Abu-Daud:
Prayer (Kitab Al-Salat)
(Chapter: The Time For Zurh Prayer)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
400.
جناب اسود سے روایت ہے ان کا بیان ہے کہ عبداللہ بن مسعود ؓ نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ کی نماز اندازاً گرمیوں میں تین قدم سے پانچ قدم (سایہ) تک اور سردیوں میں پانچ سے سات قدم تک ہوتی تھی۔
تشریح:
علامہ سندھی نے سنن نسائی کے حاشیہ میں ذکر کیا ہےکہ اس حدیث کا معنی یہ ہے کہ آپ زوال کے بعد جو زیادہ سے زیاد ہ تاخیر کرتے وہ اسی قدر تھی کہ گرمیوں میں سایہ تین سے پانچ قدم اور سردیوں میں پانچ سے سات قدم تک ہوتا تھا۔ اور اس سائے میں اصل اور زائد دونوں سائے شمار ہوئے ہیں۔
’’نماز‘‘ مسلمانوں کے ہاں اللہ عزوجل کی عبادت کا ایک مخصوص انداز ہے اس میں قیام رکوع‘سجدہ‘ اور تشہد میں متعین ذکر اور دعائیں پڑھی جاتی ہیں اس کی ابتدا کلمہ ’’اللہ اکبر‘‘ سے اور انتہا ’’السلام علیکم ور حمۃ اللہ‘‘ سے ہوتی ہے تمام امتوں میں اللہ کی عبادت کے جو طور طریقے رائج تھے یا ابھی تک موجود ہیں ان سب میں سے ہم مسلمانوں کی نماز ‘انتہائی عمدہ خوبصورت اور کامل عبادت ہے ۔بندے کی بندگی کا عجزہ اور رب ذوالجلال کی عظمت کا جو اظہار اس طریق عبادت میں ہے ‘کسی اور میں دکھائی نہیں دیتا۔ اسلام میں بھی اس کے مقابلے کی اور کوئی عباد نہیں ہے یہ ایک ایساستون ہے جس پر دین کی پوری عمارت کڑی ہوتی ہے ‘ اگر یہ گر جائے تو پوری عمار گر جاتی ہے سب سے پہلے اسی عباد کا حکم دیا گیا اور شب معراج میں اللہ عزوجل نے اپنے رسول کو بلا واسطہ براہ راست خطاب سے اس کا حکم دیا اور پھر جبرئیل امین نے نبئ کریم ﷺ کو دوبار امامت کرائی اور اس کی تمام تر جزئیات سے آپ کو عملاً آگاہ فرمایا اور آپ نے بھی جس تفصیل سے نماز کے احکام و آداب بیان کیے ہیں کسی اور عبادت کے اس طرح بیان نہیں کیے۔قیامت کے روز بھی سب سے پہلے نماز ہی کا حساب ہو گا جس کی نماز درست اور صحیح نکلی اس کے باقی اعمال بھی صحیح ہو جائیں گے اور اگر یہی خراب نکلی تو باقی اعمال بھی برباد ہو جائیں گے رسول اللہ ﷺ اپنی ساری زندگی نماز کی تعلیم و تا کید فرماتے رہے حتی کہ دنیا سے کوچ کے آخری لمحات میں بھی ’’نماز ‘نماز‘‘ کی وصیت آپ کی زبان مبارک پر تھی آپ نے امت کو متنبہ فرمایا کہ اسلام ایک ایک کڑی کر ک ٹوٹتا اور کھلتا چلا جائے گا ‘ جب ایک کڑی ٹوٹے گی تو لوگ دوسری میں مبتلا ہو جائیں گے اور سب سے آخر میں نماز بھی چھوٹ جائے گی ۔۔(موارد الظمآ ن : 1/401‘حدیث 257 الی زوائد ابن حبان)
قرآن مجید کی سیکڑوں آیات اس کی فرضیت اور اہمیت بیان کرتی ہیں سفر ‘حضر‘صحت‘مرض ‘امن اور خوف ‘ہر حال میں نماز فرض ہے اور اس کے آداب بیان کیے گئے ہیں نماز میں کوتاہی کر نے والو کے متعلق قرآن مجید اور احادیث میں بڑی سخت وعید سنائی گئی ہیں۔
امام ابوداود نے اس کتاب میں نماز کے مسائل بڑی تفصیل سے بیان فرمائے ہیں۔
جناب اسود سے روایت ہے ان کا بیان ہے کہ عبداللہ بن مسعود ؓ نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ کی نماز اندازاً گرمیوں میں تین قدم سے پانچ قدم (سایہ) تک اور سردیوں میں پانچ سے سات قدم تک ہوتی تھی۔
حدیث حاشیہ:
علامہ سندھی نے سنن نسائی کے حاشیہ میں ذکر کیا ہےکہ اس حدیث کا معنی یہ ہے کہ آپ زوال کے بعد جو زیادہ سے زیاد ہ تاخیر کرتے وہ اسی قدر تھی کہ گرمیوں میں سایہ تین سے پانچ قدم اور سردیوں میں پانچ سے سات قدم تک ہوتا تھا۔ اور اس سائے میں اصل اور زائد دونوں سائے شمار ہوئے ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
اسود کہتے ہیں کہ عبداللہ بن مسعود ؓ نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ کی (نماز ظہر) کا اندازہ گرمی میں تین قدم سے پانچ قدم تک اور جاڑے میں پانچ قدم سے سات قدم تک تھا۱؎۔
حدیث حاشیہ:
۱؎: اس حدیث کا معنی یہ ہے کہ آپ زوال کے بعد جو زیادہ سے زیادہ تاخیر کرتے وہ اسی قدر ہوتی تھی کہ گرمیوں میں سایہ تین سے پانچ قدم اور سردیوں میں پانچ سے سات قدم تک ہوتا تھا، یعنی اصلی سایہ اور زائد دونوں کا مجموعہ ملا کر اس مقدار کو پہنچتا تھا نہ کہ صرف زائد۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Abdullah ibn Mas'ud (RA): The extent of the shadow when the Apostle of Allah (ﷺ) prayed (the noon prayer) was three to five feet in summer and five to seven feet in winter.