Abu-Daud:
Prayer (Kitab Al-Salat)
(Chapter: Preserving The Prayer Times)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
428.
جناب عبداللہ بن فضالہ اپنے والد سے راوی ہیں وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے سکھایا اور جو سکھایا ان میں یہ بات بھی تھی ”پانچ نمازوں کی پابندی کرنا۔“ میں نے عرض کیا کہ مجھے ان اوقات میں کام ہوتے ہیں تو آپ مجھے کوئی جامع بات ارشاد فرمائیں جس پر عمل میرے لیے کافی رہے، آپ ﷺ نے فرمایا: ”«عصرين» کی پابندی کرنا۔“ اور یہ لفظ ہماری زبان میں مستعمل نہ تھا۔ میں نے کہا کہ «عصرين» سے کیا مراد ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا ”سورج کے طلوع اور غروب ہونے سے پہلے کی نمازیں۔“
تشریح:
کام والے کو صبح اورعصر کی نمازوں کی پابندی کافی ہو، کس طرح صحیح ہوسکتا ہے؟ شیخ ولی الدین عراقی نے لکھا ہے کہ اس اشکال کا جواب یہ ہے کہ دراصل نبی ﷺ کا فرمان: ’’نمازوں کے اول اوقات سے متعلق تھا۔،، تو اس نے معذرت کی کہ میں پانچوں نمازیں اوّل وقت میں نہیں پڑھ سکتا۔ تب آپ نے ان دو نمازوں کے اوقات کی بالخصوص تاکید فرمائی۔ (واللہ أعلم بالصواب) امام ابو داؤد کا اس حدیث کو باب میں بیان کرنا اس کا مؤید ہے۔
’’نماز‘‘ مسلمانوں کے ہاں اللہ عزوجل کی عبادت کا ایک مخصوص انداز ہے اس میں قیام رکوع‘سجدہ‘ اور تشہد میں متعین ذکر اور دعائیں پڑھی جاتی ہیں اس کی ابتدا کلمہ ’’اللہ اکبر‘‘ سے اور انتہا ’’السلام علیکم ور حمۃ اللہ‘‘ سے ہوتی ہے تمام امتوں میں اللہ کی عبادت کے جو طور طریقے رائج تھے یا ابھی تک موجود ہیں ان سب میں سے ہم مسلمانوں کی نماز ‘انتہائی عمدہ خوبصورت اور کامل عبادت ہے ۔بندے کی بندگی کا عجزہ اور رب ذوالجلال کی عظمت کا جو اظہار اس طریق عبادت میں ہے ‘کسی اور میں دکھائی نہیں دیتا۔ اسلام میں بھی اس کے مقابلے کی اور کوئی عباد نہیں ہے یہ ایک ایساستون ہے جس پر دین کی پوری عمارت کڑی ہوتی ہے ‘ اگر یہ گر جائے تو پوری عمار گر جاتی ہے سب سے پہلے اسی عباد کا حکم دیا گیا اور شب معراج میں اللہ عزوجل نے اپنے رسول کو بلا واسطہ براہ راست خطاب سے اس کا حکم دیا اور پھر جبرئیل امین نے نبئ کریم ﷺ کو دوبار امامت کرائی اور اس کی تمام تر جزئیات سے آپ کو عملاً آگاہ فرمایا اور آپ نے بھی جس تفصیل سے نماز کے احکام و آداب بیان کیے ہیں کسی اور عبادت کے اس طرح بیان نہیں کیے۔قیامت کے روز بھی سب سے پہلے نماز ہی کا حساب ہو گا جس کی نماز درست اور صحیح نکلی اس کے باقی اعمال بھی صحیح ہو جائیں گے اور اگر یہی خراب نکلی تو باقی اعمال بھی برباد ہو جائیں گے رسول اللہ ﷺ اپنی ساری زندگی نماز کی تعلیم و تا کید فرماتے رہے حتی کہ دنیا سے کوچ کے آخری لمحات میں بھی ’’نماز ‘نماز‘‘ کی وصیت آپ کی زبان مبارک پر تھی آپ نے امت کو متنبہ فرمایا کہ اسلام ایک ایک کڑی کر ک ٹوٹتا اور کھلتا چلا جائے گا ‘ جب ایک کڑی ٹوٹے گی تو لوگ دوسری میں مبتلا ہو جائیں گے اور سب سے آخر میں نماز بھی چھوٹ جائے گی ۔۔(موارد الظمآ ن : 1/401‘حدیث 257 الی زوائد ابن حبان)
