Abu-Daud:
Dialects and Readings of the Qur'an (Kitab Al-Huruf Wa Al-Qira'at)
(Chapter:)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
3970.
ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ ؓ کا بیان ہے کہ ایک شخص نے رات کو قیام کیا اور قراءت قرآن میں اپنی آواز بلند کی۔ صبح ہوئی تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اللہ فلاں پر رحم فرمائے! اس نے آج رات مجھے کتنی ہی آیات یاد دلا دیں جن سے مجھے ذہول ہو رہا تھا۔“
تشریح:
1) یہ حدیث پیچھےمیں گزر چکی ہے۔ اس کے فوائد ومسائل بھی ملاخط ہوں۔ اور رسول اللہﷺ کو عارضی طور پر بھول کا لاحق ہو جانا ان کے مقام نبوت کےمنافی نہیں ہے۔ آپ نے فرمایا جیسے تم بھول جاتے ہو میں بھی بھول جاتاہوں۔ 2) کسی پردہ نشین کی شکل دیکھے بغیر اس کی آواز پہچان کر گواہی قبول کرنا جائز ہے، اور اسی طرح قاضی نابینا ہو تواس کا آواز پہچان کر مدعی اور مدعا علیہ کے بیانات سن کر فیصلے کرنا جائز اور درست ہے۔ مگر کلی نسیان کہ حافظہ ہی خراب ہوجائے نبی کے لئے یہ ناممکن ہے۔ 3) حدیث میں وارد لفظ (كائن) کئی نسخوں میں کائن بروزن قائم نقل ہوا ہے اور استدلال یہ ہے کہ قرآن مجید میں وارد میں ایک قراءت کائن بروزن قائم بھی ہے۔ (ترجمہ آیت) بہت سے نبیوں سے ہمرکاب ہو کر بہت سے اللہ والے جہاد کرچکے ہیں، انہیں بھی اللہ کی راہ میں تکلیفیں پہنچیں، لیکن نہ تو انہوں نے ہمت ہاری، نہ سست رہے اور نہ دبے رہے اور اللہ تعالی صبر کرنے والوںہی کو چاہتا ہے۔
قرآن مجید بنی نوع انسان کے لیے سر چشمہ ہدایت ہے جو عربی زبان میں نازل ہوا ہے اہل عرب اپنے مخصوص احوال و ظروف کے تحت اپنے اپنے قبائلی نظم میں اس قدر پختہ تھے کہ اس دور میں ان کے لیے دوسرے قبیلے کا اسلوب نطق و تکلم اختیار کرنا مشکل ہوتا تھا تو رب ذوالجلال والاکرام نے اپنی کتاب میں یہ آسانی فرمادی کہ ہر قبیلہ اپنی آسانی کے مطابق جو اسلوب چاہے ‘اختیار کر لے اور اسے ’’ سات حروف‘‘ میں نازل فرما دیا اس سے انہیں اس کے پڑھنے ‘سمجھنے اور حفظ کرنے میں بہت آسانی رہی اور اس میں اس کتاب کا ’’اعجاز‘‘ بھی تھا۔
[اُنزِلَ الْقُرآنُ عَلى سَبْعَةِ أحرُفٍ]’’قرآن کریم سات حروف (قراءتوں اور لہجوں ) پر نازل کیا گیا ہے ۔‘‘ کی تو ضیح میں اگر چہ کافی بحث ہے ‘مگر راجح مفہوم یہ ہے کہ جہاں کہیں کسی لفظ یا تر کیب میں کسی قبیلے کے لیے کوئی مشکل تھی وہاں قرآن کو ان کے اسلوب میں نازل فرما کر انہیں اسی میں قراءت کرنے کی اجازت دے دی گئی تھی یہ مفہوم نہیں کہ ہر ہر آیت یا ہر ہر لفظ سات حروف پر مشتمل ہے مثلاً بقول علامہ ابن جریر طبری ایک معنی و مفہوم کے لیے سات حروف تک نازل کیے گئے ہیں مثلاً ایک مفہوم ’’آؤ‘‘ کے لیے مختلف الفاظ ہیں هَلُمَّ –اَقْبِلْ- تَعَالَ-اِلىَّ قصْدِىْ- نَحْوِى-قُربِى وغیرہ ۔ ان سب کے معنی ایک دوسرے سے ازحد قریب ہیں۔