Abu-Daud:
Dialects and Readings of the Qur'an (Kitab Al-Huruf Wa Al-Qira'at)
(Chapter:)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
3978.
عطیہ بن سعد عوفی کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا عبداللہ بن عمر ؓ پر قراءت کی اور یوں پڑھا: (اللَّهُ الَّذِي خَلَقَكُمْ مِنْ ضَعْفٍ) (ضاد پر فتحہ کے ساتھ) تو انہوں نے فرمایا: «من ضعف» پڑھو۔ (یعنی ضاد پر ضمہ ہے) میں نے رسول اللہ ﷺ پر یہ آیت اسی طرح پڑھی تھی جیسے کہ تو نے مجھ پر پڑھی ہے تو آپ ﷺ نے میری گرفت فرمائی جیسے کہ میں نے تمہاری گرفت کی ہے۔
تشریح:
قرآن مجید کے کلمات بلاشبہ عربی زبان کے ہیں اور ان کو ان کے کسی بھی لہجہ میں پڑھنا جائز ہے۔ مگر مطلوب وہی ہے جسے رسول اللہﷺ نے اختیار فرمایا ہے۔
قرآن مجید بنی نوع انسان کے لیے سر چشمہ ہدایت ہے جو عربی زبان میں نازل ہوا ہے اہل عرب اپنے مخصوص احوال و ظروف کے تحت اپنے اپنے قبائلی نظم میں اس قدر پختہ تھے کہ اس دور میں ان کے لیے دوسرے قبیلے کا اسلوب نطق و تکلم اختیار کرنا مشکل ہوتا تھا تو رب ذوالجلال والاکرام نے اپنی کتاب میں یہ آسانی فرمادی کہ ہر قبیلہ اپنی آسانی کے مطابق جو اسلوب چاہے ‘اختیار کر لے اور اسے ’’ سات حروف‘‘ میں نازل فرما دیا اس سے انہیں اس کے پڑھنے ‘سمجھنے اور حفظ کرنے میں بہت آسانی رہی اور اس میں اس کتاب کا ’’اعجاز‘‘ بھی تھا۔
[اُنزِلَ الْقُرآنُ عَلى سَبْعَةِ أحرُفٍ]’’قرآن کریم سات حروف (قراءتوں اور لہجوں ) پر نازل کیا گیا ہے ۔‘‘ کی تو ضیح میں اگر چہ کافی بحث ہے ‘مگر راجح مفہوم یہ ہے کہ جہاں کہیں کسی لفظ یا تر کیب میں کسی قبیلے کے لیے کوئی مشکل تھی وہاں قرآن کو ان کے اسلوب میں نازل فرما کر انہیں اسی میں قراءت کرنے کی اجازت دے دی گئی تھی یہ مفہوم نہیں کہ ہر ہر آیت یا ہر ہر لفظ سات حروف پر مشتمل ہے مثلاً بقول علامہ ابن جریر طبری ایک معنی و مفہوم کے لیے سات حروف تک نازل کیے گئے ہیں مثلاً ایک مفہوم ’’آؤ‘‘ کے لیے مختلف الفاظ ہیں هَلُمَّ –اَقْبِلْ- تَعَالَ-اِلىَّ قصْدِىْ- نَحْوِى-قُربِى وغیرہ ۔ ان سب کے معنی ایک دوسرے سے ازحد قریب ہیں۔یا دوسری تو جیہ یہ ہے کہ مختلف الفاظ میں بلحاظ ان کے مفرد ‘تثنیہ‘جمع یا مذکر ‘ مونث یا غائب ‘فعل یا اسم ہونے میں فرق آیا ہے یا بلحاظ اعراب مرفوع ‘منصوب اور مجرد ہونے میں یا مقدم مؤخر ہونے میں یا کئی حروف کی کمی بیشی میں سات طرح کے اختلافات ہیں یا بلحاظ نطق و ادائیگی اظہار‘ ادغام ‘ہمز‘تسہیل یا اشمام وغیرہ میں اختلاف ہے الغرض ان متنوع اختلافات سے قرآن کے معانی میں بنیادی طور پر کوئی فرق نہیں ‘بلکہ یہ سب الفاظ و قراءات با سانید صحیحہ رسول اللہ ﷺ سے منقول ہوئی ہیں اور ابتدائی تین ادوار یعنی رسول اللہ ﷺ کے دور اور حضرت ابوبکر کے دور میں آزادی سے قراءت ہوتی رہی ‘ پھر جب دور عثمانی میں مملکت اسلامیہ کی حدود ازحد وسیع ہوگئیں اور عجمی لوگ بھی مسلمان ہوگئے جو ان اختلافِ الفاظ کی کنہ و حقیقت اور سہولت سے آشنا نہ تھے تو ان کے آپس میں تنازعات ہوتے لگے ‘تو حضرت عثمان نے ان قراءات کو لغت قریش تک محدود و مخصوص کر دیا جو عرب کی معتبر ‘ٹکسالی اور مقبول لغت تھی اور صحابہ کرام نے اس پر اجماع کر لیا اور امت ایک بہت بڑے اور سنگین اختلاف سے محفوظ ہوگئی۔ والحمد الله رب العالمين ورضى الله عن عثمان و ارضاه
عطیہ بن سعد عوفی کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا عبداللہ بن عمر ؓ پر قراءت کی اور یوں پڑھا: (اللَّهُ الَّذِي خَلَقَكُمْ مِنْ ضَعْفٍ) (ضاد پر فتحہ کے ساتھ) تو انہوں نے فرمایا: «من ضعف» پڑھو۔ (یعنی ضاد پر ضمہ ہے) میں نے رسول اللہ ﷺ پر یہ آیت اسی طرح پڑھی تھی جیسے کہ تو نے مجھ پر پڑھی ہے تو آپ ﷺ نے میری گرفت فرمائی جیسے کہ میں نے تمہاری گرفت کی ہے۔
حدیث حاشیہ:
قرآن مجید کے کلمات بلاشبہ عربی زبان کے ہیں اور ان کو ان کے کسی بھی لہجہ میں پڑھنا جائز ہے۔ مگر مطلوب وہی ہے جسے رسول اللہﷺ نے اختیار فرمایا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عطیہ بن سعد عوفی کہتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن عمر ؓ کے سامنے: (اللَّهُ الَّذِي خَلَقَكُمْ مِنْ ضَعْفٍ) ”اللہ وہی ہے جس نے تمہیں کمزوری کی حالت میں پیدا کیا۔“ (سورة الروم: ۵۴) (ضاد کے زبر کے ساتھ) پڑھا تو انہوں نے کہا «مِنْ ضُعْفٍ» (ضاد کے پیش کے ساتھ) ہے میں نے بھی اسی طرح رسول اللہ ﷺ کے سامنے پڑھا تھا جیسے تم نے پڑھا ہے تو آپ ﷺ نے میری گرفت فرمائی جیسے میں نے تمہاری گرفت کی ہے۔
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Abdullah ibn 'Umar (RA): Atiyyah ibn Sa'd al-Awfi said: I recited to 'Abdullah ibn Umar the verse: "It is Allah Who created you in a state of (helplessness) weakness (min da'f)." He said: (Read) min du'f. I recited it to the Apostle of Allah (ﷺ) as you recited it to me, and he gripped me as I gripped you.