Abu-Daud:
Dialects and Readings of the Qur'an (Kitab Al-Huruf Wa Al-Qira'at)
(Chapter:)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
4008.
ام المؤمنین سیدہ عائشہ ؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ پر وحی نازل ہوئی تو آپ ﷺ نے ہمیں یہ آیات پڑھ کر سنائیں (سُورَةٌ أَنْزَلْنَاهَا وَفَرَضْنَاهَا) امام ابوداؤد ؓ کہتے ہیں کہ آپ ﷺ نے («فرضناها» کا کلمہ ”را“ کی) تحفیف سے پڑھا حتیٰ کہ ان آیات پر پہنچے (جب میں سیدہ عائشہ طیبہ ؓ کی براءت کا مضمون ہے)۔
تشریح:
یہ آیت سورہ نور کی ابتدا میں ہے، اس میں فَرَضنَاھَا جمہور کی معروف قراءت ہے اور معنی ہیں: ہم نے اسے فرض کیا ہے۔ جبکہ ابن کثیر اور ابوعمر کی قراءت میں را کی تشدید کے ساتھ (فَرَضنَاھَا) ہے اور مفہوم ہے: ہم نے اسے خوب واضح اور مفصل بیان کیا ہے۔
قرآن مجید بنی نوع انسان کے لیے سر چشمہ ہدایت ہے جو عربی زبان میں نازل ہوا ہے اہل عرب اپنے مخصوص احوال و ظروف کے تحت اپنے اپنے قبائلی نظم میں اس قدر پختہ تھے کہ اس دور میں ان کے لیے دوسرے قبیلے کا اسلوب نطق و تکلم اختیار کرنا مشکل ہوتا تھا تو رب ذوالجلال والاکرام نے اپنی کتاب میں یہ آسانی فرمادی کہ ہر قبیلہ اپنی آسانی کے مطابق جو اسلوب چاہے ‘اختیار کر لے اور اسے ’’ سات حروف‘‘ میں نازل فرما دیا اس سے انہیں اس کے پڑھنے ‘سمجھنے اور حفظ کرنے میں بہت آسانی رہی اور اس میں اس کتاب کا ’’اعجاز‘‘ بھی تھا۔
[اُنزِلَ الْقُرآنُ عَلى سَبْعَةِ أحرُفٍ]’’قرآن کریم سات حروف (قراءتوں اور لہجوں ) پر نازل کیا گیا ہے ۔‘‘ کی تو ضیح میں اگر چہ کافی بحث ہے ‘مگر راجح مفہوم یہ ہے کہ جہاں کہیں کسی لفظ یا تر کیب میں کسی قبیلے کے لیے کوئی مشکل تھی وہاں قرآن کو ان کے اسلوب میں نازل فرما کر انہیں اسی میں قراءت کرنے کی اجازت دے دی گئی تھی یہ مفہوم نہیں کہ ہر ہر آیت یا ہر ہر لفظ سات حروف پر مشتمل ہے مثلاً بقول علامہ ابن جریر طبری ایک معنی و مفہوم کے لیے سات حروف تک نازل کیے گئے ہیں مثلاً ایک مفہوم ’’آؤ‘‘ کے لیے مختلف الفاظ ہیں هَلُمَّ –اَقْبِلْ- تَعَالَ-اِلىَّ قصْدِىْ- نَحْوِى-قُربِى وغیرہ ۔ ان سب کے معنی ایک دوسرے سے ازحد قریب ہیں۔یا دوسری تو جیہ یہ ہے کہ مختلف الفاظ میں بلحاظ ان کے مفرد ‘تثنیہ‘جمع یا مذکر ‘ مونث یا غائب ‘فعل یا اسم ہونے میں فرق آیا ہے یا بلحاظ اعراب مرفوع ‘منصوب اور مجرد ہونے میں یا مقدم مؤخر ہونے میں یا کئی حروف کی کمی بیشی میں سات طرح کے اختلافات ہیں یا بلحاظ نطق و ادائیگی اظہار‘ ادغام ‘ہمز‘تسہیل یا اشمام وغیرہ میں اختلاف ہے الغرض ان متنوع اختلافات سے قرآن کے معانی میں بنیادی طور پر کوئی فرق نہیں ‘بلکہ یہ سب الفاظ و قراءات با سانید صحیحہ رسول اللہ ﷺ سے منقول ہوئی ہیں اور ابتدائی تین ادوار یعنی رسول اللہ ﷺ کے دور اور حضرت ابوبکر کے دور میں آزادی سے قراءت ہوتی رہی ‘ پھر جب دور عثمانی میں مملکت اسلامیہ کی حدود ازحد وسیع ہوگئیں اور عجمی لوگ بھی مسلمان ہوگئے جو ان اختلافِ الفاظ کی کنہ و حقیقت اور سہولت سے آشنا نہ تھے تو ان کے آپس میں تنازعات ہوتے لگے ‘تو حضرت عثمان نے ان قراءات کو لغت قریش تک محدود و مخصوص کر دیا جو عرب کی معتبر ‘ٹکسالی اور مقبول لغت تھی اور صحابہ کرام نے اس پر اجماع کر لیا اور امت ایک بہت بڑے اور سنگین اختلاف سے محفوظ ہوگئی۔ والحمد الله رب العالمين ورضى الله عن عثمان و ارضاه
ام المؤمنین سیدہ عائشہ ؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ پر وحی نازل ہوئی تو آپ ﷺ نے ہمیں یہ آیات پڑھ کر سنائیں (سُورَةٌ أَنْزَلْنَاهَا وَفَرَضْنَاهَا) امام ابوداؤد ؓ کہتے ہیں کہ آپ ﷺ نے («فرضناها» کا کلمہ ”را“ کی) تحفیف سے پڑھا حتیٰ کہ ان آیات پر پہنچے (جب میں سیدہ عائشہ طیبہ ؓ کی براءت کا مضمون ہے)۔
حدیث حاشیہ:
یہ آیت سورہ نور کی ابتدا میں ہے، اس میں فَرَضنَاھَا جمہور کی معروف قراءت ہے اور معنی ہیں: ہم نے اسے فرض کیا ہے۔ جبکہ ابن کثیر اور ابوعمر کی قراءت میں را کی تشدید کے ساتھ (فَرَضنَاھَا) ہے اور مفہوم ہے: ہم نے اسے خوب واضح اور مفصل بیان کیا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ام المؤمنین عائشہ ؓ کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ پر وحی اتری تو آپ نے ہمیں (سُورَةٌ أَنْزَلْنَاهَا وَفَرَضْنَاهَا) ”یہ وہ سورت ہے جو ہم نے نازل فرمائی ہے اور مقرر کر دی ہے۔“ (سورة النور:۱) پڑھ کر سنایا۔ ابوداؤد کہتے ہیں: یعنی مخفف پڑھا۱؎ یہاں تک کہ ان آیات پر آئے۔
حدیث حاشیہ:
۱؎: مراد «فرضناها» کی راء ہے، جمہور کی قراءت تخفیف راء کے ساتھ ہے، اور ابوعمرو اور ابن کثیر نے اسے تشدید راء کے ساتھ پڑھا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Aishah (RA): The revelation came down to Messenger of Allah (ﷺ) and he recited to is: "A surah which We have sent down and which We have ordained (faradnaha)". Abu Dawud رحمۃ اللہ علیہ said: The letter ra ® is the word faradnaha has short vowel a (with out doubling of consonant r), and then he reached the verses after this verse.