باب: (اگر راہ چلتے ہوئے)پلو میں نجاست لگ جائے تو۔۔۔؟
)
Abu-Daud:
Purification (Kitab Al-Taharah)
(Chapter: Impurity That Touches The Hem (Of One's Clothes))
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
384.
موسیٰ بن عبداللہ بن یزید بنو عبدالاشہل کی ایک خاتون سے روایت کرتے ہیں وہ بیان کرتی ہیں کہ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! ہمارا مسجد میں جانے کا راستہ گندہ ہے، جب بارش ہو جائے تو ہم کیا کریں؟ آپ ﷺ نے فرمایا ”کیا اس (نجس) جگہ کے بعد پاک جگہ نہیں آتی؟“ میں نے کہا کہ ہاں (آتی ہے) آپ ﷺ نے فرمایا: ”تو یہ اس کے بدلے ہے۔“
تشریح:
کسی نجس جگہ سے گزرتے ہوئے پاؤں، جوتا یا کپڑا اس سے گزر جائے اور بعد ازاں خشک مٹی پر سے گزر ہوتو اسے پاک سمجھا جائے۔ لیکن اگر نجاست سائلہ یعنی بہنے والی (پیشاب) کےچھینٹے پڑے ہوں تو دھونا ہوگا۔ البتہ جوتا رگڑنے سے پاک ہوجاتا ہے۔ (درج ذیل با ب ملاحظہ ہو)۔
گندگی و نجاست سے صفائی ستھرائی جو شرعی اصولوں کے مطابق ہو‘ اسے شرعی اصطلاح میں ’’طہارت ‘‘ کہتے ہیں نجاست خواہ حقیقی ہو ، جیسے کہ پیشاب اور پاخانہ ، اسے (خَبَثَ ) کہتے ہیں یا حکمی اور معنوی ہو ،جیسے کہ دبر سے ریح (ہوا) کا خارج ہونا، اسے (حَدَث) کہتے ہیں دین اسلام ایک پاکیزہ دین ہے اور اسلام نے اپنے ماننے والوں کو بھی طہارت اور پاکیزگی اختیار کرنے کو کہا ہے اور اس کی فضیلت و اہمیت اور وعدووعید کا خوب تذکرہ کیا ہے ۔ رسول اللہ ﷺنے طہارت کی فضیلت کے بابت فرمایا:( الطُّهُورُ شَطْرُ الْإِيمَانِ)(صحیح مسلم ‘الطہارۃ‘ حدیث:223)’’طہارت نصف ایمان ہے ‘‘ ایک اور حدیث میں طہارت کی فضیلت کے متعلق ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : .’’وضو کرنے سے ہاتھ ‘منہ اور پاؤں کے تمام (صغیرہ) گناہ معاف ہو جاتے ہیں ۔‘‘ (سنن النسائی ‘ الطہارۃ‘ حدیث: 103) طہارت اور پاکیزگی کے متعلق سرور کائنات ﷺ کا ارشاد ہے (لاَ تُقْبَلُ صَلاَةٌ بِغَيْرِ طُهُوْرٍ)(صحيح مسلم ‘الطہارۃ‘ حدیث:224) ’’ اللہ تعالیٰ طہارت کے بغیر کوئی نماز قبول نہیں فرماتا ۔‘‘اور اسی کی بابت حضرت ابوسعید خدری فرماتے ہیں ‘نبی کریم نے فرمایا (مِفْتِاحُ الصَّلاَةِ الطُّهُوْرٍ)(سنن اابن ماجہ ‘الطہارۃ‘حدیث 275۔276 ) ’’طہارت نماز کی کنجی ہے ۔‘‘ طہارت سے غفلت برتنے کی بابت نبی ﷺ سے مروی ہے :’’قبر میں زیادہ تر عذاب پیشاب کے بعد طہارت سے غفلت برتنے پر ہوتا ہے ۔‘‘ صحیح االترغیب والترھیب‘حدیث:152)
