مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
3724.
سیدنا جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ اپنے ایک صحابی کے ساتھ ایک انصاری کے ہاں تشریف لے گئے جب کہ وہ اپنے باغ میں پانی لگا رہا تھا۔ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اگر تمہارے پاس ایسا پانی ہے جو رات بھر مشکیزے میں ہو (تو لے آؤ) ورنہ ہم کنوئیں کے حوض میں جمع شدہ پانی ہی منہ لگا کر پی لیتے ہیں۔“ اس نے کہا: ہاں، میرے پاس مشکیزے میں رات کا پانی موجود ہے۔
تشریح:
فائدہ: (کرع) کے متعدد معنی ہیں۔ (کراع) انسان کی پنڈلی یا جانور کے اگلے پچھلے پائوں کے اوپر گھنٹے تک کے حصے کو کہتے ہیں۔ حافظ ابن حجر نے ابن التین کے حوالے سے ابو عبد الملک سے نقل کیا ہے۔ کہ اس کے معنی دونوں ہاتھوں سے پانی پینا ہیں۔ ابن تین نے اسے اہل لغت کے خلاف قرار دیا ہے۔ لیکن (کراع) کے اصل معنی کے حوالے سے یہ مفہوم غلط نہیں۔(کراع الارض) زمین کے کناے کو کہتے ہیں۔ جہاں گہرا ہونے کی وجہ سے بارش کا صاف پانی جمع ہوجاتا ہے۔ (کراع) پہاڑ یا پتھریلے میدانوں سے نکلنے والے پانی کو بھی کہتے ہیں۔(کرع القوم) یا (أکر ع القوم) کے معنی ہیں۔ کہ لوگوں کو بارش وغیرہ کا جمع شدہ پانی مل گیا۔ جو انہوں نے استعمال کیا۔ (لسان العرب۔کرع) یہاں یہی معنی مراد ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے انصاری سے فرمایا۔ اگر تمہارے پاس ایسا پانی ہو جو رات بھر سے مشکیزے میں ہے۔ (تو لے آئو) ورنہ ہم حوض سے جمع شدہ پانی پی لیتے ہیں۔ (کرع) کے ایک معنی برتن یا ہاتھ استعمال کئے بغیر جانوروں کی طرح منہ سے پانی پینا بھی ہیں۔ بہت سے مترجمین نے اس حدیث کا ترجمہ اس طرح کیا ہے۔ امام نووی نے بھی ریاض الصالحین (باب جواز الشرب من جمیع الأواني۔۔۔)میں اس کے یہی معنی بیان کیے ہیں۔ اس لئے اسے بھی غلط نہیں کہا جا سکتا۔ اور اس مفہو م کے اعتبار سے بوقت ضرورت اس طرح پانی پینے کا جواز کا اثبات ہوتا ہے۔
٭الأطعمة کی تعریف :’’اطعمة‘‘ طعام کی جمع ہے ،قاموس میں اس کے معنی کیے گئے ہیں :’’اَلْبُرُّ وَمَا يُو كَلُ‘‘ گندم اور جو چیز کھائی جاتی ہے اسے ’’طعام‘‘ کہا جاتا ہے بعض علمائے لغت کے نزدیک ’’طعام ‘‘ سے مراد صرف کھنانا ہی نہیں بلکہ بعض اوقات پینے والی چیز پر بھی ’’طعام‘‘ کا اطلاق ہوتا ہے ،جیسے ارشاد باری تعالیٰ ہے:
(إِنَّ اللَّهَ مُبْتَلِيكُمْ بِنَهَرٍ فَمَنْ شَرِبَ مِنْهُ فَلَيْسَ مِنِّي وَمَنْ لَمْ يَطْعَمْهُ فَإِنَّهُ مِنِّي) ’’بےشک اللہ تعالیٰ تمہیں ایک نہر سے آزمانے والا ہے جس نے اس پانی پی لیا وہ مجھ سے نہیں اور جس نے اس کا پانی نہ چکھا ‘تو یقیناً وہ میرا ہے ۔‘‘(البقرہ:249)
اسی طرح ارشاد نبوی ہے [زَمْزَمُ طَعَأمُ طُعْمٍ وَ شِفَاءُ سُقْمٍ]
’’زمزم کھانے والے کا کھانا ہے اور بیمار کے لیے شفا ہے ۔‘‘(مجمع الزوائد:3/286 والمعجم الکبیر للطبرانی:11/98)
٭أشربة کی لغوی تعریف :’’ أشربة ‘‘ شراب کی جمع ہے ‘یعنی ہر بہنے والی چیز جسے پیا جائے وہ شراب کہلاتی ہے ،ہمارے ہاں اُسے مشروب کہا جاتا ہے۔
٭کھانے پینے کی مشروعیت :اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے لیے بے شمار نعمتیں بطور خوراک پیدا کی ہیں ۔پھر مزید رحمت فرماتے ہوئے ہر اس کھانے ‘پینے کی چیز کو حرام قرار دیا جو انسانی صحت اور عقل کے لیے نقصان دہ تھی اور ہر وہ چیز جو مفید تھی اسے حلال رکھا‘ خود وہ دانے ہوں ‘پھل ہوں یا جانوروں کی شکل میں ہوں،لہذا رشاد ربانی ہے () ’’اللہ تعالیٰ کے رزق سے کھاؤ اور پیو۔‘‘(البقرہ:249)
