Abu-Daud:
Prayer (Kitab Al-Salat)
(Chapter: The Time For 'Asr Prayer)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
410.
جناب ابو یونس، سیدہ عائشہ ؓ کے آزاد کردہ غلام بیان کرتے ہیں کہ مجھے سیدہ عائشہ ؓ نے حکم دیا کہ انہیں قرآن مجید لکھ دوں اور فرمایا کہ جب تم آیت کریمہ (حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ وَالصَّلَاةِ الْوُسْطَى) پر پہنچو تو مجھے بتلانا۔ چنانچہ جب میں اس آیت کریمہ پر پہنچا تو انہیں خبر دی۔ تو انہوں نے مجھے یہ آیت اس طرح لکھوائی (حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ وَالصَّلَاةِ الْوُسْطَى وَقُومُوا لِلَّهِ قَانِتِينَ) ”نمازوں کی پابندی کرو اور درمیانی نماز (یا افضل) نماز عصر کی، اور اللہ کے لیے با ادب ہو کر کھڑے ہوؤ۔“ پھر انہوں نے کہا کہ میں نے یہ (آیت ان الفاظ کے ساتھ) رسول اللہ ﷺ سے سنی ہے۔
تشریح:
اس قراءت سے معلوم ہوتا ہے کہ صلوۃ الوسطی سے مراد، عصر کی نماز نہیں کوئی اور نماز ہے کیونکہ عطف مغائرت کا مقتضی ہے۔ لیکن علماء نے اس حدیث کی تین توجیہات کی ہیں۔اس حدیث میں وارد شدہ آیت کریمہ کےالفاظ اصطلاحی طور پر’’شاذ قراءت،، کہلاتے ہیں جوحجت نہیں۔ قرآن کریم کےلیے ’’تواتر،، شرط ہے۔ اس قسم کی قراءت تفسیر وتوضیح میں ممدومعاون ہوتی ہے۔ علامہ باجی نے کہا ہے احتمال ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہو مگر بعد میں اسے منسوخ کردیا گیا ہو جس کا انہیں علم نہ ہوسکا ہو۔یاان (حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا) کا خیال ہوگا کہ اس آیت کے الفاظ باقی اور حکم منسوخ ہوا ہے یا یہ بھی ہوسکتا ہے کہ نبی ﷺ نے بطور فضیلت اس کا ذکر فرمایا مگرحضرت عائشہ رضی للہ عنہا نے اسے الفاظ قرآن باور کیا۔ اور اسی بیناد پراپنے مصحف میں درج کرالیا۔ (2) یا یہ عطف تفسیری ہو (یعنی توضیح کےلیے) (3) یا واؤ زائدہ ہو، اس کی تائید حضرت ابی بن کعب کی قراءت سے بھی ہوتی ہے جس میں صلوۃ العصر کے الفاظ بغیر واؤ کے ہیں۔ واللہ أعلم۔ (عون المعبود) لفظ (وسطی) مجمل ہے۔ ایک معنی تو عام ہیں یعنی درمیانی۔ لیکن دوسرے معنی ’’افضل و اعلی،، ہیں جیسے کہ آیت کریمہ (وَكَذَلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ)(البقرہ: 143) ’’اورایسے ہی ہم نے تمہیں افضل واعلی امت بنایا ہےتاکہ تم لوگوں پر گواہ رہو۔،، میں امت وسط سے مراد ’’افضل و اعلی امت،، ہے۔ اسی طرح (الصلوة الوسطی) کےمعنی ’’افضل و اعلی،، بنتے ہیں اور احادیث کی کثیر تعداد اس سے نماز عصر ہی مراد ہونے کا فائدہ دیتی ہے۔
