Abu-Daud:
Dialects and Readings of the Qur'an (Kitab Al-Huruf Wa Al-Qira'at)
(Chapter:)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
4001.
ام المؤمنین سیدہ ام سلمہ ؓ نے رسول اللہ ﷺ کی قرآت کا ذکر کیا «بسم الله الرحمن الرحيم * الحمد لله رب العالمين * الرحمن الرحيم * ملك يوم الدين» آپ ﷺ اپنی قرآت میں ایک ایک لفظ علیحدہ علیحدہ کر کے پڑھتے تھے ۔ امام ابوداؤد ؓ کہتے ہیں میں نے امام احمد ؓ سے سنا ‘ وہ فرماتے تھے : قدیم قرآت ( سلف کی قرآت «ملك يوم الدين» ہی ہے ۔
تشریح:
یہ روایت سندا ضعیف ہے تاہم معنا صیح ہے کیونکہ دیگر صحیح احادیث میں یہی چیز بیان ہوئی ہے کہ قرآن مجید کی قراءت میں چاہیےکہ ہرہر آیت پر وقف کیاجائے اور ٹھہر ٹھہر کر پڑھا جائے۔انتہائی تیز پڑھنا اور آیات پر وقف نہ کرنا مسنون طریقے کے خلاف ہے۔
قرآن مجید بنی نوع انسان کے لیے سر چشمہ ہدایت ہے جو عربی زبان میں نازل ہوا ہے اہل عرب اپنے مخصوص احوال و ظروف کے تحت اپنے اپنے قبائلی نظم میں اس قدر پختہ تھے کہ اس دور میں ان کے لیے دوسرے قبیلے کا اسلوب نطق و تکلم اختیار کرنا مشکل ہوتا تھا تو رب ذوالجلال والاکرام نے اپنی کتاب میں یہ آسانی فرمادی کہ ہر قبیلہ اپنی آسانی کے مطابق جو اسلوب چاہے ‘اختیار کر لے اور اسے ’’ سات حروف‘‘ میں نازل فرما دیا اس سے انہیں اس کے پڑھنے ‘سمجھنے اور حفظ کرنے میں بہت آسانی رہی اور اس میں اس کتاب کا ’’اعجاز‘‘ بھی تھا۔
[اُنزِلَ الْقُرآنُ عَلى سَبْعَةِ أحرُفٍ]’’قرآن کریم سات حروف (قراءتوں اور لہجوں ) پر نازل کیا گیا ہے ۔‘‘ کی تو ضیح میں اگر چہ کافی بحث ہے ‘مگر راجح مفہوم یہ ہے کہ جہاں کہیں کسی لفظ یا تر کیب میں کسی قبیلے کے لیے کوئی مشکل تھی وہاں قرآن کو ان کے اسلوب میں نازل فرما کر انہیں اسی میں قراءت کرنے کی اجازت دے دی گئی تھی یہ مفہوم نہیں کہ ہر ہر آیت یا ہر ہر لفظ سات حروف پر مشتمل ہے مثلاً بقول علامہ ابن جریر طبری ایک معنی و مفہوم کے لیے سات حروف تک نازل کیے گئے ہیں مثلاً ایک مفہوم ’’آؤ‘‘ کے لیے مختلف الفاظ ہیں هَلُمَّ –اَقْبِلْ- تَعَالَ-اِلىَّ قصْدِىْ- نَحْوِى-قُربِى وغیرہ ۔ ان سب کے معنی ایک دوسرے سے ازحد قریب ہیں۔یا دوسری تو جیہ یہ ہے کہ مختلف الفاظ میں بلحاظ ان کے مفرد ‘تثنیہ‘جمع یا مذکر ‘ مونث یا غائب ‘فعل یا اسم ہونے میں فرق آیا ہے یا بلحاظ اعراب مرفوع ‘منصوب اور مجرد ہونے میں یا مقدم مؤخر ہونے میں یا کئی حروف کی کمی بیشی میں سات طرح کے اختلافات ہیں یا بلحاظ نطق و ادائیگی اظہار‘ ادغام ‘ہمز‘تسہیل یا اشمام وغیرہ میں اختلاف ہے الغرض ان متنوع اختلافات سے قرآن کے معانی میں بنیادی طور پر کوئی فرق نہیں ‘بلکہ یہ سب الفاظ و قراءات با سانید صحیحہ رسول اللہ ﷺ سے منقول ہوئی ہیں اور ابتدائی تین ادوار یعنی رسول اللہ ﷺ کے دور اور حضرت ابوبکر کے دور میں آزادی سے قراءت ہوتی رہی ‘ پھر جب دور عثمانی میں مملکت اسلامیہ کی حدود ازحد وسیع ہوگئیں اور عجمی لوگ بھی مسلمان ہوگئے جو ان اختلافِ الفاظ کی کنہ و حقیقت اور سہولت سے آشنا نہ تھے تو ان کے آپس میں تنازعات ہوتے لگے ‘تو حضرت عثمان نے ان قراءات کو لغت قریش تک محدود و مخصوص کر دیا جو عرب کی معتبر ‘ٹکسالی اور مقبول لغت تھی اور صحابہ کرام نے اس پر اجماع کر لیا اور امت ایک بہت بڑے اور سنگین اختلاف سے محفوظ ہوگئی۔ والحمد الله رب العالمين ورضى الله عن عثمان و ارضاه
ام المؤمنین سیدہ ام سلمہ ؓ نے رسول اللہ ﷺ کی قرآت کا ذکر کیا «بسم الله الرحمن الرحيم * الحمد لله رب العالمين * الرحمن الرحيم * ملك يوم الدين» آپ ﷺ اپنی قرآت میں ایک ایک لفظ علیحدہ علیحدہ کر کے پڑھتے تھے ۔ امام ابوداؤد ؓ کہتے ہیں میں نے امام احمد ؓ سے سنا ‘ وہ فرماتے تھے : قدیم قرآت ( سلف کی قرآت «ملك يوم الدين» ہی ہے ۔
حدیث حاشیہ:
یہ روایت سندا ضعیف ہے تاہم معنا صیح ہے کیونکہ دیگر صحیح احادیث میں یہی چیز بیان ہوئی ہے کہ قرآن مجید کی قراءت میں چاہیےکہ ہرہر آیت پر وقف کیاجائے اور ٹھہر ٹھہر کر پڑھا جائے۔انتہائی تیز پڑھنا اور آیات پر وقف نہ کرنا مسنون طریقے کے خلاف ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ام المؤمنین ام سلمہ ؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے ذکر کیا یا اس کے علاوہ راوی نے کوئی اور کلمہ کہا کہ رسول اللہ ﷺ کی قرآت یوں ہوتی «بسم الله الرحمن الرحيم * الحمد لله رب العالمين * الرحمن الرحيم * ملك يوم الدين» آپ ہر ہر آیت الگ الگ پڑھتے تھے ( ایک آیت کو دوسری آیت میں ملاتے نہیں تھے ) ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : میں نے احمد کو کہتے سنا ہے کہ پرانی قرآت «مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ» ہے ۔
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Umm Salamah, Ummul Mu'minin (RA):
The Apostle of Allah (ﷺ) used to recite: "In the name of Allah, the Cherisher and Sustainer of the worlds; most Gracious, most Merciful; Master of the Day of Judgment", breaking its recitation into verses, one after another.