Abu-Daud:
Prayer (Kitab Al-Salat)
(Chapter: The Time For the Subh (Fajr The Morning Prayer))
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
424.
جناب محمود بن لبید، سیدنا رافع بن خدیج ؓ سے راوی ہیں، وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ”صبح طلوع ہونے پر (ہی) صبح کی نماز پڑھا کرو۔ بلاشبہ یہ تمہارے لیے بہت زیادہ ثواب کا باعث ہے۔“
تشریح:
کچھ لوگ اس حدیث کا ترجمہ یوں کرتے ہیں کہ’’سفیدی اورروشنی ہونے پر فجر کی نماز پڑھا کرو۔،، مگر یہ صحیح نہیں ہے، کیونکہ رسول اللہ ﷺ اور آپ کے بعد خیرالقرون میں صحابہ کرام کا معمول ثابت ہے کہ وہ سب فجر کی نماز (غلس) یعنی صبح کے اندھیرے ہی میں پڑھتے تھے۔ حضرت عمر، حضرت علی، اور حضرت معاویہ پر صبح کے اندھیرے ہی میں قاتلانہ حملے ہوئے تھے۔ نیز لغوی طور پر (أصبح الرجل) کا معنی ہے (دخل الصبح) ’’یعنی صبح کے وقت میں داخل ہوا،،۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس ارشاد کا پس منظر یہ ہے کہ شاید کچھ لوگ بہت زیادہ جلدی کرتے ہوئے قبل از وقت نماز پڑھ لیتے تھے تواس حکم سے ان کی اصلاح فرمائی گئی۔ اور اس مفہوم کی دوسری روایت (اسفروا بالصبح) بالمعنی روایت ہوئی ہے۔ اور ایک توجیہ یہ بھی ہےکہ یہ ارشاد چاندنی راتوں سے متعلق ہے کیونکہ ان راتوں میں صبح صادق کے نمایاں ہونے میں قدرے اشتباہ سا ہوتا ہے۔ اور علامہ طحاوی نے یہ کہا ہے کہ اس سے مراد ہے’’فجر کی نماز میں قراءت اتنی طویل کرو کہ فضا سفید ہوجائے۔،، بہرحال افضل یہی ہے کہ فجر صادق کے بعد جلد ہی اسے ادا کیا جائے۔ اوراس کے بعد اس کا وقت طلوع آفتاب سے پہلے تک رہتا ہے۔ (عون المعبود۔ خطابی)
’’نماز‘‘ مسلمانوں کے ہاں اللہ عزوجل کی عبادت کا ایک مخصوص انداز ہے اس میں قیام رکوع‘سجدہ‘ اور تشہد میں متعین ذکر اور دعائیں پڑھی جاتی ہیں اس کی ابتدا کلمہ ’’اللہ اکبر‘‘ سے اور انتہا ’’السلام علیکم ور حمۃ اللہ‘‘ سے ہوتی ہے تمام امتوں میں اللہ کی عبادت کے جو طور طریقے رائج تھے یا ابھی تک موجود ہیں ان سب میں سے ہم مسلمانوں کی نماز ‘انتہائی عمدہ خوبصورت اور کامل عبادت ہے ۔بندے کی بندگی کا عجزہ اور رب ذوالجلال کی عظمت کا جو اظہار اس طریق عبادت میں ہے ‘کسی اور میں دکھائی نہیں دیتا۔ اسلام میں بھی اس کے مقابلے کی اور کوئی عباد نہیں ہے یہ ایک ایساستون ہے جس پر دین کی پوری عمارت کڑی ہوتی ہے ‘ اگر یہ گر جائے تو پوری عمار گر جاتی ہے سب سے پہلے اسی عباد کا حکم دیا گیا اور شب معراج میں اللہ عزوجل نے اپنے رسول کو بلا واسطہ براہ راست خطاب سے اس کا حکم دیا اور پھر جبرئیل امین نے نبئ کریم ﷺ کو دوبار امامت کرائی اور اس کی تمام تر جزئیات سے آپ کو عملاً آگاہ فرمایا اور آپ نے بھی جس تفصیل سے نماز کے احکام و آداب بیان کیے ہیں کسی اور عبادت کے اس طرح بیان نہیں کیے۔قیامت کے روز بھی سب سے پہلے نماز ہی کا حساب ہو گا جس کی نماز درست اور صحیح نکلی اس کے باقی اعمال بھی صحیح ہو جائیں گے اور اگر یہی خراب نکلی تو باقی اعمال بھی برباد ہو جائیں گے رسول اللہ ﷺ اپنی ساری زندگی نماز کی تعلیم و تا کید فرماتے رہے حتی کہ دنیا سے کوچ کے آخری لمحات میں بھی ’’نماز ‘نماز‘‘ کی وصیت آپ کی زبان مبارک پر تھی آپ نے امت کو متنبہ فرمایا کہ اسلام ایک ایک کڑی کر ک ٹوٹتا اور کھلتا چلا جائے گا ‘ جب ایک کڑی ٹوٹے گی تو لوگ دوسری میں مبتلا ہو جائیں گے اور سب سے آخر میں نماز بھی چھوٹ جائے گی ۔۔(موارد الظمآ ن : 1/401‘حدیث 257 الی زوائد ابن حبان)
