Abu-Daud:
Medicine (Kitab Al-Tibb)
(Chapter: At-tiryaq (Theriaca))
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
3869.
سیدنا عبداللہ بن عمر ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو سنا آپ ﷺ فرماتے تھے: ”مجھے کوئی پروا نہیں جو چاہے کرتے پھروں، اگر میں تریاق پیوں یا منکے لٹکاؤں یا اپنی طرف سے شعر کہوں۔“ امام ابوداؤد ؓ کہتے ہیں کہ تریاق کا استعمال نہ کرنا نبی کریم ﷺ کی خصوصیت تھی۔ اور تریاق کے استعمال میں علماء کی ایک جماعت نے رخصت دی ہے۔
تشریح:
1) یہ روایت سنداََ ضعیف ہے۔ تاہم افراد اُمت کے لیئے مسلمان متقی طبیب کے مشورے سے محض جان بچانے کے لیئےبشرطیکہ جان کا بچ جانا یقینی ہوتو تریاق جیسی مشکوک چیزوں کا استعمال مباح ہے۔ 2) تمیمہہ کو ڑیوں، درندوں کے ناخنوں، انکی ہڈیوں وغیرہ کو کہا جاتاہے؛ جو جسم پر لٹکائی جاتی ہیں (سندھی) کوڑیوں وغیرہ کو لٹکانے کی غرض یہ ہوتی ہے کہ یہ آفات اور بیماریوں کو دفع کرتی ہیں۔ یہ اعتقاد شرک پر مبنی ہے (خطابی) قاضی ابو بکر العربی نے ترمذی کی شرح میں کہا ہے کہ قرآن مجید (یا اس کی کو ئی آئیت) لٹکانا سنت کا طریقہ نہیں۔ سنت قرآن کا پڑھنا ہے اور یہ اللہ تعالی کا ذکر ہے لٹکانا نہ سنت ہے، نہ اسے ذکر ہی کہا جاسکتا ہے۔ جبک ہ علامہ سندھی اور علامہ خطابی وغیرہ قرآن یا اسمائے حسنیٰ وغیرہ کو منع کے حکم میں شامل نہیں سمجھتے۔ علامہ خطابی کہتے ہیں کہ قرآنِ مجید کی آیات (یا ادعیہ) کے ذریعےسے استعاذہ در حقیقت اللہ ہی سے استعاذہ ہے۔ ان کا خیال ہے کہ جن لوگوں نےکسی ہار یا قلادہ کے اندر تعویذ لٹکانے سے منع کیا ہے تو اس وجہ سے کہ ایسے تعویذ بعض اوقات عربی کی بجائے دوسری زبانوں میں لکھے ہو تے ہیں جن کا مفہوم سمجھنا ممکن نہیں ہوتا اور خطرہ ہے کہ ان میں جا دو وغیرہ نہ ہو۔ تفصیل کے لیئے دیکھئے (عون المعبود، کتاب الطب، باب في التریاق) قرآن مجید کی رُو سے شعر کہنا پیغمر کی شان نہیں ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ’’اور نہیں سکھا یا ہم نے ان کو شعر کہنا اور یہ ان کے لائق نہیں کسی۔‘‘ اور کا ایسا شعر نقل کرنا جو حق کا ترجمان ہو یا سچائی پر مبنی ہو یا دفاعِ اسلام کے لیئے کہے گئے اشعار سننا الگ بات ہے اور اس پر شعر گو ئی کا اطلاق نہیں ہو تا۔
الطب کی تعریف: لغت میں طب کے معنی ذہنی وجسمانی علاج اور دوا دارو کے ہیں۔
اللہ تعالی نے انسان کو اپنا خلیفہ بنایا ہے۔اسے تمام مخلوقات سے اشرف بنا کرتمام مخلوقات کو اس کے تا بع فرمان بنا دیا ہے۔ انسان کو پیدا کرنے کا مقصد اپنی عبادت قرار دیا ہے۔ اللہ تعا لی کی عبادت میں ہمہ وقت مصروف رہنے کے لیئےصحت و تندرستی کی اشدضرورت تھی لہذاپروردگارِ عالم نے بے شمار نعمتیں پیدا کیں حلال اور مفید اشیاء کو کھانے کی اجازت دے کر مضرِصحت ،مضرِعقل، مضرِعزت وآبرواشیاء سے منع کردیا۔البتہ پھر بھی اگر اللہ ےتعالی کی مشیت سے بیماری آجائےتو اس کا علاج کرنا مشروع ہے۔ اللہ تعالی نے ہر بیماری کا علاج بھی پیدا کیا ہے۔ ‘جیسا کہ فرمان نبوی ﷺ ہے [مَا أَنْزَلَ اللَّهُ دَاءً إِلَّا أَنْزَلَ لَهُ شِفَاءً](صحيح البخارى ،الطب،باب ما انزل الله داء....حديث:5678)’’اللہ تعالیٰ نے ہر بیماری کی شفا )علاج اور دوا) نازل کی ہے۔‘‘ بیماری کے موافق دوا استعمال اللہ تعالیٰ کی مشیت سے سفا کا باعث بنتا ہے ‘لہذا ہر شخص کو صحت کے حوالے سے مندرجہ ذیل چیزوں کو مد نظر رکھنا چاہیے : 1 صحت کی حفاظت2 مضر صحت چیزوں سے بچاؤ3 فاسد مادوں کا اخراج ۔
ان تین چیزوں کو طب اسلامی میں بنیادی حیثیت حاصل ہے ان کا ذکر قرآن مجید میں بھی اشارتاً موجود ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے (وَمَنْ كَانَ مَرِيضًا أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِنْ أَيَّامٍ أُخَرَ)(البقرہ :185)’’جو شخص بیمار ہو یا مسافر ہو تو وہ (روزوں کی) گنتی دیگر ایام میں پوری کر لے‘‘
چونکہ بیماری میں روزہ رکھنے سے بیماری کے بڑھنے کا خدشہ تھا نیز سفر چونکہ تھکاوٹ اور انسانی صحت کے لیے خطرہ کا سبب تھا لہذا ان دو حالتو ں میں روزہ چھوڑنے کی اجازت دے دی گئی تا کہ انسانی صحت کی حفاظت ممکن بنائی جا سکے۔
دوسرے مقام پر ارشاد ہے (وَلَا تَقْتُلُوا أَنْفُسَكُمْ) (النساء:29)’’تم اپنی جانوں کو ہلاک مت کر و‘‘ اس آیت کریمہ سے سخت سردی میں تیممّ کی مشروعیت کا ستنباط کیا گیا ہے ‘چونکہ سخت سردی میں پانی کا استعمال مضر صحت ہو سکتا تھا اس لیے تیمم کی اجازت دی گئی ہے ۔
تیسرے مقام پر ارشاد ہے (أَوْ بِهِ أَذًى مِنْ رَأْسِهِ فَفِدْيَةٌ)(البقرہ:196)’’یا (محرم کے) سر میں تکلیف ہو تو وہ فدیہ دے(اور سرمنڈ والے۔‘‘)اب اس آیت میں محرم شخص کو بوقت تکلیف سر منڈوانے کی اجازت دے دی گئی تا کہ فاسدوں سے نجات حاصل ہو سکے جو کہ صحت کے لیے مضر ہیں اس طرح سے شریعت نے انسانی صحت کا مکمل خیال رکھا ہے ۔
٭طب نبویﷺ کے چند لاجواب علاج :طب نبوی میں ایسے نادر اور بے مثال علاج موجود ہیں جو متعدد بیماریوں کا شافی علاج ہیں۔
1 زمزم :ارشاد نبویﷺ ہے[مَاءُ زَمْزَمَ لِمَا شُرِبَ لَهُ](سنن ابن ماجہ ‘المناسک ‘باب الشرب من زمزم‘حدیث :3062)’’زمزم کو جس مقصد اور نیت سے پیا جائے یہ اسی کے لیے مؤثر ہو جاتا ہے ۔‘‘
بے شمار لوگ اس نسخے سے موذی امراض سے نجات پا چکے ہیں ۔
2شہد :ارشاد باری تعالیٰ ہے (يَخْرُجُ مِنْ بُطُونِهَا شَرَابٌ مُخْتَلِفٌ أَلْوَانُهُ فِيهِ شِفَاءٌ لِلنَّاسِ)(النحل:69)’’ان کے پیٹ سے مشروب نکلتا ہے ‘جس کے رنگ مختلف ہیں اس میں لوگوں کے لیے شفا ہے ۔‘‘
3کلونجی:رسول اکرم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے [فِي الحَبَّةِ السَّوْدَاءِ شِفَاءٌ مِنْ كُلِّ دَاءٍ، إِلَّا السَّامَ] ( صحیح البخاری‘الطب ‘باب الحبۃ السواداء حدیث :5688)’’سیاہ دانے (کلونجی) میں موت کے سوا ہر بیماری کی شفا ہے۔‘‘
تمہید باب
ایسی ادویات جو زہر کی سمیت دور کرنے والی ہوں ’’تریاق‘‘ کہلاتی ہیں ان میں سے بعض میں حرام اشیاء بھی استعمال ہوتی ہیں۔
