Abu-Daud:
Knowledge (Kitab Al-Ilm)
(Chapter: The virtue of spreading knowledge)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
3660.
سیدنا زید بن ثابت ؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو سنا آپ ﷺ فرماتے تھے: ”اللہ تعالیٰ اس شخص کو خوش و خرم اور شاداب رکھے جس نے ہم سے کوئی حدیث سنی پھر اسے حفظ کیا اور یاد رکھا تاکہ اسے پہنچائے، بہت سے علم و فقہ کے حامل اپنے سے بڑھ کر زیادہ دانا اور فقیہ لوگوں کو پہنچاتے ہیں، اور بہت سے علم و فقہ کے حامل ایسے ہوتے ہیں جو درحقیقت دانا اور فقیہ نہیں ہوتے۔“
تشریح:
1۔ صاحب حدیث کو لازم ہے۔ کہ نقل الفاظ میں حفظ وامانت کو پیش نظر رکھے۔ البتہ فہم واستنباط ایک وہبی ملکہ ہے۔ جو اللہ تعالیٰ مختلف طبقات میں اصحاب علم کو عنایت فرماتا رہتا ہے۔ عین ممکن ہے کہ براہ راست سننے والا وہ کچھ نہ سمجھ سکے۔ جو اس کے شاگرد کی سمجھ میں آجائے۔ 2۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ علم شریعت کا مدار براہ راست اساتذہ سے پڑھنے اور سننے میں ہے۔ جو شخص محض کتابیں پڑھ کر کوئی چیز سمجھتا ہے۔ وہ اتنا معتمد نہیں جتنا کہ اساتذہ سے پڑھنے اور سننے والا ہوسکتا ہے۔ محض کتابوں سے پڑھنے والے کو محدثین کی اصطلاح میں صحفی کہا جاتا ہے۔ 3۔ حدیث میں وارد فقہ وفقیہ کے الفاظ معروف اصطلاحی کلمات نہیں ہیں۔ جو کہ بہت بعد میں ایجاد ہوئے ہیں۔ اس سے مراد فہم واستنباط مسائل کا وہبی ملکہ ہے۔
اللہ تعالیٰ کی بے شمار وان گنت نعمتوں میں سے علم ایک عظیم نعمت ہے علم ہی کی بدولت دین و دنیا کی کامیابی و کامرانی نصیب ہوتی ہے۔دنیا کی قیادت اور آخرت کی سیادت علم ہی پر موقوف ہے دنیا میں جتنے بھی نامور ہوئے ہیں وہ اپنے علم و عمل ہی کی بدولت اپنے ہم عنصروں پر فوقیت کے حقدار ٹھہرے علم وہ نور ہے جس سے جہالت کی گمراہیاں دور ہوتی ہیں ۔انسان حقوق اللہ اور حقوق العباد کو پہچان کر ادائیگی کے قابل ہوتا ہے اگر علم کی روشنی نہ ہو تو انسان ہر دوقسم کے حقوق ضائع کر کے دنیا و آخرت کی رسوائیاں سمیٹ لیتا ہے علم کی اسی فضیلت کی بدولت پروردگار عالم کو جاہل پر فوقیت دی ہے ارشاد ہے(قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَالَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ إِنَّمَا يَتَذَكَّرُ أُولُو الْأَلْبَابِ)
’’کیا جاننے والے اور نہ جاننے والے برابر ہو سکتے ہیں بے شک عقل مند ہی نصیحت پکڑتے ہیں۔‘‘
علم کی اعلیٰ وارفع شان کا پتہ اس سے بھی چلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے انبیاء و رسل پر علم کا خصوصی فضل کر کے اسے بطور احسان جتلایا ہے اور اس نعمت کے عطا کرنے پر خصوصی طور پر اس ے ذکر کیا ہے ۔نبی آخرالزمانﷺ کو یہ نعمت عطا کی تو فرمایا(وَأَنْزَلَ اللَّهُ عَلَيْكَ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَعَلَّمَكَ مَا لَمْ تَكُنْ تَعْلَمُ وَكَانَ فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكَ عَظِيمًا) (النساء:4/113) ’’اللہ تعالیٰ نے تجھ پر کتاب و حکمت اتاری ہے اور تجھے وہ سکھایا ہے جسے تو جانتا نہیں تھا اور اللہ تعالیٰ کا تجھ پر بڑا بھاری فضل ہے۔‘‘
