Abu-Daud:
Prayer (Kitab Al-Salat)
(Chapter: The Time For 'Asr Prayer)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
413.
جناب علاء بن عبدالرحمٰن بیان کرتے ہیں کہ ہم نماز ظہر کے بعد سیدنا انس ؓ کے ہاں گئے، تو وہ اٹھ کر نماز عصر پڑھنے لگ گئے۔ جب وہ نماز سے فارغ ہوئے تو ہم نے ان سے ان کے نماز عصر جلدی پڑھنے کا ذکر کیا یا خود انہوں نے ذکر کیا تو کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو سنا ہے، فرماتے تھے۔ ”یہ منافقوں کی نماز ہے، یہ منافقوں کی نماز ہے، یہ منافقوں کی نماز ہے کہ ان میں سے ایک بیٹھا رہتا ہے حتیٰ کہ جب سورج زرد ہو جاتا ہے اور شیطان کے دو سینگوں کے درمیان یا ان سینگوں کے اوپر ہوتا ہے، تو اٹھ کر چار ٹھونگیں مارتا ہے اور اللہ کا ذکر اس میں بس برائے نام ہی کرتا ہے۔“
تشریح:
(1) یہ حدیث گویا پہلی حدیث کی شرح ہے کہ اگر کسی سےعذر شرعی کی بنا پر تاخیر ہوئی ہو اور اس نے سورج غروب ہونے سے پہلے پہلے ایک رکعت پالی ہوتو اس نے گویا وقت میں نماز پالی اور یہ اللہ تعالی کی اپنے بندوں کے لیے خاص رحمت ہے۔ اور اگر بغیر عذر کے تاخیر کرے تویہ منافقت کی علامت ہے۔ (2) ’’سورج کا شیطان کے دو سینگوں کے درمیان ہونا،، کےمفہوم میں اختلاف ہے۔ علامہ نووی رکہتے ہیں:’’کہا جاتا ہے کہ یہ حقیقت ہے اور سورج کے طلوع وغروب کے وقت شیطان سورج کے سامنے آجاتا ہے ایسے لگتا ہے گویا سورج اس کے سر کے درمیان سے نکل رہا ہے یا غروب ہو رہا ہے۔ اور سورج کے پجاری بھی ان اوقات میں اس کے سامنے سجدہ ریز ہوتے ہیں تو یہ سمجھنا ہے کہ اسے ہی سجدہ کیا جا رہا ہے۔ اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ’’دو سینگوں،، سے مراد مجازاً شیطان کا بلند ہونا اور شیطانی قوتوں کا غلبہ اور کفار طلوع وغروب کےاوقات میں سورج کو سجدہ کرتے ہیں...........،، انتھی (واللہ أعلم) (3) استثنائی صورتوں کو قائدہ یا کلیہ بنانا چاہیے۔
’’نماز‘‘ مسلمانوں کے ہاں اللہ عزوجل کی عبادت کا ایک مخصوص انداز ہے اس میں قیام رکوع‘سجدہ‘ اور تشہد میں متعین ذکر اور دعائیں پڑھی جاتی ہیں اس کی ابتدا کلمہ ’’اللہ اکبر‘‘ سے اور انتہا ’’السلام علیکم ور حمۃ اللہ‘‘ سے ہوتی ہے تمام امتوں میں اللہ کی عبادت کے جو طور طریقے رائج تھے یا ابھی تک موجود ہیں ان سب میں سے ہم مسلمانوں کی نماز ‘انتہائی عمدہ خوبصورت اور کامل عبادت ہے ۔بندے کی بندگی کا عجزہ اور رب ذوالجلال کی عظمت کا جو اظہار اس طریق عبادت میں ہے ‘کسی اور میں دکھائی نہیں دیتا۔ اسلام میں بھی اس کے مقابلے کی اور کوئی عباد نہیں ہے یہ ایک ایساستون ہے جس پر دین کی پوری عمارت کڑی ہوتی ہے ‘ اگر یہ گر جائے تو پوری عمار گر جاتی ہے سب سے پہلے اسی عباد کا حکم دیا گیا اور شب معراج میں اللہ عزوجل نے اپنے رسول کو بلا واسطہ براہ راست خطاب سے اس کا حکم دیا اور پھر جبرئیل امین نے نبئ کریم ﷺ کو دوبار امامت کرائی اور اس کی تمام تر جزئیات سے آپ کو عملاً آگاہ فرمایا اور آپ نے بھی جس تفصیل سے نماز کے احکام و آداب بیان کیے ہیں کسی اور عبادت کے اس طرح بیان نہیں کیے۔