون على معلم الناس الخير ](صحيح الجامع :حديث634 او جامع الترمذى ،العلم ،باب ما جاء فى فضل الفقه على العبادة ،حديث:2685)’’بے شک اللہ تعالیٰ لوگوں کو خیر کی تعلیم دینے والے پر اپنی خصوصی رحمتیں نازل کرتا ہے ‘اس کے فرشتے ‘اور زمین میں بسنے والی تمام مخلوقات حتی کہ چیونٹی اپنے بل میں اور مچھلی (سمندر میں) اس کے لیے دعائے خیر کرتی ہے۔‘‘نیز فرمایا:
[فَضْلُ العَالِمِ عَلَى العَابِدِ كَفَضْلِي عَلَى أَدْنَاكُمْ](صحيح الجامع،حديث:4089 و جامع الترمذى،العلم،باب ماجاء فى فضل الفقه على العبادة،حديث:2685)
’’عالم کی عابد پر اسی طرح فضیلت ہے جیسے میری تم میں سے کم تر شخص پر ہے۔‘‘
عالم ربانی کے لیے اس سے بڑھ کر اور فضل و کرم ہو سکتا ہے ؟کیا علم سے بڑھ کر بھی کسی اور چیز کی قدرومنزلت ہو سکتی ہے ؟
علم کی اسی فضیلت کی بدولت اہل علم نے دن رات کے حصول کے لیے محنت شاقہ کی ہے ۔ہزاروں میل کا سفر اس کے حصول کے لیے کیا ہے دنیا کی ہر نعمت سے بڑھ کر اس کا اکرام کیا ہے تب یہ علم اپنی تمام تر روشنائیوں سمیت ہم تک منتقل ہوا ہے اللہ تعالیٰ ہمیں علم کی قدر کرنے کی توفیق نصیب فرمائے۔آمین
سیدنا عروہ بن زبیر سے منقول ہے کہ نبی کریم ﷺ کی زوجہ محترمہ ام المؤمنین سیدہ عائشہ ؓ نے کہا: کیا تمہیں ابوہریرہ پر تعجب نہیں آتا کہ وہ آئے اور میرے حجرے کے پاس بیٹھ کر مجھے سنانے کو، رسول اللہ ﷺ کی حدیثیں بیان کرنے لگے، جبکہ میں نوافل پڑھ رہی تھی، اور پھر میرے نماز مکمل کرنے سے پہلے ہی اٹھ کر چل دیے۔ اگر میں انہیں پاتی تو میں انہیں بتاتی کہ رسول اللہ ﷺ تمہاری طرح تیز تیز باتیں نہیں کیا کرتے تھے۔
حدیث حاشیہ:
فائدہ: تیزتیز بولناعام طور پر بھی کسی طرح ممدوح نہیں ہے۔ بالخصوص داعی خطیب اور مدرس کی گفتگو میں ٹھرائو کا ہونا بہت ہی عمدہ صفت ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عروہ بن زبیر کہتے ہیں کہ ام المؤمنین عائشہ ؓ نے کہا: کیا تمہیں ابوہریرہ ؓ پر تعجب نہیں کہ وہ آئے اور میرے حجرے کے ایک جانب بیٹھے اور مجھے سنانے کے لیے رسول اللہ ﷺ سے حدیث بیان کرنے لگے، میں نفل نماز پڑھ رہی تھی، تو وہ قبل اس کے کہ میں اپنی نماز سے فارغ ہوتی اٹھے (اور چلے گئے) اور اگر میں انہیں پاتی تو ان سے کہتی کہ رسول اللہ ﷺ تمہاری طرح جلدی جلدی باتیں نہیں کرتے تھے۔
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Aishah, Ummul Mu'minin (RA): Are you not surprised at Abu Hurayrah? He came and sat beside my apartment, and began to narrate traditions from the Apostle of Allah (ﷺ) making me hear them. I am saying supererogatory prayer. He got up (and went away) before I finished my prayer. Had I found him, I would have replied to him. The Apostle of Allah (ﷺ) did not narrate traditions quickly one after another as you narrate quickly.