Abu-Daud:
Prayer (Kitab Al-Salat)
(Chapter: The Time For 'Asr Prayer)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
414.
سیدنا ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ”جس کی نماز عصر فوت ہو جائے تو گویا اس سے اس کے گھر والے اور مال چھین لیا گیا۔“ امام ابوداؤد ؓ کہتے ہیں کہ عبیداللہ بن عمر نے حدیث کے لفظ «وتر» کو «أتر» ہمزہ کے ساتھ بیان کیا اور ایوب کے تلامذہ میں (اس لفظ کے بارے میں) اختلاف ہے (یعنی کوئی واؤ سے بیان کرتا ہے اور کوئی ہمزہ سے۔ معنی دونوں کا ایک ہی ہے۔) اور زہری نے «سالم عن أبيه عن النبي صلى الله عليه وسلم» سے «وتر» بیان کیا ہے۔
تشریح:
(1) لفظ (وتر) کاماخذ ’’وتر،، (واؤ کی زبر کے ساتھ) ہوتو معنی ہیں’’نقص،، اوراس کا مابعد منصوب یا مرفوع دونوں طرح پڑھا جا سکتا ہے اور اگر ’’وتر،، (واؤ کی زیر کےساتھ) سمجھا جائے تو ’’جرم اورتعدی،، کے معنی میں بھی آتا ہے۔ (النہایہ ابن اثیر) امام خطابی نےکہا ہے (وتر) کے معنی ہیں، کم کر دیا گیا یا چھین لیا گیا، پس وہ شخص بغیر اہل اور مال کے تنہا رہ گیا، اس لیے ایک مسلمان کو نماز عصر کو فوت کرنے سےاسی طرح بچنا چاہیے جیسے وہ گھر والوں سےاور مال کےفوت ہونے سےڈرتا ہے۔ (2) امام ترمذی نے اس حدیث کو’’باب ماجاء في السھو عن وقت صلاة العصر ،، کے ذیل میں درج فرمایا ہے۔ اس سے ان کی مرا د یہ ہے کہ انسان عصر کی نماز میں بھول کربھی تاخیر کرے تو بےحد وشمار گھاٹے اور خسارے میں ہے، کجا یہ کہ عمدا ً تغافل کا شکار ہو۔
’’نماز‘‘ مسلمانوں کے ہاں اللہ عزوجل کی عبادت کا ایک مخصوص انداز ہے اس میں قیام رکوع‘سجدہ‘ اور تشہد میں متعین ذکر اور دعائیں پڑھی جاتی ہیں اس کی ابتدا کلمہ ’’اللہ اکبر‘‘ سے اور انتہا ’’السلام علیکم ور حمۃ اللہ‘‘ سے ہوتی ہے تمام امتوں میں اللہ کی عبادت کے جو طور طریقے رائج تھے یا ابھی تک موجود ہیں ان سب میں سے ہم مسلمانوں کی نماز ‘انتہائی عمدہ خوبصورت اور کامل عبادت ہے ۔بندے کی بندگی کا عجزہ اور رب ذوالجلال کی عظمت کا جو اظہار اس طریق عبادت میں ہے ‘کسی اور میں دکھائی نہیں دیتا۔ اسلام میں بھی اس کے مقابلے کی اور کوئی عباد نہیں ہے یہ ایک ایساستون ہے جس پر دین کی پوری عمارت کڑی ہوتی ہے ‘ اگر یہ گر جائے تو پوری عمار گر جاتی ہے سب سے پہلے اسی عباد کا حکم دیا گیا اور شب معراج میں اللہ عزوجل نے اپنے رسول کو بلا واسطہ براہ راست خطاب سے اس کا حکم دیا اور پھر جبرئیل امین نے نبئ کریم ﷺ کو دوبار امامت کرائی اور اس کی تمام تر جزئیات سے آپ کو عملاً آگاہ فرمایا اور آپ نے بھی جس تفصیل سے نماز کے احکام و آداب بیان کیے ہیں کسی اور عبادت کے اس طرح بیان نہیں کیے۔قیامت کے روز بھی سب سے پہلے نماز ہی کا حساب ہو گا جس کی نماز درست اور صحیح نکلی اس کے باقی اعمال بھی صحیح ہو جائیں گے اور اگر یہی خراب نکلی تو باقی اعمال بھی برباد ہو جائیں گے رسول اللہ ﷺ اپنی ساری زندگی نماز کی تعلیم و تا کید فرماتے رہے حتی کہ دنیا سے کوچ کے آخری لمحات میں بھی ’’نماز ‘نماز‘‘ کی وصیت آپ کی زبان مبارک پر تھی آپ نے امت کو متنبہ فرمایا کہ اسلام ایک ایک کڑی کر ک ٹوٹتا اور کھلتا چلا جائے گا ‘ جب ایک کڑی ٹوٹے گی تو لوگ دوسری میں مبتلا ہو جائیں گے اور سب سے آخر میں نماز بھی چھوٹ جائے گی ۔۔(موارد الظمآ ن : 1/401‘حدیث 257 الی زوائد ابن حبان)
قرآن مجید کی سیکڑوں آیات اس کی فرضیت اور اہمیت بیان کرتی ہیں سفر ‘حضر‘صحت‘مرض ‘امن اور خوف ‘ہر حال میں نماز فرض ہے اور اس کے آداب بیان کیے گئے ہیں نماز میں کوتاہی کر نے والو کے متعلق قرآن مجید اور احادیث میں بڑی سخت وعید سنائی گئی ہیں۔