قرآن مجید کی سیکڑوں آیات اس کی فرضیت اور اہمیت بیان کرتی ہیں سفر ‘حضر‘صحت‘مرض ‘امن اور خوف ‘ہر حال میں نماز فرض ہے اور اس کے آداب بیان کیے گئے ہیں نماز میں کوتاہی کر نے والو کے متعلق قرآن مجید اور احادیث میں بڑی سخت وعید سنائی گئی ہیں۔
امام ابوداود نے اس کتاب میں نماز کے مسائل بڑی تفصیل سے بیان فرمائے ہیں۔
جناب محمود بن لبید، سیدنا رافع بن خدیج ؓ سے راوی ہیں، وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ”صبح طلوع ہونے پر (ہی) صبح کی نماز پڑھا کرو۔ بلاشبہ یہ تمہارے لیے بہت زیادہ ثواب کا باعث ہے۔“
حدیث حاشیہ:
کچھ لوگ اس حدیث کا ترجمہ یوں کرتے ہیں کہ’’سفیدی اورروشنی ہونے پر فجر کی نماز پڑھا کرو۔،، مگر یہ صحیح نہیں ہے، کیونکہ رسول اللہ ﷺ اور آپ کے بعد خیرالقرون میں صحابہ کرام کا معمول ثابت ہے کہ وہ سب فجر کی نماز (غلس) یعنی صبح کے اندھیرے ہی میں پڑھتے تھے۔ حضرت عمر، حضرت علی، اور حضرت معاویہ پر صبح کے اندھیرے ہی میں قاتلانہ حملے ہوئے تھے۔ نیز لغوی طور پر (أصبح الرجل) کا معنی ہے (دخل الصبح) ’’یعنی صبح کے وقت میں داخل ہوا،،۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس ارشاد کا پس منظر یہ ہے کہ شاید کچھ لوگ بہت زیادہ جلدی کرتے ہوئے قبل از وقت نماز پڑھ لیتے تھے تواس حکم سے ان کی اصلاح فرمائی گئی۔ اور اس مفہوم کی دوسری روایت (اسفروا بالصبح) بالمعنی روایت ہوئی ہے۔ اور ایک توجیہ یہ بھی ہےکہ یہ ارشاد چاندنی راتوں سے متعلق ہے کیونکہ ان راتوں میں صبح صادق کے نمایاں ہونے میں قدرے اشتباہ سا ہوتا ہے۔ اور علامہ طحاوی نے یہ کہا ہے کہ اس سے مراد ہے’’فجر کی نماز میں قراءت اتنی طویل کرو کہ فضا سفید ہوجائے۔،، بہرحال افضل یہی ہے کہ فجر صادق کے بعد جلد ہی اسے ادا کیا جائے۔ اوراس کے بعد اس کا وقت طلوع آفتاب سے پہلے تک رہتا ہے۔ (عون المعبود۔ خطابی)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
رافع بن خدیج ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”صبح طلوع ہونے پر (ہی) صبح کی نماز پڑھا کرو۔ بلاشبہ یہ تمہارے لیے بہت زیادہ ثواب کا باعث ہے“ ۱؎۔
حدیث حاشیہ:
۱؎: یعنی فجر طلوع صبح کے وقت پڑھو کیونکہ «أصبح الرجل» اس وقت کہا جاتا ہے جب آدمی صبح کرے اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ جن لوگوں نے «أسفروا بالفجر» کی روایت کی ہے، وہ روایت بالمعنی ہے اور یہ غلس میں پڑھنے کی فضیلت کی دلیل ہے نہ کہ اسفار کی۔ کچھ لوگ اس حدیث کا ترجمہ یوں کرتے ہیں کہ ”سفیدی اور روشنی ہونے پر فجر کی نماز پڑھا کرو۔“ مگر یہ صحیح نہیں ہے، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے بعد خیرالقرون میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا معمول ثابت ہے کہ وہ سب فجر کی نماز «غلس» یعنی صبح کے اندھیرے ہی میں پڑھتے تھے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس ارشاد کا پس منظر یہ ہے کہ شاید کچھ لوگ بہت زیادہ جلدی کرتے ہوئے قبل از وقت نماز پڑھ لیتے تھے تو اس حکم سے ان کی اصلاح فرمائی گئی۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Rafi' b. Khadij (RA) reported the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) as saying: Offer Fajr prayer at dawn, for it is most productive of rewards to you or most productive of reward.