Abu-Daud:
Prayer (Kitab Al-Salat)
(Chapter: (What Should Be Done) If the Imam Delays The Prayer)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
431.
سیدنا ابوذر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ مجھ سے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اے ابوذر! اس وقت تیرا کیا حال ہو گا جب تجھ پر ایسے حکام ہوں گے جو نمازوں کو مار ڈالیں گے۔“ یا یہ فرمایا: ”ان میں تاخیر کریں گے۔“ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! آپ مجھے کیا حکم فرماتے ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا ”تم نماز کو اس کے وقت میں پڑھ لیا کرنا اور اگر تم اسے ان کے ساتھ پاؤ تو ان کے ساتھ بھی پڑھ لیا کرنا اور یہ تیرے لیے نفل ہو گی۔“
تشریح:
(1) اس حدیث میں رسو ل اللہ ﷺ نے ایام فتنہ کی خبر دی ہے جو تاریخ کے مختلف ادوار میں حکام وقت پرثابت ہوچکی ہے اور اب حکام اورعوام سب ہی اس میں مبتلا ہیں۔ (إلا من رحم ربي) (2) نماز کوبے وقت کرکے پڑھنا ’’اس کی روح نکال دینے،، کےمترادف ہے، گویا اسے مارڈالا گیا ہو اور ایسی نماز اللہ کے ہاں کوئی وزن نہیں رکھتی۔ (3) ایسی صورت میں جب حاکم یا اہل مسجد ’’افضل اور مختار وقت،، کےعلاوہ میں نماز ادا کرتے ہوں تو متبع سنت کوصحیح اورمختار وقت میں اکیلے ہی نماز پڑھنی چاہیے۔ (4) اگر انسان مسجد میں یا ان کی مجلس میں موجود ہوتو ان کےساتھ مل کر بھی پڑھ لےتاکہ فتنہ نہ ہو اور وحدت قائم رہے۔ (5) غیر معصیت کے امور میں حکام وقت کی اطاعت واجب ہے۔ (6) مندرجہ بالا حدیث کی روشنی میں معلوم ہوا کہ کوئی شرعی سبب موجو د ہوتو ’’عصر اور فجر،، کے بعد بھی نماز جائز ہے۔ (7) اس کی پہلی نماز فرض ہوگی اور دوسری نقل، خواہ باجماعت ہی کیوں نہ پڑھی ہو۔
’’نماز‘‘ مسلمانوں کے ہاں اللہ عزوجل کی عبادت کا ایک مخصوص انداز ہے اس میں قیام رکوع‘سجدہ‘ اور تشہد میں متعین ذکر اور دعائیں پڑھی جاتی ہیں اس کی ابتدا کلمہ ’’اللہ اکبر‘‘ سے اور انتہا ’’السلام علیکم ور حمۃ اللہ‘‘ سے ہوتی ہے تمام امتوں میں اللہ کی عبادت کے جو طور طریقے رائج تھے یا ابھی تک موجود ہیں ان سب میں سے ہم مسلمانوں کی نماز ‘انتہائی عمدہ خوبصورت اور کامل عبادت ہے ۔بندے کی بندگی کا عجزہ اور رب ذوالجلال کی عظمت کا جو اظہار اس طریق عبادت میں ہے ‘کسی اور میں دکھائی نہیں دیتا۔ اسلام میں بھی اس کے مقابلے کی اور کوئی عباد نہیں ہے یہ ایک ایساستون ہے جس پر دین کی پوری عمارت کڑی ہوتی ہے ‘ اگر یہ گر جائے تو پوری عمار گر جاتی ہے سب سے پہلے اسی عباد کا حکم دیا گیا اور شب معراج میں اللہ عزوجل نے اپنے رسول کو بلا واسطہ براہ راست خطاب سے اس کا حکم دیا اور پھر جبرئیل امین نے نبئ کریم ﷺ کو دوبار امامت کرائی اور اس کی تمام تر جزئیات سے آپ کو عملاً آگاہ فرمایا اور آپ نے بھی جس تفصیل سے نماز کے احکام و آداب بیان کیے ہیں کسی اور عبادت کے اس طرح بیان نہیں کیے۔قیامت کے روز بھی سب سے پہلے نماز ہی کا حساب ہو گا جس کی نماز درست اور صحیح نکلی اس کے باقی اعمال بھی صحیح ہو جائیں گے اور اگر یہی خراب نکلی تو باقی اعمال بھی برباد ہو جائیں گے رسول اللہ ﷺ اپنی ساری زندگی نماز کی تعلیم و تا کید فرماتے رہے حتی کہ دنیا سے کوچ کے آخری لمحات میں بھی ’’نماز ‘نماز‘‘ کی وصیت آپ کی زبان مبارک پر تھی آپ نے امت کو متنبہ فرمایا کہ اسلام ایک ایک کڑی کر ک ٹوٹتا اور کھلتا چلا جائے گا ‘ جب ایک کڑی ٹوٹے گی تو لوگ دوسری میں مبتلا ہو جائیں گے اور سب سے آخر میں نماز بھی چھوٹ جائے گی ۔۔(موارد الظمآ ن : 1/401‘حدیث 257 الی زوائد ابن حبان)
