Abu-Daud:
Prayer (Kitab Al-Salat)
(Chapter: The Time For Maghrib)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
418.
جناب یزید بن ابی حبیب، مرثد بن عبداللہ سے روایت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ سیدنا ابوایوب ؓ ہمارے ہاں تشریف لائے۔ وہ سفر جہاد میں تھے اور سیدنا عقبہ بن عامر ؓ ان دنوں مصر کے حاکم تھے۔ تو (جناب عقبہ نے) نماز مغرب میں کچھ تاخیر کر دی۔ سیدنا ابوایوب ؓ کھڑے ہوئے اور کہا: اے عقبہ! یہ کیا نماز ہے؟ کہا کہ ہم کام میں تھے۔ کہا: کیا آپ نے نہیں سنا رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ”میری امت اس وقت تک خیر میں رہے گی۔“ یا فرمایا ”فطرت پر رہے گی جب تک کہ مغرب کو مؤخر نہ کرے گی کہ ستارے نکل آئیں۔“
تشریح:
(1) صحابہ کرام کو نماز کے معاملے میں ذرا سی سستی بھی از حد ناگوار گزرتی تھی اور وہ اس سلسلے میں اپنے رؤساء حکام پرتنقید سے بھی باز نہ آتے تھے اور وہ حکام بھی ایسی تعمیری اور شرعی تنقیدات کو خندہ پیشانی سے قبول کرتےتھے۔ (2) نماز کو بروقت ادا کرنا بالخصوص مغرب کی........ امت کے فطرت اور خیر پر ہونے کی علامت ہے اور اس میں تاخیر اس کے برعکس کی۔ (3) اگر کوئی عذر ہوتو مغرب کاوقت غروب شفق (سرخی) سے پہلے تک باقی رہتا ہے۔
’’نماز‘‘ مسلمانوں کے ہاں اللہ عزوجل کی عبادت کا ایک مخصوص انداز ہے اس میں قیام رکوع‘سجدہ‘ اور تشہد میں متعین ذکر اور دعائیں پڑھی جاتی ہیں اس کی ابتدا کلمہ ’’اللہ اکبر‘‘ سے اور انتہا ’’السلام علیکم ور حمۃ اللہ‘‘ سے ہوتی ہے تمام امتوں میں اللہ کی عبادت کے جو طور طریقے رائج تھے یا ابھی تک موجود ہیں ان سب میں سے ہم مسلمانوں کی نماز ‘انتہائی عمدہ خوبصورت اور کامل عبادت ہے ۔بندے کی بندگی کا عجزہ اور رب ذوالجلال کی عظمت کا جو اظہار اس طریق عبادت میں ہے ‘کسی اور میں دکھائی نہیں دیتا۔ اسلام میں بھی اس کے مقابلے کی اور کوئی عباد نہیں ہے یہ ایک ایساستون ہے جس پر دین کی پوری عمارت کڑی ہوتی ہے ‘ اگر یہ گر جائے تو پوری عمار گر جاتی ہے سب سے پہلے اسی عباد کا حکم دیا گیا اور شب معراج میں اللہ عزوجل نے اپنے رسول کو بلا واسطہ براہ راست خطاب سے اس کا حکم دیا اور پھر جبرئیل امین نے نبئ کریم ﷺ کو دوبار امامت کرائی اور اس کی تمام تر جزئیات سے آپ کو عملاً آگاہ فرمایا اور آپ نے بھی جس تفصیل سے نماز کے احکام و آداب بیان کیے ہیں کسی اور عبادت کے اس طرح بیان نہیں کیے۔قیامت کے روز بھی سب سے پہلے نماز ہی کا حساب ہو گا جس کی نماز درست اور صحیح نکلی اس کے باقی اعمال بھی صحیح ہو جائیں گے اور اگر یہی خراب نکلی تو باقی اعمال بھی برباد ہو جائیں گے رسول اللہ ﷺ اپنی ساری زندگی نماز کی تعلیم و تا کید فرماتے رہے حتی کہ دنیا سے کوچ کے آخری لمحات میں بھی ’’نماز ‘نماز‘‘ کی وصیت آپ کی زبان مبارک پر تھی آپ نے امت کو متنبہ فرمایا کہ اسلام ایک ایک کڑی کر ک ٹوٹتا اور کھلتا چلا جائے گا ‘ جب ایک کڑی ٹوٹے گی تو لوگ دوسری میں مبتلا ہو جائیں گے اور سب سے آخر میں نماز بھی چھوٹ جائے گی ۔۔(موارد الظمآ ن : 1/401‘حدیث 257 الی زوائد ابن حبان)
