Abu-Daud:
Drinks (Kitab Al-Ashribah)
(Chapter: Regarding drinking while standing)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
3718.
جناب نزال بن سبرہ سے روایت ہے کہ سیدنا علی ؓ نے پانی منگوایا اور کھڑے ہو کر پیا، پھر کہا: تحقیق کچھ لوگ اس کو مکرو سمجھنے لگے ہیں حالانکہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا ہے کہ اس طرح کر لیا کرتے تھے، جیسے تم نے مجھے کرتے دیکھا ہے۔ (یعنی کھڑے ہو کر پی لیا کرتے تھے)۔
تشریح:
فائدہ: جامع ترمذی کی ایک حدیث جس کو امام ترمذی نے صحیح کہا ہے۔ اس میں ہے کہ حضرت کبشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بیان کیا کہ ر سول اللہ ﷺ ان کے ہاں گئے۔ گھر میں مشکیزہ لٹک رہا تھا۔ تو آپﷺنے اس سے کھڑے کھڑے پانی نوش فرمایا۔ پھر میں نے اس مشکیزے کے منہ کا وہ حصہ (جس سے آپﷺ کا دہن مبارک مس ہوا تھا۔) کاٹ کر رکھ لیا۔ (جامع الترمذي، الأشربة، حدیث: 1892) اس حدیث سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ اگرچہ مشکیزے کو منہ لگا کر پینے کی حوصلہ شکنی کی گئی ہے۔ اور آپﷺ نے اس سے روکا ہے۔ لیکن یہ نہی نہی تحریمی نہیں۔ اسے معمول بنائے بغیر ضرورت کے وقت ایسا کیا جا سکتا ہے۔ جس طرح اگلی حدیث میں وارد ہوا۔ آپﷺکا یہ عمل امت کےلئے آسانی پیدا کرنے کا ذریعہ ہے۔ اس طرح کا ایک واقعہ مسند احمد میں ام سلیم رضی اللہ عنہا سے بھی مروی ہے۔ (مسند أحمد: 376/6) نیز سفر حج میں بھی نبی کریمﷺ نے زمزم کھڑے ہوکر پیا تھا۔ (صحیح البخاري، الحج، حدیث: 1637)
٭الأطعمة کی تعریف :’’اطعمة‘‘ طعام کی جمع ہے ،قاموس میں اس کے معنی کیے گئے ہیں :’’اَلْبُرُّ وَمَا يُو كَلُ‘‘ گندم اور جو چیز کھائی جاتی ہے اسے ’’طعام‘‘ کہا جاتا ہے بعض علمائے لغت کے نزدیک ’’طعام ‘‘ سے مراد صرف کھنانا ہی نہیں بلکہ بعض اوقات پینے والی چیز پر بھی ’’طعام‘‘ کا اطلاق ہوتا ہے ،جیسے ارشاد باری تعالیٰ ہے:
(إِنَّ اللَّهَ مُبْتَلِيكُمْ بِنَهَرٍ فَمَنْ شَرِبَ مِنْهُ فَلَيْسَ مِنِّي وَمَنْ لَمْ يَطْعَمْهُ فَإِنَّهُ مِنِّي) ’’بےشک اللہ تعالیٰ تمہیں ایک نہر سے آزمانے والا ہے جس نے اس پانی پی لیا وہ مجھ سے نہیں اور جس نے اس کا پانی نہ چکھا ‘تو یقیناً وہ میرا ہے ۔‘‘(البقرہ:249)
اسی طرح ارشاد نبوی ہے [زَمْزَمُ طَعَأمُ طُعْمٍ وَ شِفَاءُ سُقْمٍ]
’’زمزم کھانے والے کا کھانا ہے اور بیمار کے لیے شفا ہے ۔‘‘(مجمع الزوائد:3/286 والمعجم الکبیر للطبرانی:11/98)
٭أشربة کی لغوی تعریف :’’ أشربة ‘‘ شراب کی جمع ہے ‘یعنی ہر بہنے والی چیز جسے پیا جائے وہ شراب کہلاتی ہے ،ہمارے ہاں اُسے مشروب کہا جاتا ہے۔
٭کھانے پینے کی مشروعیت :اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے لیے بے شمار نعمتیں بطور خوراک پیدا کی ہیں ۔پھر مزید رحمت فرماتے ہوئے ہر اس کھانے ‘پینے کی چیز کو حرام قرار دیا جو انسانی صحت اور عقل کے لیے نقصان دہ تھی اور ہر وہ چیز جو مفید تھی اسے حلال رکھا‘ خود وہ دانے ہوں ‘پھل ہوں یا جانوروں کی شکل میں ہوں،لہذا رشاد ربانی ہے () ’’اللہ تعالیٰ کے رزق سے کھاؤ اور پیو۔‘‘(البقرہ:249)
