مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
42.
ام المؤمنین سیدہ عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں کہ ( ایک بار ) رسول اللہ ﷺ نے پیشاب کیا تو سیدنا عمر ؓ پانی کا لوٹا لیے آپ ﷺ کے پیچھے کھڑے ہو گئے ۔ ( بعد از فراغت ) آپ ﷺ نے پوچھا عمر ! یہ کیا ہے ؟ انہوں نے کہا : یہ پانی ہے کہ آپ اس سے وضو فر لیں ۔ آپ ﷺ نے فرمایا ” مجھے یہ حکم نہیں ہے کہ جب بھی پیشاب کروں ( تو ساتھ ) وضو بھی کروں ۔ اگر میں نے ایسے کیا تو ( امت کے لیے ) سنت بن جائے گی ۔ “
تشریح:
فائدہ: یہ روایت سنداً ضعیف ہے ۔ تاہم ہروقت باوضو رہنا ایک اچھا عمل ہے ۔ لیکن واجب نہیں ہے۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده حسن (هذا الحديث أشار الشيخ رحمه الله إلي نقله هنا من الصحيح قائلاً: ينقل إلى الضعيف للمخالفة. انظر المشكاة (368) ) ، وقواه الدارقطني) . إسناده: أخرجه من ثلاث طرق عن عبد الله بن يحيى التوأم أبي يعقوب عن عبد الله بن أبي مليكة عن أمه عن عائشة. وهذا إسناد حسن؛ عبد الله بن يحيى؛ قال الذهبي في الميزان : صويلح، ضعفه ابن معين، ومشاه غيره، وعن النسائي قولان . وعبد الله بن أبي مليكة ثقة من رجال الشيخين، وأمه اسمها ميمونة بنت الوليد؛ قال الحافظ: ذكرها ابن حبان في (الثقات من التابعين) ، وأورد لها هذا الحديث . وقال في التقريب أنها: ثقة .
قلت: وأشار الدارقطني إلى توثيقها كما يأتي، وزعم المنذري (رقم 38) أنها مجهولة. والحديث أخرجه ابن ماجه، والدارقطني (23) ، والبيهقي، وأحمد (6/95) من الوجه المذكور. وقال الدارقطني: لا بأس به. تفرد به أبو يعقوب التوأم، حدث به عنه جماعة من الرفعاء . وله شاهد من حديث ابن عباس نحوه. انظره في صحيح النسائي (...) .
گندگی و نجاست سے صفائی ستھرائی جو شرعی اصولوں کے مطابق ہو‘ اسے شرعی اصطلاح میں ’’طہارت ‘‘ کہتے ہیں نجاست خواہ حقیقی ہو ، جیسے کہ پیشاب اور پاخانہ ، اسے (خَبَثَ ) کہتے ہیں یا حکمی اور معنوی ہو ،جیسے کہ دبر سے ریح (ہوا) کا خارج ہونا، اسے (حَدَث) کہتے ہیں دین اسلام ایک پاکیزہ دین ہے اور اسلام نے اپنے ماننے والوں کو بھی طہارت اور پاکیزگی اختیار کرنے کو کہا ہے اور اس کی فضیلت و اہمیت اور وعدووعید کا خوب تذکرہ کیا ہے ۔ رسول اللہ ﷺنے طہارت کی فضیلت کے بابت فرمایا:( الطُّهُورُ شَطْرُ الْإِيمَانِ)(صحیح مسلم ‘الطہارۃ‘ حدیث:223)’’طہارت نصف ایمان ہے ‘‘ ایک اور حدیث میں طہارت کی فضیلت کے متعلق ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : .’’وضو کرنے سے ہاتھ ‘منہ اور پاؤں کے تمام (صغیرہ) گناہ معاف ہو جاتے ہیں ۔‘‘ (سنن النسائی ‘ الطہارۃ‘ حدیث: 103) طہارت اور پاکیزگی کے متعلق سرور کائنات ﷺ کا ارشاد ہے (لاَ تُقْبَلُ صَلاَةٌ بِغَيْرِ طُهُوْرٍ)(صحيح مسلم ‘الطہارۃ‘ حدیث:224) ’’ اللہ تعالیٰ طہارت کے بغیر کوئی نماز قبول نہیں فرماتا ۔‘‘اور اسی کی بابت حضرت ابوسعید خدری فرماتے ہیں ‘نبی کریم نے فرمایا (مِفْتِاحُ الصَّلاَةِ الطُّهُوْرٍ)(سنن اابن ماجہ ‘الطہارۃ‘حدیث 275۔276 ) ’’طہارت نماز کی کنجی ہے ۔‘‘ طہارت سے غفلت برتنے کی بابت نبی ﷺ سے مروی ہے :’’قبر میں زیادہ تر عذاب پیشاب کے بعد طہارت سے غفلت برتنے پر ہوتا ہے ۔‘‘ صحیح االترغیب والترھیب‘حدیث:152)