قرآن مجید کی سیکڑوں آیات اس کی فرضیت اور اہمیت بیان کرتی ہیں سفر ‘حضر‘صحت‘مرض ‘امن اور خوف ‘ہر حال میں نماز فرض ہے اور اس کے آداب بیان کیے گئے ہیں نماز میں کوتاہی کر نے والو کے متعلق قرآن مجید اور احادیث میں بڑی سخت وعید سنائی گئی ہیں۔
امام ابوداود نے اس کتاب میں نماز کے مسائل بڑی تفصیل سے بیان فرمائے ہیں۔
جناب یزید بن ابی حبیب، مرثد بن عبداللہ سے روایت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ سیدنا ابوایوب ؓ ہمارے ہاں تشریف لائے۔ وہ سفر جہاد میں تھے اور سیدنا عقبہ بن عامر ؓ ان دنوں مصر کے حاکم تھے۔ تو (جناب عقبہ نے) نماز مغرب میں کچھ تاخیر کر دی۔ سیدنا ابوایوب ؓ کھڑے ہوئے اور کہا: اے عقبہ! یہ کیا نماز ہے؟ کہا کہ ہم کام میں تھے۔ کہا: کیا آپ نے نہیں سنا رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ”میری امت اس وقت تک خیر میں رہے گی۔“ یا فرمایا ”فطرت پر رہے گی جب تک کہ مغرب کو مؤخر نہ کرے گی کہ ستارے نکل آئیں۔“
حدیث حاشیہ:
(1) صحابہ کرام کو نماز کے معاملے میں ذرا سی سستی بھی از حد ناگوار گزرتی تھی اور وہ اس سلسلے میں اپنے رؤساء حکام پرتنقید سے بھی باز نہ آتے تھے اور وہ حکام بھی ایسی تعمیری اور شرعی تنقیدات کو خندہ پیشانی سے قبول کرتےتھے۔ (2) نماز کو بروقت ادا کرنا بالخصوص مغرب کی........ امت کے فطرت اور خیر پر ہونے کی علامت ہے اور اس میں تاخیر اس کے برعکس کی۔ (3) اگر کوئی عذر ہوتو مغرب کاوقت غروب شفق (سرخی) سے پہلے تک باقی رہتا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
مرثد بن عبداللہ کہتے ہیں کہ جب ابوایوب ؓ ہمارے پاس جہاد کے ارادے سے آئے، ان دنوں عقبہ بن عامر ؓ مصر کے حاکم تھے، تو عقبہ نے مغرب میں دیر کی، ابوایوب نے کھڑے ہو کر ان سے کہا: عقبہ! بھلا یہ کیا نماز ہے؟ عقبہ نے کہا: ہم مشغول رہے، انہوں نے کہا: کیا آپ نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے نہیں سنا کہ: ”میری امت ہمیشہ بھلائی یا فطرت پر رہے گی جب تک وہ مغرب میں اتنی تاخیر نہ کرے گی کہ ستارے چمکنے لگ جائیں۔“
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Ayyub (RA): Marthad ibn Abdullah said: When AbuAyyub came upon us to fight the infidels and in those days Uqbah ibn Amir was the Governor of Egypt, he (Uqbah) delayed the sunset prayer. Hence AbuAyyub stood and said: What kind of prayer is this, Uqbah? He said: We were busy. He said: Did you not hear the Apostle of Allah (ﷺ) say: My community will remain well, or he said: will remain on its natural condition, so long as it would not delay the evening prayer until the stars shine brightly just like a network.