کھانے اور پینے کا بنیادی مقصد انسانی بقا ہے تا کہ انسان اپنے رب کی اطاعت اور فرمانبرداری کے لیے ہر دم تیار ہو ۔ اس کی صحت اس کا بھر پور ساتھ دے تا کہ وہ اطاعت میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے سکے اس لیے صرف حلال اور مفید چیزیں کھانے کی پابندی عائد کر دی ۔ارشاد باری تعالیٰ ہے(يَا أَيُّهَا النَّاسُ كُلُوا مِمَّا فِي الْأَرْضِ حَلَالًا طَيِّبًا)
’’اے لوگو!تم ان چیزوں میں سے کھاؤ جو زمین میں حلال اور پاکیزہ ہیں۔‘‘(البقرہ:168)
رحمت دو عالم ﷺ نے امت کی رہنمائی کرتے ہوئے فرمایا :
[ كُلُوا وَاشْرَبُوا وَالبَسُوا وَتَصَدَّقُوا، فِي غَيْرِ إِسْرَافٍ وَلاَ مَخِيلَةٍ...] ’’کھاؤ پیو اور صدقہ خیرات کرو‘بغیر اسراف و تکبر و غرور کیے لباس پہنو ،کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنے بندے پر اپنی نعمتوں کا اثر دیکھنا پسند کرتا ہے ۔‘‘(مسند احمد:2/181‘182 نیز امام بخاری نے بھی اسے کتاب اللباس کے شروع میں معلقاً بیان کیا ہے)
٭کھانے اور پینے کے چند نبوی آداب: کھانے اور پینے کا بنیادی قانون یہ ہے کہ وہ چیز حلال اور پاکیزہ ہو ، ارشاد نبوی ہے:[ كُلُّ مُسْكِرٍ خَمْرٌ، وَكُلُّ خَمْرٍ حَرَامٌ.](صحيح مسلم، الأشربة ،باب بيان ان كل مسكر خمر وان كل خمر حرام ، حديث:2003)’’ہر نشہ آور چیز شراب ہے اور ہر شراب حرام ہے۔‘‘
٭جن چیزوں کو شریعت نے حرام قرار دے دیا ہے ان سے مکمل اجتناب کرنا ضروری ہے مثلاً مردہ جانور کا گوشت کھانا ‘خنزیر‘ ذبح کے وقت بہنے والا خون ‘قبروں اور بتوں کی نذر کیا جانے والا کھانا اور جانور ‘ہر کچلی اور پنجے سے شکار کرنے والا جانور وغیرہ۔
٭کھانے اور پینے کا مقصد اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لیے تقویت ارو بھوک مٹانا ہو تو یہ باعث اجر بن جاتا ہے ۔
٭کھانے اور پینے سے پہلے بسم اللہ اور فارغ ہو کر االحمداللہ یا دیگر مسنون دعائیں پڑھنا مستحب ہے ۔
٭کھانا کھانے سے پہلے ہاتھ دھونا اور بیٹھ کر کھانا افضل و بہتر ہے۔
٭کھانے میں عیب نکالنا اور باتیں بنانا غلط ہے ‘ہاں اگر طبیعت نہ مانے تو نہ کھائے۔
٭کھانا دائیں ہاتھ سے اور اپنے سامنے سے کھانا چاہیے ،کیونکہ شیطان بائیں ہاتھ سے کھاتا پیتا ہے ۔
٭اگر کھانے کے دوران میں لقمہ گر جائے تو اسے صاف کر کے کھا لینا چاہیے۔
٭کھانے کی دعوت قبول کرنی چاہیے۔
٭اگر چند افراد مل کر کھانا کھا رہے ہوں تو ان کا خیال رکھنا چاہیے۔
٭کھانے کو ٹھنڈا کر نے کے لیے پھونکیں مارنا درست نہیں۔
٭ٹیک لگا کر یا لیٹ کر کھانا درست نہیں۔
٭ملازموں اور خادموں کو ساتھ بٹھا کر کھانا کھلانا افضل ہے ‘ورنہ انہیں کھانے میں سے کچھ نہ کچھ ضرور دینا چاہیے۔
٭کھانا کھانے کے بعد انگلیاں چاپ لینا سنت ہے ، البتہ دھونا بھی درست ہے ۔