قرآن مجید کی سیکڑوں آیات اس کی فرضیت اور اہمیت بیان کرتی ہیں سفر ‘حضر‘صحت‘مرض ‘امن اور خوف ‘ہر حال میں نماز فرض ہے اور اس کے آداب بیان کیے گئے ہیں نماز میں کوتاہی کر نے والو کے متعلق قرآن مجید اور احادیث میں بڑی سخت وعید سنائی گئی ہیں۔
امام ابوداود نے اس کتاب میں نماز کے مسائل بڑی تفصیل سے بیان فرمائے ہیں۔
جناب عبداللہ بن فضالہ اپنے والد سے راوی ہیں وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے سکھایا اور جو سکھایا ان میں یہ بات بھی تھی ”پانچ نمازوں کی پابندی کرنا۔“ میں نے عرض کیا کہ مجھے ان اوقات میں کام ہوتے ہیں تو آپ مجھے کوئی جامع بات ارشاد فرمائیں جس پر عمل میرے لیے کافی رہے، آپ ﷺ نے فرمایا: ”«عصرين» کی پابندی کرنا۔“ اور یہ لفظ ہماری زبان میں مستعمل نہ تھا۔ میں نے کہا کہ «عصرين» سے کیا مراد ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا ”سورج کے طلوع اور غروب ہونے سے پہلے کی نمازیں۔“
حدیث حاشیہ:
کام والے کو صبح اورعصر کی نمازوں کی پابندی کافی ہو، کس طرح صحیح ہوسکتا ہے؟ شیخ ولی الدین عراقی نے لکھا ہے کہ اس اشکال کا جواب یہ ہے کہ دراصل نبی ﷺ کا فرمان: ’’نمازوں کے اول اوقات سے متعلق تھا۔،، تو اس نے معذرت کی کہ میں پانچوں نمازیں اوّل وقت میں نہیں پڑھ سکتا۔ تب آپ نے ان دو نمازوں کے اوقات کی بالخصوص تاکید فرمائی۔ (واللہ أعلم بالصواب) امام ابو داؤد کا اس حدیث کو باب میں بیان کرنا اس کا مؤید ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
فضالہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے جو باتیں سکھائیں ان میں یہ بات بھی تھی کہ پانچوں نماز پر محافظت کرو، میں نے کہا: یہ ایسے اوقات ہیں جن میں مجھے بہت کام ہوتے ہیں، آپ مجھے ایسا جامع کام کرنے کا حکم دیجئیے کہ جب میں اس کو کروں تو وہ مجھے کافی ہو جائے، آپ ﷺ نے فرمایا: ”عصرین پر محافظت کرو.“ عصرین کا لفظ ہماری زبان میں مروج نہ تھا، اس لیے میں نے پوچھا: عصرین کیا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”دو نماز: ایک سورج نکلنے سے پہلے، اور ایک سورج ڈوبنے سے پہلے (فجر اور عصر)“ ۱؎۔
حدیث حاشیہ:
۱؎: اس حدیث کا یہ مطلب نہیں ہے کہ جو بہت زیادہ مصروف ہو اس کے لئے فقط دو وقت کی نماز کافی ہو جائے گی، بلکہ مطلب یہ ہے کہ کم سے کم ان دو وقتوں کی نماز کو اول وقت پر پابندی سے پڑھ لیا کرے (بیہقی، عراقی)۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Fudalah (RA): The Apostle of Allah (ﷺ) taught me and what he taught me is this: Observe the five prayers regularly. He said: I told (him): I have many works at these times; so give me a comprehensive advice which, if I follow, should be enough for me. He said: Observe the two afternoon prayers (al-asrayn). But the term al-asrayn (two afternoon prayers) was not used in our language. Hence I said: What is al-asrayn? He said: A prayer before the sunrise and a prayer before the sunset (i.e. the dawn and the afternoon prayers).