یا دوسری تو جیہ یہ ہے کہ مختلف الفاظ میں بلحاظ ان کے مفرد ‘تثنیہ‘جمع یا مذکر ‘ مونث یا غائب ‘فعل یا اسم ہونے میں فرق آیا ہے یا بلحاظ اعراب مرفوع ‘منصوب اور مجرد ہونے میں یا مقدم مؤخر ہونے میں یا کئی حروف کی کمی بیشی میں سات طرح کے اختلافات ہیں یا بلحاظ نطق و ادائیگی اظہار‘ ادغام ‘ہمز‘تسہیل یا اشمام وغیرہ میں اختلاف ہے الغرض ان متنوع اختلافات سے قرآن کے معانی میں بنیادی طور پر کوئی فرق نہیں ‘بلکہ یہ سب الفاظ و قراءات با سانید صحیحہ رسول اللہ ﷺ سے منقول ہوئی ہیں اور ابتدائی تین ادوار یعنی رسول اللہ ﷺ کے دور اور حضرت ابوبکر کے دور میں آزادی سے قراءت ہوتی رہی ‘ پھر جب دور عثمانی میں مملکت اسلامیہ کی حدود ازحد وسیع ہوگئیں اور عجمی لوگ بھی مسلمان ہوگئے جو ان اختلافِ الفاظ کی کنہ و حقیقت اور سہولت سے آشنا نہ تھے تو ان کے آپس میں تنازعات ہوتے لگے ‘تو حضرت عثمان نے ان قراءات کو لغت قریش تک محدود و مخصوص کر دیا جو عرب کی معتبر ‘ٹکسالی اور مقبول لغت تھی اور صحابہ کرام نے اس پر اجماع کر لیا اور امت ایک بہت بڑے اور سنگین اختلاف سے محفوظ ہوگئی۔ والحمد الله رب العالمين ورضى الله عن عثمان و ارضاه
ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ ؓ کا بیان ہے کہ ایک شخص نے رات کو قیام کیا اور قراءت قرآن میں اپنی آواز بلند کی۔ صبح ہوئی تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اللہ فلاں پر رحم فرمائے! اس نے آج رات مجھے کتنی ہی آیات یاد دلا دیں جن سے مجھے ذہول ہو رہا تھا۔“
حدیث حاشیہ:
1) یہ حدیث پیچھےمیں گزر چکی ہے۔ اس کے فوائد ومسائل بھی ملاخط ہوں۔ اور رسول اللہﷺ کو عارضی طور پر بھول کا لاحق ہو جانا ان کے مقام نبوت کےمنافی نہیں ہے۔ آپ نے فرمایا جیسے تم بھول جاتے ہو میں بھی بھول جاتاہوں۔ 2) کسی پردہ نشین کی شکل دیکھے بغیر اس کی آواز پہچان کر گواہی قبول کرنا جائز ہے، اور اسی طرح قاضی نابینا ہو تواس کا آواز پہچان کر مدعی اور مدعا علیہ کے بیانات سن کر فیصلے کرنا جائز اور درست ہے۔ مگر کلی نسیان کہ حافظہ ہی خراب ہوجائے نبی کے لئے یہ ناممکن ہے۔ 3) حدیث میں وارد لفظ (كائن) کئی نسخوں میں کائن بروزن قائم نقل ہوا ہے اور استدلال یہ ہے کہ قرآن مجید میں وارد میں ایک قراءت کائن بروزن قائم بھی ہے۔ (ترجمہ آیت) بہت سے نبیوں سے ہمرکاب ہو کر بہت سے اللہ والے جہاد کرچکے ہیں، انہیں بھی اللہ کی راہ میں تکلیفیں پہنچیں، لیکن نہ تو انہوں نے ہمت ہاری، نہ سست رہے اور نہ دبے رہے اور اللہ تعالی صبر کرنے والوںہی کو چاہتا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ام المؤمنین عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ ایک شخص نے رات میں قیام کیا اور (نماز میں) بلند آواز سے قراءت کی، جب صبح ہوئی تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اللہ فلاں پر رحم کرے کتنی آیتیں جنہیں میں بھول چلا تھا۱؎ اس نے آج رات مجھے یاد دلا دیں۔“
حدیث حاشیہ:
۱؎: یعنی یہ میرے ذہن سے نکل چکی تھیں، مگر اللہ تعالیٰ کو ان آیتوں کا بالکل بھلا دینا منظور نہ تھا، اس لیے اس نے اس آدمی کو قراءت کے ذریعہ مجھے پھر یاد دلا دیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Aishah (RA): A man got up (for prayer) at night, he read the Qur'an and raised his voice in reading. When the morning came, the Messenger of Allah (ﷺ) said: May Allah have mercy on so-and-so! Last night he reminded me a number of verses which I was about to forget.