٭دعوت کرنے والے کے حق میں دعا کرنی چاہیے۔
٭جن جانوروں کا گوشت کھایا نہیں جاتا ان کا دودھ پینا بھی درست ہے۔
٭تمباکو ‘سگریٹ ‘افیون‘ اور ہیرون وغیرہ سخت حرام ہیں-
٭ایسا جوس جس میں جوش اور نشہ پیدا ہو چکا اسے پینا حرام ہے۔
٭بوقت ضرورت کھڑے ہو کر پینا درست ہے۔
٭مشروب کو تین سانسوں میں پینا سنت ہے ‘ہر بار منہ برتن سے ہٹا کر سانس لینا چاہیے
٭اگر برتن میں کوئی چیز نظر آئے تو اسے ہاتھ سے یا مشروب بہا کر نکالنا چاہیے ‘پھونک مارنا ٹھیک نہیں۔
٭کھانا یا مشروب پیش کرے وقت دائیں جانب سے شروع کرنا چاہیے۔
٭مشروب پیش کرنے والا سب کے آخر میں خود نوش کرے۔
جناب نزال بن سبرہ سے روایت ہے کہ سیدنا علی ؓ نے پانی منگوایا اور کھڑے ہو کر پیا، پھر کہا: تحقیق کچھ لوگ اس کو مکرو سمجھنے لگے ہیں حالانکہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا ہے کہ اس طرح کر لیا کرتے تھے، جیسے تم نے مجھے کرتے دیکھا ہے۔ (یعنی کھڑے ہو کر پی لیا کرتے تھے)۔
حدیث حاشیہ:
فائدہ: جامع ترمذی کی ایک حدیث جس کو امام ترمذی نے صحیح کہا ہے۔ اس میں ہے کہ حضرت کبشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بیان کیا کہ ر سول اللہ ﷺ ان کے ہاں گئے۔ گھر میں مشکیزہ لٹک رہا تھا۔ تو آپﷺنے اس سے کھڑے کھڑے پانی نوش فرمایا۔ پھر میں نے اس مشکیزے کے منہ کا وہ حصہ (جس سے آپﷺ کا دہن مبارک مس ہوا تھا۔) کاٹ کر رکھ لیا۔ (جامع الترمذي، الأشربة، حدیث: 1892) اس حدیث سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ اگرچہ مشکیزے کو منہ لگا کر پینے کی حوصلہ شکنی کی گئی ہے۔ اور آپﷺ نے اس سے روکا ہے۔ لیکن یہ نہی نہی تحریمی نہیں۔ اسے معمول بنائے بغیر ضرورت کے وقت ایسا کیا جا سکتا ہے۔ جس طرح اگلی حدیث میں وارد ہوا۔ آپﷺکا یہ عمل امت کےلئے آسانی پیدا کرنے کا ذریعہ ہے۔ اس طرح کا ایک واقعہ مسند احمد میں ام سلیم رضی اللہ عنہا سے بھی مروی ہے۔ (مسند أحمد: 376/6) نیز سفر حج میں بھی نبی کریمﷺ نے زمزم کھڑے ہوکر پیا تھا۔ (صحیح البخاري، الحج، حدیث: 1637)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
نزال بن سبرہ ؓ کہتے ہیں کہ علی ؓ نے پانی منگوایا اور اسے کھڑے ہو کر پیا اور کہا: بعض لوگ ایسا کرنے کو مکروہ اور ناپسند سمجھتے ہیں حالانکہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو ایسے ہی کرتے دیکھا ہے، جیسے تم لوگوں نے مجھے کرتے دیکھا ہے۱؎۔
حدیث حاشیہ:
۱؎: پچھلی حدیث میں جو فرمان ہے وہ عام اوقات کے لئے ہے اور اس حدیث میں صرف جواز کی بات ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Nazzal b. Samurah said : ‘Ali (RA) asked for water and he drank it while standing. He then said: some people disapprove of doing this (drinking while standing), but I saw the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) doing as I have done.