’’نماز‘‘ مسلمانوں کے ہاں اللہ عزوجل کی عبادت کا ایک مخصوص انداز ہے اس میں قیام رکوع‘سجدہ‘ اور تشہد میں متعین ذکر اور دعائیں پڑھی جاتی ہیں اس کی ابتدا کلمہ ’’اللہ اکبر‘‘ سے اور انتہا ’’السلام علیکم ور حمۃ اللہ‘‘ سے ہوتی ہے تمام امتوں میں اللہ کی عبادت کے جو طور طریقے رائج تھے یا ابھی تک موجود ہیں ان سب میں سے ہم مسلمانوں کی نماز ‘انتہائی عمدہ خوبصورت اور کامل عبادت ہے ۔بندے کی بندگی کا عجزہ اور رب ذوالجلال کی عظمت کا جو اظہار اس طریق عبادت میں ہے ‘کسی اور میں دکھائی نہیں دیتا۔ اسلام میں بھی اس کے مقابلے کی اور کوئی عباد نہیں ہے یہ ایک ایساستون ہے جس پر دین کی پوری عمارت کڑی ہوتی ہے ‘ اگر یہ گر جائے تو پوری عمار گر جاتی ہے سب سے پہلے اسی عباد کا حکم دیا گیا اور شب معراج میں اللہ عزوجل نے اپنے رسول کو بلا واسطہ براہ راست خطاب سے اس کا حکم دیا اور پھر جبرئیل امین نے نبئ کریم ﷺ کو دوبار امامت کرائی اور اس کی تمام تر جزئیات سے آپ کو عملاً آگاہ فرمایا اور آپ نے بھی جس تفصیل سے نماز کے احکام و آداب بیان کیے ہیں کسی اور عبادت کے اس طرح بیان نہیں کیے۔قیامت کے روز بھی سب سے پہلے نماز ہی کا حساب ہو گا جس کی نماز درست اور صحیح نکلی اس کے باقی اعمال بھی صحیح ہو جائیں گے اور اگر یہی خراب نکلی تو باقی اعمال بھی برباد ہو جائیں گے رسول اللہ ﷺ اپنی ساری زندگی نماز کی تعلیم و تا کید فرماتے رہے حتی کہ دنیا سے کوچ کے آخری لمحات میں بھی ’’نماز ‘نماز‘‘ کی وصیت آپ کی زبان مبارک پر تھی آپ نے امت کو متنبہ فرمایا کہ اسلام ایک ایک کڑی کر ک ٹوٹتا اور کھلتا چلا جائے گا ‘ جب ایک کڑی ٹوٹے گی تو لوگ دوسری میں مبتلا ہو جائیں گے اور سب سے آخر میں نماز بھی چھوٹ جائے گی ۔۔(موارد الظمآ ن : 1/401‘حدیث 257 الی زوائد ابن حبان)
قرآن مجید کی سیکڑوں آیات اس کی فرضیت اور اہمیت بیان کرتی ہیں سفر ‘حضر‘صحت‘مرض ‘امن اور خوف ‘ہر حال میں نماز فرض ہے اور اس کے آداب بیان کیے گئے ہیں نماز میں کوتاہی کر نے والو کے متعلق قرآن مجید اور احادیث میں بڑی سخت وعید سنائی گئی ہیں۔
امام ابوداود نے اس کتاب میں نماز کے مسائل بڑی تفصیل سے بیان فرمائے ہیں۔
جناب ابو یونس، سیدہ عائشہ ؓ کے آزاد کردہ غلام بیان کرتے ہیں کہ مجھے سیدہ عائشہ ؓ نے حکم دیا کہ انہیں قرآن مجید لکھ دوں اور فرمایا کہ جب تم آیت کریمہ (حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ وَالصَّلَاةِ الْوُسْطَى) پر پہنچو تو مجھے بتلانا۔ چنانچہ جب میں اس آیت کریمہ پر پہنچا تو انہیں خبر دی۔ تو انہوں نے مجھے یہ آیت اس طرح لکھوائی (حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ وَالصَّلَاةِ الْوُسْطَى وَقُومُوا لِلَّهِ قَانِتِينَ) ”نمازوں کی پابندی کرو اور درمیانی نماز (یا افضل) نماز عصر کی، اور اللہ کے لیے با ادب ہو کر کھڑے ہوؤ۔“ پھر انہوں نے کہا کہ میں نے یہ (آیت ان الفاظ کے ساتھ) رسول اللہ ﷺ سے سنی ہے۔
حدیث حاشیہ:
اس قراءت سے معلوم ہوتا ہے کہ صلوۃ الوسطی سے مراد، عصر کی نماز نہیں کوئی اور نماز ہے کیونکہ عطف مغائرت کا مقتضی ہے۔ لیکن علماء نے اس حدیث کی تین توجیہات کی ہیں۔اس حدیث میں وارد شدہ آیت کریمہ کےالفاظ اصطلاحی طور پر’’شاذ قراءت،، کہلاتے ہیں جوحجت نہیں۔ قرآن کریم کےلیے ’’تواتر،، شرط ہے۔ اس قسم کی قراءت تفسیر وتوضیح میں ممدومعاون ہوتی ہے۔ علامہ باجی نے کہا ہے احتمال ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہو مگر بعد میں اسے منسوخ کردیا گیا ہو جس کا انہیں علم نہ ہوسکا ہو۔