ان مذکورہ احادیث کی روشنی میں میں ایک مسلمان کے لیے واجب ہے کہ اپنے بدن ‘کپڑے اور مکان کو نجاست سے پاک رکھے ۔اللہ عزوجل نے اپنے نبی کو سب سے پہلے اسی بات کا حکم دیا تھا(وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ)المدثر:4‘5) ’’اپنے لباس کو پاکیزہ رکھیے اور گندگی سے دور رہیے۔‘‘ مکان اور بالخصوص مقام عبادت کے سلسلہ میں سیدنا ابراہیم اور اسماعیل کو حکم دیا گیا:(أَنْ طَهِّرَا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْعَاكِفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ)(البقرۃ:125)’’میرے گھر کو طواف کرنے والوں ‘اعتکاف کرنے والوں اور رکوع و سجدہ کرنے والوں کے لیے پاک صاف رکھیں۔‘‘ اللہ عزوجل اپنے طاہر اور پاکیزہ بندوں ہی سے محبت کرتا ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے (إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ)( البقرۃ:222)’’بلاشبہ اللہ توبہ کرنے والوں اور پاک رہنے والوں سے محبت کرتا ہے ۔‘‘ نیز اہل قباء کی مدح میں فرمایا:(فِيهِ رِجَالٌ يُحِبُّونَ أَنْ يَتَطَهَّرُوا وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُطَّهِّرِينَ)(التوبۃ:108)’’اس میں ایسے آدمی ہیں جو خوب پاک ہوتے کو پسند کرتے ہیں اور اللہ عزوجل پاک صاف رہنے والوں سے محبت فرماتا ہے۔‘‘
ام المؤمنین سیدہ عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں کہ ( ایک بار ) رسول اللہ ﷺ نے پیشاب کیا تو سیدنا عمر ؓ پانی کا لوٹا لیے آپ ﷺ کے پیچھے کھڑے ہو گئے ۔ ( بعد از فراغت ) آپ ﷺ نے پوچھا عمر ! یہ کیا ہے ؟ انہوں نے کہا : یہ پانی ہے کہ آپ اس سے وضو فر لیں ۔ آپ ﷺ نے فرمایا ” مجھے یہ حکم نہیں ہے کہ جب بھی پیشاب کروں ( تو ساتھ ) وضو بھی کروں ۔ اگر میں نے ایسے کیا تو ( امت کے لیے ) سنت بن جائے گی ۔ “
حدیث حاشیہ:
فائدہ: یہ روایت سنداً ضعیف ہے ۔ تاہم ہروقت باوضو رہنا ایک اچھا عمل ہے ۔ لیکن واجب نہیں ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ام المؤمنین عائشہ ؓ کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے پیشاب کیا ، عمر ؓ پانی کا ایک کوزہ ( کلھڑ ) لے کر آپ کے پیچھے کھڑے ہو گئے ، آپ ﷺ نے پوچھا : ” عمر ! یہ کیا چیز ہے ؟ “ ، عمر ؓ نے جواب دیا : آپ کے وضو کا پانی ، آپ ﷺ نے فرمایا : ” مجھے ایسا حکم نہیں ہوا کہ جب بھی میں پیشاب کروں تو وضو کروں ، اگر میں ایسا کروں تو یہ سنت ( واجبہ ) بن جائے گی “ ۔
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Aishah, Ummul Mu'minin (RA):
The Prophet (ﷺ) urinated and Umar was standing behind him with a jug of water. He said: What is this, Umar? He replied: Water for you to perform ablution with. He said: I have not been commanded to perform ablution every time I urinate. If I were to do so, it would become a sunnah.