کھانے اور پینے کا بنیادی مقصد انسانی بقا ہے تا کہ انسان اپنے رب کی اطاعت اور فرمانبرداری کے لیے ہر دم تیار ہو ۔ اس کی صحت اس کا بھر پور ساتھ دے تا کہ وہ اطاعت میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے سکے اس لیے صرف حلال اور مفید چیزیں کھانے کی پابندی عائد کر دی ۔ارشاد باری تعالیٰ ہے(يَا أَيُّهَا النَّاسُ كُلُوا مِمَّا فِي الْأَرْضِ حَلَالًا طَيِّبًا)
’’اے لوگو!تم ان چیزوں میں سے کھاؤ جو زمین میں حلال اور پاکیزہ ہیں۔‘‘(البقرہ:168)
رحمت دو عالم ﷺ نے امت کی رہنمائی کرتے ہوئے فرمایا :
[ كُلُوا وَاشْرَبُوا وَالبَسُوا وَتَصَدَّقُوا، فِي غَيْرِ إِسْرَافٍ وَلاَ مَخِيلَةٍ...] ’’کھاؤ پیو اور صدقہ خیرات کرو‘بغیر اسراف و تکبر و غرور کیے لباس پہنو ،کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنے بندے پر اپنی نعمتوں کا اثر دیکھنا پسند کرتا ہے ۔‘‘(مسند احمد:2/181‘182 نیز امام بخاری نے بھی اسے کتاب اللباس کے شروع میں معلقاً بیان کیا ہے)
٭کھانے اور پینے کے چند نبوی آداب: کھانے اور پینے کا بنیادی قانون یہ ہے کہ وہ چیز حلال اور پاکیزہ ہو ، ارشاد نبوی ہے:[ كُلُّ مُسْكِرٍ خَمْرٌ، وَكُلُّ خَمْرٍ حَرَامٌ.](صحيح مسلم، الأشربة ،باب بيان ان كل مسكر خمر وان كل خمر حرام ، حديث:2003)’’ہر نشہ آور چیز شراب ہے اور ہر شراب حرام ہے۔‘‘
٭جن چیزوں کو شریعت نے حرام قرار دے دیا ہے ان سے مکمل اجتناب کرنا ضروری ہے مثلاً مردہ جانور کا گوشت کھانا ‘خنزیر‘ ذبح کے وقت بہنے والا خون ‘قبروں اور بتوں کی نذر کیا جانے والا کھانا اور جانور ‘ہر کچلی اور پنجے سے شکار کرنے والا جانور وغیرہ۔
٭کھانے اور پینے کا مقصد اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لیے تقویت ارو بھوک مٹانا ہو تو یہ باعث اجر بن جاتا ہے ۔
٭کھانے اور پینے سے پہلے بسم اللہ اور فارغ ہو کر االحمداللہ یا دیگر مسنون دعائیں پڑھنا مستحب ہے ۔
٭کھانا کھانے سے پہلے ہاتھ دھونا اور بیٹھ کر کھانا افضل و بہتر ہے۔
٭کھانے میں عیب نکالنا اور باتیں بنانا غلط ہے ‘ہاں اگر طبیعت نہ مانے تو نہ کھائے۔
٭کھانا دائیں ہاتھ سے اور اپنے سامنے سے کھانا چاہیے ،کیونکہ شیطان بائیں ہاتھ سے کھاتا پیتا ہے ۔
٭اگر کھانے کے دوران میں لقمہ گر جائے تو اسے صاف کر کے کھا لینا چاہیے۔
٭کھانے کی دعوت قبول کرنی چاہیے۔
٭اگر چند افراد مل کر کھانا کھا رہے ہوں تو ان کا خیال رکھنا چاہیے۔
٭کھانے کو ٹھنڈا کر نے کے لیے پھونکیں مارنا درست نہیں۔
٭ٹیک لگا کر یا لیٹ کر کھانا درست نہیں۔
٭ملازموں اور خادموں کو ساتھ بٹھا کر کھانا کھلانا افضل ہے ‘ورنہ انہیں کھانے میں سے کچھ نہ کچھ ضرور دینا چاہیے۔
٭کھانا کھانے کے بعد انگلیاں چاپ لینا سنت ہے ، البتہ دھونا بھی درست ہے ۔
٭دعوت کرنے والے کے حق میں دعا کرنی چاہیے۔
٭جن جانوروں کا گوشت کھایا نہیں جاتا ان کا دودھ پینا بھی درست ہے۔
٭تمباکو ‘سگریٹ ‘افیون‘ اور ہیرون وغیرہ سخت حرام ہیں-
٭ایسا جوس جس میں جوش اور نشہ پیدا ہو چکا اسے پینا حرام ہے۔
٭بوقت ضرورت کھڑے ہو کر پینا درست ہے۔
٭مشروب کو تین سانسوں میں پینا سنت ہے ‘ہر بار منہ برتن سے ہٹا کر سانس لینا چاہیے