امام ابوداود نے اس کتاب میں نماز کے مسائل بڑی تفصیل سے بیان فرمائے ہیں۔
سیدنا ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ”جس کی نماز عصر فوت ہو جائے تو گویا اس سے اس کے گھر والے اور مال چھین لیا گیا۔“ امام ابوداؤد ؓ کہتے ہیں کہ عبیداللہ بن عمر نے حدیث کے لفظ «وتر» کو «أتر» ہمزہ کے ساتھ بیان کیا اور ایوب کے تلامذہ میں (اس لفظ کے بارے میں) اختلاف ہے (یعنی کوئی واؤ سے بیان کرتا ہے اور کوئی ہمزہ سے۔ معنی دونوں کا ایک ہی ہے۔) اور زہری نے «سالم عن أبيه عن النبي صلى الله عليه وسلم» سے «وتر» بیان کیا ہے۔
حدیث حاشیہ:
(1) لفظ (وتر) کاماخذ ’’وتر،، (واؤ کی زبر کے ساتھ) ہوتو معنی ہیں’’نقص،، اوراس کا مابعد منصوب یا مرفوع دونوں طرح پڑھا جا سکتا ہے اور اگر ’’وتر،، (واؤ کی زیر کےساتھ) سمجھا جائے تو ’’جرم اورتعدی،، کے معنی میں بھی آتا ہے۔ (النہایہ ابن اثیر) امام خطابی نےکہا ہے (وتر) کے معنی ہیں، کم کر دیا گیا یا چھین لیا گیا، پس وہ شخص بغیر اہل اور مال کے تنہا رہ گیا، اس لیے ایک مسلمان کو نماز عصر کو فوت کرنے سےاسی طرح بچنا چاہیے جیسے وہ گھر والوں سےاور مال کےفوت ہونے سےڈرتا ہے۔ (2) امام ترمذی نے اس حدیث کو’’باب ماجاء في السھو عن وقت صلاة العصر ،، کے ذیل میں درج فرمایا ہے۔ اس سے ان کی مرا د یہ ہے کہ انسان عصر کی نماز میں بھول کربھی تاخیر کرے تو بےحد وشمار گھاٹے اور خسارے میں ہے، کجا یہ کہ عمدا ً تغافل کا شکار ہو۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ بن عمر ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جس شخص کی عصر چھوٹ گئی گویا اس کے اہل و عیال تباہ ہو گئے اور اس کے مال و اسباب لٹ گئے۔“ ابوداؤد کہتے ہیں: عبیداللہ بن عمر نے «وتر» (واؤ کے ساتھ) کے بجائے «أتر» (ہمزہ کے ساتھ) کہا ہے (دونوں کے معنی ہیں: لوٹ لیے گئے)۔ اس حدیث میں «وتر» اور «أتر» کا اختلاف ایوب کے تلامذہ میں ہوا ہے۔ اور زہری نے سالم سے، سالم نے اپنے والد عبداللہ بن عمر ؓ سے اور عبداللہ بن عمر نے نبی اکرم ﷺ سے روایت کیا ہے کہ آپ نے «وتر» فرمایا ہے۔
حدیث حاشیہ:
امام خطابی نے کہا ہے وُتِرَ کے معنی ہیں کم کر دیا گیا یا چھین لیا گیا، پس وہ شخص بغیر اہل اور مال کے تنہا رہ گیا، اس لیے ایک مسلمان کو نماز عصر کو فوت کرنے سے اسی طرح بچنا چاہیے جیسے وہ گھر والوں سے اور مال کے فوت ہونے سے ڈرتا ہے۔ امام ترمذی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو «باب ماجاء فی السھوعن وقت صلاۃ العصر» کے ذیل میں درج فرمایا ہے۔ اس سے ان کی مراد یہ ہے کہ انسان عصر کی نماز میں بھول کر بھی تاخیر کرے تو بے حدوشمار گھاٹے اور خسارے میں ہے، کجا یہ کہ عمداً تغافل کا شکار ہو۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Ibn 'Umar reported the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) as saying: Anyone who loses his 'Asr prayer is like a person whose family has perished and whose property has been plundered. Abu Dawud said: 'Abd Allah b. 'Umar (RA) narrated the word utira (instead of wutira, meaning perished). The dispute on this point goes back to Ayyub. Al-Zuhri reported from Salim on the authority of this father from the Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم) the word 'wutira'.