یوسف پر اس نعمت کے فیضان کو ان الفاظ میں ذکر کیا(وَلَمَّا بَلَغَ أَشُدَّهُ آتَيْنَاهُ حُكْمًا وَعِلْمًا وَكَذَلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ)(یوسف:12/22)
’’اور جب(یوسف) پختگی کی عمر کو پہنچ گئے تو ہم نے اسے قوتِ فیصلہ اور علم دیا‘ ہم نیک کاروں کو اسی طرح بدلہ دیتے ہیں۔‘‘
عیسیٰ روح اللہ کو اپنی نعمت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:( يَا عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ اذْكُرْ نِعْمَتِي عَلَيْكَ وَعَلَى وَالِدَتِكَ إِذْ أَيَّدْتُكَ بِرُوحِ الْقُدُسِ تُكَلِّمُ النَّاسَ فِي الْمَهْدِ وَكَهْلًا وَإِذْ عَلَّمْتُكَ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَالتَّوْرَاةَ وَالْإِنْجِيلَ)(المائدہ:5/110)
’’اے عیسیٰ ابن مریم !میرا انعام یاد کرو جوتم پر اور تمہاری والدہ پر ہوا ‘جب میں نے تم کو روح القدس سے تائید دی تم لوگوں سے کلام کرتے تھے گود میں بھی اور بڑی عمر میں بھی ‘اور جب کہ میں نے تم کو کتاب اور حکمت کی باتیں اور تورات اور انجیل کی تعلیم دی۔‘‘
اہل علم ہی وہ خوش نصیب ہیں جو حقوق اللہ کو جانتے ہیں‘ لوگوں کو ان کی تعلیم دیتے ہیں اور خود بھی عمل پیرا ہوتے ہیں ،لہذا وہ جانتے ہیں کہ مشکل کشا ‘گنج بخش ‘دستگیر‘حاجت روا اور داتا صرف وہی ذات الہی ہے ‘ان کی اس شہادت کو مالک جہاں نے نہایت شرف و منزلت سے نوازہ ہے ،ارشاد ہے:( شَهِدَ اللَّهُ أَنَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ وَالْمَلَائِكَةُ وَأُولُو الْعِلْمِ قَائِمًا بِالْقِسْطِ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ)(آل عمران:3/18)
’’اللہ تعالیٰ ‘فرشتے اور اہل علم اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی سچا معبود نہیں۔وہ انصاف کے ساتھ حکومت کر رہا ہے اس کے سوا کوئی معبود حقیقی نہیں ہے وہ زبر دست حکمت والا ہے ۔‘‘
اس طرح اللہ تعالیٰ نے اہل علم کی گواہی کو اپنی گواہی کے ساتھ ملا کر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے عظیم و بر تر بنا دیا ۔ علم وہ ومنفرد نعمت ہے جس میں اضافے کے حصول کے لیے تاجدار مدینہ کو اپنے رب سے خصوصی دعا کرنے کا حکم دیا گیا ہے ارشاد ہے() (طہ :20/114)
’’اور (اے نبی)جب تک تجھ پر قرآن کا ترنا پورا نہ ہو اس کے پڑھنے میں جلدی نہ کیا کر اور دعا کر میرے رب میرے علم میں اضافہ فرما۔‘‘
رسول اللہ ﷺنے نا صرف خود علم میں اضافے کے لیے التجائیں کی ہیں بلکہ اپنی امت کو بھی علم کے حصول کے لیے ترغیب دلائی ہے ،لہذا آپ کا ارشاد گرامی ہے:
[فضل العالم على العابد كفضلي على أدناكم إن الله عز وجل وملائكته وأهل السموات والأرض حتى النملة في جحرها وحتى الحوت ليصلون على معلم الناس الخير ](صحيح الجامع :حديث634 او جامع الترمذى ،العلم ،باب ما جاء فى فضل الفقه على العبادة ،حديث:2685)’’بے شک اللہ تعالیٰ لوگوں کو خیر کی تعلیم دینے والے پر اپنی خصوصی رحمتیں نازل کرتا ہے ‘اس کے فرشتے ‘اور زمین میں بسنے والی تمام مخلوقات حتی کہ چیونٹی اپنے بل میں اور مچھلی (سمندر میں) اس کے لیے دعائے خیر کرتی ہے۔‘‘نیز فرمایا:
