تشریح:
(1) لفظ (وتر) کاماخذ ’’وتر،، (واؤ کی زبر کے ساتھ) ہوتو معنی ہیں’’نقص،، اوراس کا مابعد منصوب یا مرفوع دونوں طرح پڑھا جا سکتا ہے اور اگر ’’وتر،، (واؤ کی زیر کےساتھ) سمجھا جائے تو ’’جرم اورتعدی،، کے معنی میں بھی آتا ہے۔ (النہایہ ابن اثیر) امام خطابی نےکہا ہے (وتر) کے معنی ہیں، کم کر دیا گیا یا چھین لیا گیا، پس وہ شخص بغیر اہل اور مال کے تنہا رہ گیا، اس لیے ایک مسلمان کو نماز عصر کو فوت کرنے سےاسی طرح بچنا چاہیے جیسے وہ گھر والوں سےاور مال کےفوت ہونے سےڈرتا ہے۔
(2) امام ترمذی نے اس حدیث کو’’باب ماجاء في السھو عن وقت صلاة العصر ،، کے ذیل میں درج فرمایا ہے۔ اس سے ان کی مرا د یہ ہے کہ انسان عصر کی نماز میں بھول کربھی تاخیر کرے تو بےحد وشمار گھاٹے اور خسارے میں ہے، کجا یہ کہ عمدا ً تغافل کا شکار ہو۔