قیامت کے روز بھی سب سے پہلے نماز ہی کا حساب ہو گا جس کی نماز درست اور صحیح نکلی اس کے باقی اعمال بھی صحیح ہو جائیں گے اور اگر یہی خراب نکلی تو باقی اعمال بھی برباد ہو جائیں گے رسول اللہ ﷺ اپنی ساری زندگی نماز کی تعلیم و تا کید فرماتے رہے حتی کہ دنیا سے کوچ کے آخری لمحات میں بھی ’’نماز ‘نماز‘‘ کی وصیت آپ کی زبان مبارک پر تھی آپ نے امت کو متنبہ فرمایا کہ اسلام ایک ایک کڑی کر ک ٹوٹتا اور کھلتا چلا جائے گا ‘ جب ایک کڑی ٹوٹے گی تو لوگ دوسری میں مبتلا ہو جائیں گے اور سب سے آخر میں نماز بھی چھوٹ جائے گی ۔۔(موارد الظمآ ن : 1/401‘حدیث 257 الی زوائد ابن حبان)
قرآن مجید کی سیکڑوں آیات اس کی فرضیت اور اہمیت بیان کرتی ہیں سفر ‘حضر‘صحت‘مرض ‘امن اور خوف ‘ہر حال میں نماز فرض ہے اور اس کے آداب بیان کیے گئے ہیں نماز میں کوتاہی کر نے والو کے متعلق قرآن مجید اور احادیث میں بڑی سخت وعید سنائی گئی ہیں۔
امام ابوداود نے اس کتاب میں نماز کے مسائل بڑی تفصیل سے بیان فرمائے ہیں۔
جناب علاء بن عبدالرحمٰن بیان کرتے ہیں کہ ہم نماز ظہر کے بعد سیدنا انس ؓ کے ہاں گئے، تو وہ اٹھ کر نماز عصر پڑھنے لگ گئے۔ جب وہ نماز سے فارغ ہوئے تو ہم نے ان سے ان کے نماز عصر جلدی پڑھنے کا ذکر کیا یا خود انہوں نے ذکر کیا تو کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو سنا ہے، فرماتے تھے۔ ”یہ منافقوں کی نماز ہے، یہ منافقوں کی نماز ہے، یہ منافقوں کی نماز ہے کہ ان میں سے ایک بیٹھا رہتا ہے حتیٰ کہ جب سورج زرد ہو جاتا ہے اور شیطان کے دو سینگوں کے درمیان یا ان سینگوں کے اوپر ہوتا ہے، تو اٹھ کر چار ٹھونگیں مارتا ہے اور اللہ کا ذکر اس میں بس برائے نام ہی کرتا ہے۔“
حدیث حاشیہ:
(1) یہ حدیث گویا پہلی حدیث کی شرح ہے کہ اگر کسی سےعذر شرعی کی بنا پر تاخیر ہوئی ہو اور اس نے سورج غروب ہونے سے پہلے پہلے ایک رکعت پالی ہوتو اس نے گویا وقت میں نماز پالی اور یہ اللہ تعالی کی اپنے بندوں کے لیے خاص رحمت ہے۔ اور اگر بغیر عذر کے تاخیر کرے تویہ منافقت کی علامت ہے۔ (2) ’’سورج کا شیطان کے دو سینگوں کے درمیان ہونا،، کےمفہوم میں اختلاف ہے۔ علامہ نووی رکہتے ہیں:’’کہا جاتا ہے کہ یہ حقیقت ہے اور سورج کے طلوع وغروب کے وقت شیطان سورج کے سامنے آجاتا ہے ایسے لگتا ہے گویا سورج اس کے سر کے درمیان سے نکل رہا ہے یا غروب ہو رہا ہے۔ اور سورج کے پجاری بھی ان اوقات میں اس کے سامنے سجدہ ریز ہوتے ہیں تو یہ سمجھنا ہے کہ اسے ہی سجدہ کیا جا رہا ہے۔ اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ’’دو سینگوں،، سے مراد مجازاً شیطان کا بلند ہونا اور شیطانی قوتوں کا غلبہ اور کفار طلوع وغروب کےاوقات میں سورج کو سجدہ کرتے ہیں...........،، انتھی (واللہ أعلم) (3) استثنائی صورتوں کو قائدہ یا کلیہ بنانا چاہیے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
علاء بن عبدالرحمٰن کہتے ہیں کہ ہم ظہر کے بعد انس بن مالک ؓ کے پاس آئے تو دیکھا کہ وہ عصر پڑھنے کے لیے کھڑے ہوئے ہیں، جب وہ نماز سے فارغ ہوئے تو ہم نے نماز کے جلدی ہونے کا ذکر کیا یا خود انہوں نے اس کا ذکر کیا تو انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا ہے: ”یہ منافقوں کی نماز ہے، یہ منافقوں کی نماز ہے، یہ منافقوں کی نماز ہے کہ آدمی بیٹھا رہے یہاں تک کہ جب سورج زرد ہو جائے اور وہ شیطان کی دونوں سینگوں کے بیچ ہو جائے یا اس کی دونوں سینگوں پر ہو جائے ۱؎ تو اٹھے اور چار ٹھونگیں لگا لے اور اس میں اللہ کا ذکر صرف تھوڑا سا کرے۔“
حدیث حاشیہ:
یہ حدیث گویا پہلی حدیث ۴۱۲ کی شرح ہے کہ اگر کسی سے عذر شرعی کی بناء پر تاخیر ہوئی ہو اور اس نے سورج غروب ہونے سے پہلے پہلے ایک رکعت پالی ہو تو اس نے گویا وقت میں نماز پالی اور یہ اللہ تعالیٰ کی اپنے بندوں پر خاص رحمت ہے۔ اور اگر بغیر عذر کے تاخیر کرے تو یہ منافقت کی علامت ہے۔ ”سورج کا شیطان کے دو سینگوں کے درمیان ہونا“ کے مفہوم میں اختلاف ہے، علامہ نووی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ”کہا جاتا ہے کہ یہ حقیقت ہے اور سورج کے طلوع و غروب کے وقت شیطان سورج کے سامنے آ جاتا ہے اور ایسے لگتا ہے گویا سورج اس کے سر کے درمیان سے نکل رہا ہے یا غروب ہو رہا ہے اور سورج کے پجاری بھی ان اوقات میں اس کے سامنے سجدہ ریز ہوتے ہیں تو یہ سمجھنا ہے کہ اسے ہی سجدہ کیا جا رہا ہے۔ اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ”دو سینگوں“ سے مراد مجاز شیطان کا بلند ہونا اور شیطانی قوتوں کا غلبہ ہے اور کفار طلوع و غروب کے اوقات مین سورج کو سجدہ کرتے ہیں۔“ استثنائی صورتوں کو قاعدہ یا کلیہ نہیں بنانا چاہیے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
'Ala b. 'Abd al-Rahman (RA) said: We came upon Anas b. Malik (RA) after the Zuhr prayer. He stood for saying the 'Asr prayer. When he became free from praying, we mentioned to him about observing prayer in its early period or he himself mentioned it. He said: I heard the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) say: This is how hypocrites pray, this is how hypocrites pray, this is how hypocrites pray: He sits (watching the sun), and when it becomes yellow and is between the horns of the devil, or is on the horns of the devil, he rises and prays for rak'ahs quickly, remembering Allah only seldom during them.