Abu-Daud:
Trials and Fierce Battles (Kitab Al-Fitan Wa Al-Malahim)
(Chapter: Mention Of Tribulations And Their Signs)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
4245.
خالد بن خالد یشکری نے یہ حدیث روایت کی، اس میں ہے کہ سیدنا حذیفہ ؓ نے کہا کہ تلوار کے بعد (کیا ہو گا؟) آپ ﷺ نے فرمایا: ”کچھ لوگ باقی بچیں گے جن کے دلوں میں فساد ہو گا۔ بظاہر صلح کریں گے مگر باطن میں دھوکا ہوگا۔“ پھر حدیث بیان کی۔ کہا کہ جناب قتادہ ؓ اس حدیث کو ابوبکر صدیق ؓ کے عہد خلافت میں پیش آنے والے فتنہ ارتداد پر محمول کیا کرتے تھے۔ «قذاء، قذي» کی جمع ہے۔ اس تنکے کو کہتے ہیں جو آنکھ میں پڑ جاتا ہے۔ «هدنة» کا معنی صلح اور «دخن» کا معنی ہے سینے کا بغض جلن اور کڑھن۔
تشریح:
ان علامت کو کسی ایک فتنے سے مخصوص کرنا مشکل ہے۔ ہر فتنے میں موقع بموقع اس قسم کے حالات پیش آتے رہتے ہیں۔۔۔۔۔ اور آئیندہ بھی آئیں گے۔ فتنہ ارتداد شہادتِ عثمان، سبائی فتنہ، فتنہ خلقِ قرآن اور تاتاریوں کا حملہ وغیرہ۔۔۔۔۔۔ سبھی اس میں آتے ہیں۔
فِتَنُ فِتْنَةٌ کی جمع ہے جس کے لغوی معنی ہیں: آزمائش، امتحان اور اختبار۔ ملاحم : ملحمة کی جمع ہے جس کے لغوی معنی ہیں جنگ و جدل اور خون ریزی۔ بعد میں کثرتِ استعمال کی وجہ سے فتن سے مراد ہر مکروہ چیز اور مصیبت لیا جانے لگا جیسے شرک، کفر،قتل و غارت گری' وغیرہ۔ جبکہ ان سے مراد وہ خصوصی حالات ہیں جو قیامت سے پہلے پیش آئیں گے۔
رسول اکرمﷺ نے ان پیش آنے والے حالات کا خصوصی تذکرہ فرمایا ہے تاکہ آپکی امت ان حالات میں اپنا بچاؤ کر سکے' نہ صرف اپنا بچاؤ بلکہ دوسروں کی رہنمائی کا فریضہ بھی انجام دے سکے۔ یہ فتنے نہایت برق رفتاری سے پیش آئیں گے' ایسے ایسے حیران کن فتنے ہونگے کہ ان سے محفوظ رہنا بہت مشکل ہو گا۔ ایک شخص صبح کو مومن ہوگا تو رات کو ان فتنوں کی سحر انگیزی کا شکار ہوکر کافرہو چکا ہوگا۔رات کو مومن تھا تو صبح تک ایمان کی دولت سے محروم ہو جائے گا' اس لیئے سردارِ دو جہاں ﷺ نے ان فتنوں کا ذکر کیا اور ان سے بچاؤ کی تدابیر بیان فرمائیں۔ قیامت سے قبل رونما ہونے والے فتنوں میں سے چند ایک درجِ ذیل ہیں:
1) حضرت عثمان ِ غنی کا با غیوں کے ہاتھوں مظلومانہ شہید ہونا۔
2) مسلمانوں کی باہمی جنگیں جیسا کہ جنگِ جمل اور صفین میں ہزاروں مسلمان شہید ہوئے۔
3) باطل فرقوں کا ظہور جس سے اسلامی شان و شوکت اور رعب و دبدبہ کو یقینی نقصان ہوا۔ جیسے خوارج، معتزلہ، روافض، قادیانی وغیرہ۔
4) دجال کا فتنہ عظیم جو بےشمار مخلوق کی گمراہی کا سبب بنے گا۔
5) یاجوج و ماجوج کا ظہور جو کرہِ ارض پربے حد تباہی کا باعث بنیں گے۔
6) دریائے کا اپنے خزانے اُگلنا
7) علمائے کرام کی وفات سے علم کا اُٹھ جانا
8) عورتوں کی کثرت اور مردوں کی قلت
9) جھوٹے نبیوں کا ظہور
خالد بن خالد یشکری نے یہ حدیث روایت کی، اس میں ہے کہ سیدنا حذیفہ ؓ نے کہا کہ تلوار کے بعد (کیا ہو گا؟) آپ ﷺ نے فرمایا: ”کچھ لوگ باقی بچیں گے جن کے دلوں میں فساد ہو گا۔ بظاہر صلح کریں گے مگر باطن میں دھوکا ہوگا۔“ پھر حدیث بیان کی۔ کہا کہ جناب قتادہ ؓ اس حدیث کو ابوبکر صدیق ؓ کے عہد خلافت میں پیش آنے والے فتنہ ارتداد پر محمول کیا کرتے تھے۔ «قذاء، قذي» کی جمع ہے۔ اس تنکے کو کہتے ہیں جو آنکھ میں پڑ جاتا ہے۔ «هدنة» کا معنی صلح اور «دخن» کا معنی ہے سینے کا بغض جلن اور کڑھن۔
حدیث حاشیہ:
ان علامت کو کسی ایک فتنے سے مخصوص کرنا مشکل ہے۔ ہر فتنے میں موقع بموقع اس قسم کے حالات پیش آتے رہتے ہیں۔۔۔۔۔ اور آئیندہ بھی آئیں گے۔ فتنہ ارتداد شہادتِ عثمان، سبائی فتنہ، فتنہ خلقِ قرآن اور تاتاریوں کا حملہ وغیرہ۔۔۔۔۔۔ سبھی اس میں آتے ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
خالد بن خالد یشکری سے یہی حدیث مروی ہے اس میں یہ ہے کہ حذیفہ ؓ نے کہا: میں نے عرض کیا: پھر تلوار کے بعد کیا ہو گا؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”باقی لوگ رہیں گے مگر دلوں میں ان کے فساد ہوگا، اور ظاہر میں صلح ہو گی۔“ پھر آگے انہوں نے پوری حدیث ذکر کی۔ راوی کہتے ہیں: قتادہ اسے (تلوار کو) اس فتنہ ارتداد پر محمول کرتے تھے جو ابوبکر ؓ کے زمانہ میں ہوا، اور «اقذاء» کی تفسیر «قذي» سے یعنی غبار اور گندگی سے جو آنکھ یا پینے کی چیز میں پڑ جاتی ہے، اور «ھدنة» کی تفسیر صلح سے «دخن» کی تفسیر دلوں کے فساد اور کینوں سے کرتے تھے۔
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Hudhayfah ibn al-Yaman (RA): I swear by Allah, I do not know whether my companions have forgotten or have pretended to forgot. I swear by Allah that the Apostle of Allah (ﷺ) did not omit a leader of a wrong belief (fitnah)--up to the end of the world--whose followers reach the number of three hundred and upwards but he mentioned to us his name, his father's name and the name of his tribe.