یاان (حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا) کا خیال ہوگا کہ اس آیت کے الفاظ باقی اور حکم منسوخ ہوا ہے یا یہ بھی ہوسکتا ہے کہ نبی ﷺ نے بطور فضیلت اس کا ذکر فرمایا مگرحضرت عائشہ رضی للہ عنہا نے اسے الفاظ قرآن باور کیا۔ اور اسی بیناد پراپنے مصحف میں درج کرالیا۔ (2) یا یہ عطف تفسیری ہو (یعنی توضیح کےلیے) (3) یا واؤ زائدہ ہو، اس کی تائید حضرت ابی بن کعب کی قراءت سے بھی ہوتی ہے جس میں صلوۃ العصر کے الفاظ بغیر واؤ کے ہیں۔ واللہ أعلم۔ (عون المعبود) لفظ (وسطی) مجمل ہے۔ ایک معنی تو عام ہیں یعنی درمیانی۔ لیکن دوسرے معنی ’’افضل و اعلی،، ہیں جیسے کہ آیت کریمہ (وَكَذَلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ)(البقرہ: 143) ’’اورایسے ہی ہم نے تمہیں افضل واعلی امت بنایا ہےتاکہ تم لوگوں پر گواہ رہو۔،، میں امت وسط سے مراد ’’افضل و اعلی امت،، ہے۔ اسی طرح (الصلوة الوسطی) کےمعنی ’’افضل و اعلی،، بنتے ہیں اور احادیث کی کثیر تعداد اس سے نماز عصر ہی مراد ہونے کا فائدہ دیتی ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
قعقاع بن حکیم ام المؤمنین عائشہ ؓ کے آزاد کردہ غلام ابویونس سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ ام المؤمنین عائشہ ؓ نے مجھے حکم دیا کہ میں ان کے لیے ایک مصحف لکھوں اور کہا کہ جب تم آیت کریمہ: (حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ وَالصَّلَاةِ الْوُسْطَى وَقُومُوا لِلَّهِ قَانِتِينَ) پر پہنچنا تو مجھے بتانا، چنانچہ جب میں اس آیت پر پہنچا تو انہیں اس کی خبر دی، تو انہوں نے مجھ سے اسے یوں لکھوایا: (حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ وَالصَّلَاةِ الْوُسْطَى وَقُومُوا لِلَّهِ قَانِتِينَ) ۱؎ ۲؎ ، پھر عائشہ ؓ نے کہا: میں نے اسے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے۔
حدیث حاشیہ:
۱؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نماز وسطیٰ (درمیانی نماز) نماز عصر نہیں کوئی اور نماز ہے لیکن یہ قرأت شاذ ہے اس سے استدلال صحیح نہیں، یا یہ عطف عطف تفسیری ہے۔ ۲؎: نمازوں کی حفاظت کرو خصوصی طور پر درمیان والی نماز کی اور عصر کی اور اللہ کے سامنے باادب کھڑے رہا کرو۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Abu Yunus, the freed slave of 'Aishah (RA) said: 'Aishah (RA) commanded me to write for her come passage from the Qur'an. She also added: When you reach the following verse, inform me: "Be guardian of your prayers and of the midmost prayer" (2:238). When I reached it, I informed her. She asked me to write: "Be guardians of your prayers, and of the midmost prayer, and of the 'Asr prayer, and stand up with devotion of Allah" (2:238). 'Aishah (RA) then said: I heard it from the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم).