Abu-Daud:
Dialects and Readings of the Qur'an (Kitab Al-Huruf Wa Al-Qira'at)
(Chapter:)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
4002.
سیدنا ابوذر ؓ نے بیان کیا کہ میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ سواری پر پیچھے بیٹھا ہوا تھا جبکہ آپ ﷺ گدھے پر سوار تھے اور سورج غروب ہونے والا تھا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”کیا تم جانتے ہو کہ یہ کہاں غروب ہوتا ہے؟ میں نے کہا: اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا «فإنها تغرب في عين حامية» ”یہ ایک گرم چشمے میں غروب ہوتا ہے۔“
تشریح:
یہ حدیث صحیح الاسناد ہے اور سورہ کہف آیات: 82 میں مذکورہ (عَیِنُ میرے سے اگلا لفظ لکھا نہیں جارہا) کی دوسری قراءت (عَیِنُ میرے سے اگلا لفظلکھا نہیں جارہا) ہے۔ (دیکھیے گزشتہ روایت:3986)
قرآن مجید بنی نوع انسان کے لیے سر چشمہ ہدایت ہے جو عربی زبان میں نازل ہوا ہے اہل عرب اپنے مخصوص احوال و ظروف کے تحت اپنے اپنے قبائلی نظم میں اس قدر پختہ تھے کہ اس دور میں ان کے لیے دوسرے قبیلے کا اسلوب نطق و تکلم اختیار کرنا مشکل ہوتا تھا تو رب ذوالجلال والاکرام نے اپنی کتاب میں یہ آسانی فرمادی کہ ہر قبیلہ اپنی آسانی کے مطابق جو اسلوب چاہے ‘اختیار کر لے اور اسے ’’ سات حروف‘‘ میں نازل فرما دیا اس سے انہیں اس کے پڑھنے ‘سمجھنے اور حفظ کرنے میں بہت آسانی رہی اور اس میں اس کتاب کا ’’اعجاز‘‘ بھی تھا۔
[اُنزِلَ الْقُرآنُ عَلى سَبْعَةِ أحرُفٍ]’’قرآن کریم سات حروف (قراءتوں اور لہجوں ) پر نازل کیا گیا ہے ۔‘‘ کی تو ضیح میں اگر چہ کافی بحث ہے ‘مگر راجح مفہوم یہ ہے کہ جہاں کہیں کسی لفظ یا تر کیب میں کسی قبیلے کے لیے کوئی مشکل تھی وہاں قرآن کو ان کے اسلوب میں نازل فرما کر انہیں اسی میں قراءت کرنے کی اجازت دے دی گئی تھی یہ مفہوم نہیں کہ ہر ہر آیت یا ہر ہر لفظ سات حروف پر مشتمل ہے مثلاً بقول علامہ ابن جریر طبری ایک معنی و مفہوم کے لیے سات حروف تک نازل کیے گئے ہیں مثلاً ایک مفہوم ’’آؤ‘‘ کے لیے مختلف الفاظ ہیں هَلُمَّ –اَقْبِلْ- تَعَالَ-اِلىَّ قصْدِىْ- نَحْوِى-قُربِى وغیرہ ۔ ان سب کے معنی ایک دوسرے سے ازحد قریب ہیں۔یا دوسری تو جیہ یہ ہے کہ مختلف الفاظ میں بلحاظ ان کے مفرد ‘تثنیہ‘جمع یا مذکر ‘ مونث یا غائب ‘فعل یا اسم ہونے میں فرق آیا ہے یا بلحاظ اعراب مرفوع ‘منصوب اور مجرد ہونے میں یا مقدم مؤخر ہونے میں یا کئی حروف کی کمی بیشی میں سات طرح کے اختلافات ہیں یا بلحاظ نطق و ادائیگی اظہار‘ ادغام ‘ہمز‘تسہیل یا اشمام وغیرہ میں اختلاف ہے الغرض ان متنوع اختلافات سے قرآن کے معانی میں بنیادی طور پر کوئی فرق نہیں ‘بلکہ یہ سب الفاظ و قراءات با سانید صحیحہ رسول اللہ ﷺ سے منقول ہوئی ہیں اور ابتدائی تین ادوار یعنی رسول اللہ ﷺ کے دور اور حضرت ابوبکر کے دور میں آزادی سے قراءت ہوتی رہی ‘ پھر جب دور عثمانی میں مملکت اسلامیہ کی حدود ازحد وسیع ہوگئیں اور عجمی لوگ بھی مسلمان ہوگئے جو ان اختلافِ الفاظ کی کنہ و حقیقت اور سہولت سے آشنا نہ تھے تو ان کے آپس میں تنازعات ہوتے لگے ‘تو حضرت عثمان نے ان قراءات کو لغت قریش تک محدود و مخصوص کر دیا جو عرب کی معتبر ‘ٹکسالی اور مقبول لغت تھی اور صحابہ کرام نے اس پر اجماع کر لیا اور امت ایک بہت بڑے اور سنگین اختلاف سے محفوظ ہوگئی۔ والحمد الله رب العالمين ورضى الله عن عثمان و ارضاه
سیدنا ابوذر ؓ نے بیان کیا کہ میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ سواری پر پیچھے بیٹھا ہوا تھا جبکہ آپ ﷺ گدھے پر سوار تھے اور سورج غروب ہونے والا تھا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”کیا تم جانتے ہو کہ یہ کہاں غروب ہوتا ہے؟ میں نے کہا: اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا «فإنها تغرب في عين حامية» ”یہ ایک گرم چشمے میں غروب ہوتا ہے۔“
حدیث حاشیہ:
یہ حدیث صحیح الاسناد ہے اور سورہ کہف آیات: 82 میں مذکورہ (عَیِنُ میرے سے اگلا لفظ لکھا نہیں جارہا) کی دوسری قراءت (عَیِنُ میرے سے اگلا لفظلکھا نہیں جارہا) ہے۔ (دیکھیے گزشتہ روایت:3986)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابوذر ؓ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کا ردیف تھا، آپ ایک گدھے پر سوار تھے اور غروب شمس کا وقت تھا، آپ ﷺ نے فرمایا: ”کیا تمہیں معلوم ہے کہ یہ کہاں ڈوبتا ہے؟“ میں نے عرض کیا: اللہ اور اس کے رسول زیادہ جانتے ہیں، آپ ﷺ نے فرمایا: «فإنها تغرب في عين حامية» ”یہ ایک گرم چشمہ میں ڈوبتا ہے۔“ (سورة الکهف: ۸۶)۱؎۔
حدیث حاشیہ:
۱؎: مشہور قراءت «حَمِئَةٍ» ہے، یعنی کالی مٹی کے چشمہ میں ڈوبتا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Dharr: I was sitting behind the Messenger of Allah (ﷺ) who was riding a donkey while the sun was setting. He asked: Do you know where this sets? I replied: Allah and his Apostle know best. He said: It sets in a spring of warm water (Hamiyah).