قرآن مجید کی سیکڑوں آیات اس کی فرضیت اور اہمیت بیان کرتی ہیں سفر ‘حضر‘صحت‘مرض ‘امن اور خوف ‘ہر حال میں نماز فرض ہے اور اس کے آداب بیان کیے گئے ہیں نماز میں کوتاہی کر نے والو کے متعلق قرآن مجید اور احادیث میں بڑی سخت وعید سنائی گئی ہیں۔
امام ابوداود نے اس کتاب میں نماز کے مسائل بڑی تفصیل سے بیان فرمائے ہیں۔
تمہید باب
یہاں ’’امام‘‘ سے مراد شرعی حاکم یا اس کا مقررہ نمائندہ ہے نماز کی اقامت اور امامت ان کے فرائض میں شامل ہے۔
سیدنا ابوذر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ مجھ سے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اے ابوذر! اس وقت تیرا کیا حال ہو گا جب تجھ پر ایسے حکام ہوں گے جو نمازوں کو مار ڈالیں گے۔“ یا یہ فرمایا: ”ان میں تاخیر کریں گے۔“ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! آپ مجھے کیا حکم فرماتے ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا ”تم نماز کو اس کے وقت میں پڑھ لیا کرنا اور اگر تم اسے ان کے ساتھ پاؤ تو ان کے ساتھ بھی پڑھ لیا کرنا اور یہ تیرے لیے نفل ہو گی۔“
حدیث حاشیہ:
(1) اس حدیث میں رسو ل اللہ ﷺ نے ایام فتنہ کی خبر دی ہے جو تاریخ کے مختلف ادوار میں حکام وقت پرثابت ہوچکی ہے اور اب حکام اورعوام سب ہی اس میں مبتلا ہیں۔ (إلا من رحم ربي) (2) نماز کوبے وقت کرکے پڑھنا ’’اس کی روح نکال دینے،، کےمترادف ہے، گویا اسے مارڈالا گیا ہو اور ایسی نماز اللہ کے ہاں کوئی وزن نہیں رکھتی۔ (3) ایسی صورت میں جب حاکم یا اہل مسجد ’’افضل اور مختار وقت،، کےعلاوہ میں نماز ادا کرتے ہوں تو متبع سنت کوصحیح اورمختار وقت میں اکیلے ہی نماز پڑھنی چاہیے۔ (4) اگر انسان مسجد میں یا ان کی مجلس میں موجود ہوتو ان کےساتھ مل کر بھی پڑھ لےتاکہ فتنہ نہ ہو اور وحدت قائم رہے۔ (5) غیر معصیت کے امور میں حکام وقت کی اطاعت واجب ہے۔ (6) مندرجہ بالا حدیث کی روشنی میں معلوم ہوا کہ کوئی شرعی سبب موجو د ہوتو ’’عصر اور فجر،، کے بعد بھی نماز جائز ہے۔ (7) اس کی پہلی نماز فرض ہوگی اور دوسری نقل، خواہ باجماعت ہی کیوں نہ پڑھی ہو۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابوذر ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے فرمایا: ”ابوذر! تم اس وقت کیا کرو گے جب تمہارے اوپر ایسے حاکم و سردار ہوں گے جو نماز کو مار ڈالیں گے؟“ یا فرمایا: ”نماز کو تاخیر سے پڑھیں گے.“ میں نے کہا: اللہ کے رسول! اس سلسلے میں آپ مجھے کیا حکم دیتے ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”تم نماز وقت پر پڑھ لو، پھر اگر تم ان کے ساتھ یہی نماز پاؤ تو (دوبارہ) پڑھ لیا کرو۱؎، یہ تمہارے لیے نفل ہو گی۔“
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Abu Dharr (RA) said: "The Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) asked me: 'How will you act, Abu Dharr, when you are under rulers who kill prayer or delay it (beyond its proper time)? I said: 'Messenger of Allah, what do you command me ?' He replied: 'Offer the prayer at its proper time, and if you say it along with them, say it, for it will be a supererogatory prayer for you'".