سیدنا عبداللہ بن عمر ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو سنا آپ ﷺ فرماتے تھے: ”مجھے کوئی پروا نہیں جو چاہے کرتے پھروں، اگر میں تریاق پیوں یا منکے لٹکاؤں یا اپنی طرف سے شعر کہوں۔“ امام ابوداؤد ؓ کہتے ہیں کہ تریاق کا استعمال نہ کرنا نبی کریم ﷺ کی خصوصیت تھی۔ اور تریاق کے استعمال میں علماء کی ایک جماعت نے رخصت دی ہے۔
حدیث حاشیہ:
1) یہ روایت سنداََ ضعیف ہے۔ تاہم افراد اُمت کے لیئے مسلمان متقی طبیب کے مشورے سے محض جان بچانے کے لیئےبشرطیکہ جان کا بچ جانا یقینی ہوتو تریاق جیسی مشکوک چیزوں کا استعمال مباح ہے۔ 2) تمیمہہ کو ڑیوں، درندوں کے ناخنوں، انکی ہڈیوں وغیرہ کو کہا جاتاہے؛ جو جسم پر لٹکائی جاتی ہیں (سندھی) کوڑیوں وغیرہ کو لٹکانے کی غرض یہ ہوتی ہے کہ یہ آفات اور بیماریوں کو دفع کرتی ہیں۔ یہ اعتقاد شرک پر مبنی ہے (خطابی) قاضی ابو بکر العربی نے ترمذی کی شرح میں کہا ہے کہ قرآن مجید (یا اس کی کو ئی آئیت) لٹکانا سنت کا طریقہ نہیں۔ سنت قرآن کا پڑھنا ہے اور یہ اللہ تعالی کا ذکر ہے لٹکانا نہ سنت ہے، نہ اسے ذکر ہی کہا جاسکتا ہے۔ جبک ہ علامہ سندھی اور علامہ خطابی وغیرہ قرآن یا اسمائے حسنیٰ وغیرہ کو منع کے حکم میں شامل نہیں سمجھتے۔ علامہ خطابی کہتے ہیں کہ قرآنِ مجید کی آیات (یا ادعیہ) کے ذریعےسے استعاذہ در حقیقت اللہ ہی سے استعاذہ ہے۔ ان کا خیال ہے کہ جن لوگوں نےکسی ہار یا قلادہ کے اندر تعویذ لٹکانے سے منع کیا ہے تو اس وجہ سے کہ ایسے تعویذ بعض اوقات عربی کی بجائے دوسری زبانوں میں لکھے ہو تے ہیں جن کا مفہوم سمجھنا ممکن نہیں ہوتا اور خطرہ ہے کہ ان میں جا دو وغیرہ نہ ہو۔ تفصیل کے لیئے دیکھئے (عون المعبود، کتاب الطب، باب في التریاق) قرآن مجید کی رُو سے شعر کہنا پیغمر کی شان نہیں ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ’’اور نہیں سکھا یا ہم نے ان کو شعر کہنا اور یہ ان کے لائق نہیں کسی۔‘‘ اور کا ایسا شعر نقل کرنا جو حق کا ترجمان ہو یا سچائی پر مبنی ہو یا دفاعِ اسلام کے لیئے کہے گئے اشعار سننا الگ بات ہے اور اس پر شعر گو ئی کا اطلاق نہیں ہو تا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبدالرحمٰن بن رافع تنوخی کہتے ہیں: میں نے عبداللہ بن عمرو ؓ کو کہتے سنا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے آپ فرما رہے تھے: ”مجھے پرواہ نہیں جو بھی میرا حال ہو اگر میں تریاق پیوں یا تعویذ گنڈا لٹکاؤں یا اپنی طرف سے شعر کہوں۔“ ابوداؤد کہتے ہیں: یہ نبی اکرم ﷺ کے ساتھ مخصوص تھا، کچھ لوگوں نے تریاق پینے کی رخصت دی ہے۔
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Abdullah ibn 'Amr ibn al-'As (RA): I heard the Apostle of Allah (ﷺ) say: If I drink an antidote, or tie an amulet, or compose poetry, I am the type who does not care what he does.