ان مذکورہ احادیث کی روشنی میں میں ایک مسلمان کے لیے واجب ہے کہ اپنے بدن ‘کپڑے اور مکان کو نجاست سے پاک رکھے ۔اللہ عزوجل نے اپنے نبی کو سب سے پہلے اسی بات کا حکم دیا تھا(وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ)المدثر:4‘5) ’’اپنے لباس کو پاکیزہ رکھیے اور گندگی سے دور رہیے۔‘‘ مکان اور بالخصوص مقام عبادت کے سلسلہ میں سیدنا ابراہیم اور اسماعیل کو حکم دیا گیا:(أَنْ طَهِّرَا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْعَاكِفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ)(البقرۃ:125)’’میرے گھر کو طواف کرنے والوں ‘اعتکاف کرنے والوں اور رکوع و سجدہ کرنے والوں کے لیے پاک صاف رکھیں۔‘‘ اللہ عزوجل اپنے طاہر اور پاکیزہ بندوں ہی سے محبت کرتا ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے (إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ)( البقرۃ:222)’’بلاشبہ اللہ توبہ کرنے والوں اور پاک رہنے والوں سے محبت کرتا ہے ۔‘‘ نیز اہل قباء کی مدح میں فرمایا:(فِيهِ رِجَالٌ يُحِبُّونَ أَنْ يَتَطَهَّرُوا وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُطَّهِّرِينَ)(التوبۃ:108)’’اس میں ایسے آدمی ہیں جو خوب پاک ہوتے کو پسند کرتے ہیں اور اللہ عزوجل پاک صاف رہنے والوں سے محبت فرماتا ہے۔‘‘
موسیٰ بن عبداللہ بن یزید بنو عبدالاشہل کی ایک خاتون سے روایت کرتے ہیں وہ بیان کرتی ہیں کہ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! ہمارا مسجد میں جانے کا راستہ گندہ ہے، جب بارش ہو جائے تو ہم کیا کریں؟ آپ ﷺ نے فرمایا ”کیا اس (نجس) جگہ کے بعد پاک جگہ نہیں آتی؟“ میں نے کہا کہ ہاں (آتی ہے) آپ ﷺ نے فرمایا: ”تو یہ اس کے بدلے ہے۔“
حدیث حاشیہ:
کسی نجس جگہ سے گزرتے ہوئے پاؤں، جوتا یا کپڑا اس سے گزر جائے اور بعد ازاں خشک مٹی پر سے گزر ہوتو اسے پاک سمجھا جائے۔ لیکن اگر نجاست سائلہ یعنی بہنے والی (پیشاب) کےچھینٹے پڑے ہوں تو دھونا ہوگا۔ البتہ جوتا رگڑنے سے پاک ہوجاتا ہے۔ (درج ذیل با ب ملاحظہ ہو)۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
قبیلہ بنو عبدالاشھل کی ایک عورت کہتی ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہمارا مسجد تک جانے کا راستہ غلیظ اور گندگیوں والا ہے تو جب بارش ہو جائے تو ہم کیا کریں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”کیا اس کے آگے پھر کوئی اس سے بہتر اور پاک راستہ نہیں ہے؟“ میں نے کہا: ہاں ہے، آپ ﷺ نے فرمایا: ”تو یہ اس کا جواب ہے۔“۱؎۔
حدیث حاشیہ:
۱؎: یعنی پاک و صاف راستے میں چلنے سے کپڑا پاک ہو جائے گا جیسے پہلے گندے راستہ سے ناپاک ہو گیا تھا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated A woman of the Banu Abdul Ashhal (RA): She reported: I said Apostle of Allah (ﷺ) , our road to the mosque has an unpleasant stench; what should we do when it is raining? He asked: Is there not a cleaner part after the filthy part of the road? She replied: Why not (there is one)! He said: It makes up for the other.