٭اگر برتن میں کوئی چیز نظر آئے تو اسے ہاتھ سے یا مشروب بہا کر نکالنا چاہیے ‘پھونک مارنا ٹھیک نہیں۔
٭کھانا یا مشروب پیش کرے وقت دائیں جانب سے شروع کرنا چاہیے۔
٭مشروب پیش کرنے والا سب کے آخر میں خود نوش کرے۔
سیدنا جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ اپنے ایک صحابی کے ساتھ ایک انصاری کے ہاں تشریف لے گئے جب کہ وہ اپنے باغ میں پانی لگا رہا تھا۔ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اگر تمہارے پاس ایسا پانی ہے جو رات بھر مشکیزے میں ہو (تو لے آؤ) ورنہ ہم کنوئیں کے حوض میں جمع شدہ پانی ہی منہ لگا کر پی لیتے ہیں۔“ اس نے کہا: ہاں، میرے پاس مشکیزے میں رات کا پانی موجود ہے۔
حدیث حاشیہ:
فائدہ: (کرع) کے متعدد معنی ہیں۔ (کراع) انسان کی پنڈلی یا جانور کے اگلے پچھلے پائوں کے اوپر گھنٹے تک کے حصے کو کہتے ہیں۔ حافظ ابن حجر نے ابن التین کے حوالے سے ابو عبد الملک سے نقل کیا ہے۔ کہ اس کے معنی دونوں ہاتھوں سے پانی پینا ہیں۔ ابن تین نے اسے اہل لغت کے خلاف قرار دیا ہے۔ لیکن (کراع) کے اصل معنی کے حوالے سے یہ مفہوم غلط نہیں۔(کراع الارض) زمین کے کناے کو کہتے ہیں۔ جہاں گہرا ہونے کی وجہ سے بارش کا صاف پانی جمع ہوجاتا ہے۔ (کراع) پہاڑ یا پتھریلے میدانوں سے نکلنے والے پانی کو بھی کہتے ہیں۔(کرع القوم) یا (أکر ع القوم) کے معنی ہیں۔ کہ لوگوں کو بارش وغیرہ کا جمع شدہ پانی مل گیا۔ جو انہوں نے استعمال کیا۔ (لسان العرب۔کرع) یہاں یہی معنی مراد ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے انصاری سے فرمایا۔ اگر تمہارے پاس ایسا پانی ہو جو رات بھر سے مشکیزے میں ہے۔ (تو لے آئو) ورنہ ہم حوض سے جمع شدہ پانی پی لیتے ہیں۔ (کرع) کے ایک معنی برتن یا ہاتھ استعمال کئے بغیر جانوروں کی طرح منہ سے پانی پینا بھی ہیں۔ بہت سے مترجمین نے اس حدیث کا ترجمہ اس طرح کیا ہے۔ امام نووی نے بھی ریاض الصالحین (باب جواز الشرب من جمیع الأواني۔۔۔)میں اس کے یہی معنی بیان کیے ہیں۔ اس لئے اسے بھی غلط نہیں کہا جا سکتا۔ اور اس مفہو م کے اعتبار سے بوقت ضرورت اس طرح پانی پینے کا جواز کا اثبات ہوتا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
جابر بن عبداللہ ؓ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ اور آپ کے اصحاب میں سے ایک شخص ایک انصاری کے پاس آئے وہ اپنے باغ کو پانی دے رہا تھا، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اگر تمہارے پاس مشکیزہ میں رات کا باسی پانی ہو تو بہتر ہے، ورنہ ہم منہ لگا کر نہر ہی سے پانی پی لیتے ہیں۔“ اس نے کہا: نہیں بلکہ میرے پاس مشکیزہ میں رات کا باسی پانی موجود ہے۱؎۔
حدیث حاشیہ:
۱؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نہر، نالی اور دریا سے منہ لگا کر پانی پی لینا اس صورت میں صحیح ہے کہ جب کوئی برتن ساتھ میں نہ ہو، لیکن ہاتھ سے پینا بہتر ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Jabir b. ‘Abd Allah said: The Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم) went to visit a man of the Ansar accompanied by one of his Companions who was watering his garden. The Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) said: If you have any water which has remained over night in a skin (we should like it), or shall sip (from a streamlet).