Abu-Daud:
Dialects and Readings of the Qur'an (Kitab Al-Huruf Wa Al-Qira'at)
(Chapter:)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
3972.
سیدنا انس بن مالک ؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے (ایک دعا میں) فرمایا: «اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ الْبَخَلِ وَالْهَرَمِ» ”اے اللہ! میں بخیلی اور عاجز کر دینے والے بڑھاپے سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔“
تشریح:
1) قرآن مجید میں وارد اور وہ لوگوں کو بخیلی کی تلقین کرتے ہیں۔ میں لفظ (بخل) با کے پیش اور خا کے سکون اور دونوں کے پیش کے ساتھ بھی پڑھا جاتاہے۔ 2) (ھرم) عاجز کر دینے والا بڑھاپا کہ انسان ازحد عاجز ہوجائے۔ عقل وشعوراور صحت ساتھ چھوڑ جائے اور دوسروں کے لئے بھی بوجھ بن جائے۔
قرآن مجید بنی نوع انسان کے لیے سر چشمہ ہدایت ہے جو عربی زبان میں نازل ہوا ہے اہل عرب اپنے مخصوص احوال و ظروف کے تحت اپنے اپنے قبائلی نظم میں اس قدر پختہ تھے کہ اس دور میں ان کے لیے دوسرے قبیلے کا اسلوب نطق و تکلم اختیار کرنا مشکل ہوتا تھا تو رب ذوالجلال والاکرام نے اپنی کتاب میں یہ آسانی فرمادی کہ ہر قبیلہ اپنی آسانی کے مطابق جو اسلوب چاہے ‘اختیار کر لے اور اسے ’’ سات حروف‘‘ میں نازل فرما دیا اس سے انہیں اس کے پڑھنے ‘سمجھنے اور حفظ کرنے میں بہت آسانی رہی اور اس میں اس کتاب کا ’’اعجاز‘‘ بھی تھا۔
[اُنزِلَ الْقُرآنُ عَلى سَبْعَةِ أحرُفٍ]’’قرآن کریم سات حروف (قراءتوں اور لہجوں ) پر نازل کیا گیا ہے ۔‘‘ کی تو ضیح میں اگر چہ کافی بحث ہے ‘مگر راجح مفہوم یہ ہے کہ جہاں کہیں کسی لفظ یا تر کیب میں کسی قبیلے کے لیے کوئی مشکل تھی وہاں قرآن کو ان کے اسلوب میں نازل فرما کر انہیں اسی میں قراءت کرنے کی اجازت دے دی گئی تھی یہ مفہوم نہیں کہ ہر ہر آیت یا ہر ہر لفظ سات حروف پر مشتمل ہے مثلاً بقول علامہ ابن جریر طبری ایک معنی و مفہوم کے لیے سات حروف تک نازل کیے گئے ہیں مثلاً ایک مفہوم ’’آؤ‘‘ کے لیے مختلف الفاظ ہیں هَلُمَّ –اَقْبِلْ- تَعَالَ-اِلىَّ قصْدِىْ- نَحْوِى-قُربِى وغیرہ ۔ ان سب کے معنی ایک دوسرے سے ازحد قریب ہیں۔یا دوسری تو جیہ یہ ہے کہ مختلف الفاظ میں بلحاظ ان کے مفرد ‘تثنیہ‘جمع یا مذکر ‘ مونث یا غائب ‘فعل یا اسم ہونے میں فرق آیا ہے یا بلحاظ اعراب مرفوع ‘منصوب اور مجرد ہونے میں یا مقدم مؤخر ہونے میں یا کئی حروف کی کمی بیشی میں سات طرح کے اختلافات ہیں یا بلحاظ نطق و ادائیگی اظہار‘ ادغام ‘ہمز‘تسہیل یا اشمام وغیرہ میں اختلاف ہے الغرض ان متنوع اختلافات سے قرآن کے معانی میں بنیادی طور پر کوئی فرق نہیں ‘بلکہ یہ سب الفاظ و قراءات با سانید صحیحہ رسول اللہ ﷺ سے منقول ہوئی ہیں اور ابتدائی تین ادوار یعنی رسول اللہ ﷺ کے دور اور حضرت ابوبکر کے دور میں آزادی سے قراءت ہوتی رہی ‘ پھر جب دور عثمانی میں مملکت اسلامیہ کی حدود ازحد وسیع ہوگئیں اور عجمی لوگ بھی مسلمان ہوگئے جو ان اختلافِ الفاظ کی کنہ و حقیقت اور سہولت سے آشنا نہ تھے تو ان کے آپس میں تنازعات ہوتے لگے ‘تو حضرت عثمان نے ان قراءات کو لغت قریش تک محدود و مخصوص کر دیا جو عرب کی معتبر ‘ٹکسالی اور مقبول لغت تھی اور صحابہ کرام نے اس پر اجماع کر لیا اور امت ایک بہت بڑے اور سنگین اختلاف سے محفوظ ہوگئی۔ والحمد الله رب العالمين ورضى الله عن عثمان و ارضاه
سیدنا انس بن مالک ؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے (ایک دعا میں) فرمایا: «اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ الْبَخَلِ وَالْهَرَمِ» ”اے اللہ! میں بخیلی اور عاجز کر دینے والے بڑھاپے سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔“
حدیث حاشیہ:
1) قرآن مجید میں وارد اور وہ لوگوں کو بخیلی کی تلقین کرتے ہیں۔ میں لفظ (بخل) با کے پیش اور خا کے سکون اور دونوں کے پیش کے ساتھ بھی پڑھا جاتاہے۔ 2) (ھرم) عاجز کر دینے والا بڑھاپا کہ انسان ازحد عاجز ہوجائے۔ عقل وشعوراور صحت ساتھ چھوڑ جائے اور دوسروں کے لئے بھی بوجھ بن جائے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
انس بن مالک ؓ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ”اے اللہ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں بخیلی اور بڑھاپے سے۱؎۔“
حدیث حاشیہ:
۱؎: یعنی ایسی ضعیفی سے جس میں ہوش و حواس باقی نہ رہیں نہ عبادت کی طاقت رہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Anas b. Malik (RA) reported that Messenger of Allah (ﷺ) as saying: O Allah, I seek refuge in Thee from niggardliness and old age.