[فَضْلُ العَالِمِ عَلَى العَابِدِ كَفَضْلِي عَلَى أَدْنَاكُمْ](صحيح الجامع،حديث:4089 و جامع الترمذى،العلم،باب ماجاء فى فضل الفقه على العبادة،حديث:2685)
’’عالم کی عابد پر اسی طرح فضیلت ہے جیسے میری تم میں سے کم تر شخص پر ہے۔‘‘
عالم ربانی کے لیے اس سے بڑھ کر اور فضل و کرم ہو سکتا ہے ؟کیا علم سے بڑھ کر بھی کسی اور چیز کی قدرومنزلت ہو سکتی ہے ؟
علم کی اسی فضیلت کی بدولت اہل علم نے دن رات کے حصول کے لیے محنت شاقہ کی ہے ۔ہزاروں میل کا سفر اس کے حصول کے لیے کیا ہے دنیا کی ہر نعمت سے بڑھ کر اس کا اکرام کیا ہے تب یہ علم اپنی تمام تر روشنائیوں سمیت ہم تک منتقل ہوا ہے اللہ تعالیٰ ہمیں علم کی قدر کرنے کی توفیق نصیب فرمائے۔آمین
سیدنا زید بن ثابت ؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو سنا آپ ﷺ فرماتے تھے: ”اللہ تعالیٰ اس شخص کو خوش و خرم اور شاداب رکھے جس نے ہم سے کوئی حدیث سنی پھر اسے حفظ کیا اور یاد رکھا تاکہ اسے پہنچائے، بہت سے علم و فقہ کے حامل اپنے سے بڑھ کر زیادہ دانا اور فقیہ لوگوں کو پہنچاتے ہیں، اور بہت سے علم و فقہ کے حامل ایسے ہوتے ہیں جو درحقیقت دانا اور فقیہ نہیں ہوتے۔“
حدیث حاشیہ:
1۔ صاحب حدیث کو لازم ہے۔ کہ نقل الفاظ میں حفظ وامانت کو پیش نظر رکھے۔ البتہ فہم واستنباط ایک وہبی ملکہ ہے۔ جو اللہ تعالیٰ مختلف طبقات میں اصحاب علم کو عنایت فرماتا رہتا ہے۔ عین ممکن ہے کہ براہ راست سننے والا وہ کچھ نہ سمجھ سکے۔ جو اس کے شاگرد کی سمجھ میں آجائے۔ 2۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ علم شریعت کا مدار براہ راست اساتذہ سے پڑھنے اور سننے میں ہے۔ جو شخص محض کتابیں پڑھ کر کوئی چیز سمجھتا ہے۔ وہ اتنا معتمد نہیں جتنا کہ اساتذہ سے پڑھنے اور سننے والا ہوسکتا ہے۔ محض کتابوں سے پڑھنے والے کو محدثین کی اصطلاح میں صحفی کہا جاتا ہے۔ 3۔ حدیث میں وارد فقہ وفقیہ کے الفاظ معروف اصطلاحی کلمات نہیں ہیں۔ جو کہ بہت بعد میں ایجاد ہوئے ہیں۔ اس سے مراد فہم واستنباط مسائل کا وہبی ملکہ ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
زید بن ثابت ؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: ”اللہ تعالیٰ اس شخص کو تروتازہ رکھے جس نے ہم سے کوئی بات سنی اور اسے یاد رکھا یہاں تک کہ اسے دوسروں تک پہنچا دیا کیونکہ بہت سے حاملین فقہ ایسے ہیں جو فقہ کو اپنے سے زیادہ فقہ و بصیرت والے کو پہنچا دیتے ہیں، اور بہت سے فقہ کے حاملین خود فقیہ نہیں ہوتے ہیں۔‘‘
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Zayd ibn Thabit (RA): I heard the Apostle of Allah (ﷺ) say: May Allah brighten a man who hears a tradition from us, gets it by heart and passes it on to others. May a bearer of knowledge conveys it to one who is more versed than he is; and may a bearer of knowledge is not versed in it.