باب: مرتد ، یعنی دین اسلام سے پھر جانے والے کا حکم
)
Abu-Daud:
Prescribed Punishments (Kitab Al-Hudud)
(Chapter: Ruling on one who apostatizes)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
4356.
جناب ابوبردہ نے یہ قصہ بیان کیا ، کہتے ہیں کہ سیدنا ابوموسیٰ کے ہاں ایک آدمی پیش کیا گیا جو اسلام سے مرتد ہو چکا تھا۔ تو آپ اسے تقریباً! بیس رات دعوت دیتے رہے۔ پھر سیدنا معاذ ؓ تشریف لے آئے تو انہوں نے بھی اسے دعوت دی مگر اس نے انکار کر دیا، تو اس کی گردن مار دی گئی۔ امام ابوداؤد ؓ فرماتے ہیں کہ اس روایت کو عبدالملک بن عمیر نے ابوبردہ سے روایت کیا ہے، مگر اس میں توبہ کرانے کا بیان نہیں۔ اور ابن فضیل نے بواسطہ شیبانی، سعید بن ابی بردہ سے انہوں نے اپنے والد ابوموسیٰ سے روایت کیا تو اس میں بھی توبہ کرانے کا ذکر نہیں ہے۔
حدود‘حد کی جمع ہے ۔لغت میں ’’حد‘‘ اس رکاوٹ کو کہتے ہیں جو دو چیزوں کے درمیان حائل ہو اور انہیں آپس میں خلط ہونے سے مانع ہو ۔ اصطلاح شرع میں اس سے مراد ’’ وہ خاص سزائیں ہوتی ہیں جو بلحاظ حقوق اللہ مخصوص غلطیوں اور نا فرمانیوں پر ان کے مرتکبین کو دی جاتی ہیں اور یہ اللہ یا اس کے رسول کی طرف سے مقرر ہیں ۔‘‘ان سزاؤں کو ’’حد ‘‘کہنے کی وجہ یہ ہے کہ یہ سزائیں لوگوں کو ان نافرمانیوں کے ارتکاب سے مانع ہوتی ہیں اور تعزیرات ‘ان سزاؤں کو کہتے ہیں جو مقرر نہیں ہیں ‘ بلکہ قاضی یا حاکم مجاز اپنی صواب دیدے حالات کے مطابق مختلف جرائم پر دیتے ہیں ۔
اللہ تعالیٰ نے چند شنبع جرائم کی سزائیں مقرر فرما دی ہیں جو لوگوں کو جرائم کے ارتکاب سے روکتی ہیں ۔ اس لیے انہیں حدود کہا جاتا ہ وہ جرائم اور ان کی سزائیں درج ذیل ہیں:
1۔چوری: مسلمان کا مال حرمت والا ہے ‘اسے چرانے والے کی سزا ہاتھ کاٹنا ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے (وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَةُ فَاقْطَعُوا أَيْدِيَهُمَا جَزَاءً بِمَا كَسَبَا نَكَالًا مِنَ اللَّهِ وَاللَّهُ)(المائدۃ:38)’’اور تم چوری کرنے والے مرد اور چور کرنے والی عورت کے ہاتھ کاٹ دو‘یہ اللہ کی طرف سے اس گناہ کی عبرت ناک سزا ہے جو انہوں نے کیا –‘‘
2 تہمت لگانا : پاک دامن مسلمان پر جھوٹی تہمت لگانا موجب سزا ہے جو کہ 80 کوڑے ہیں ‘ارشاد باری تعالیٰ ہے (فَاجْلِدُوهُمْ ثَمَانِينَ جَلْدَةً) (النور:4)’’ تو تم انہیں اسّی کوڑے مارو۔‘‘
3۔زنا: اس قبیح اور شنبع جرم کی بڑی سخت سزا مقرر کی گئی ہے اگر شادی شدہ شخص یہ جرم کرے تو اسے پتھروں سے رجم کرنے کا حکم دیا گیا اور اگر کنوارا ہو تو سو کوڑے اس کی سزا ہے (صحیح مسلم ‘الحدود ‘باب حدّالزنی‘ حدیث :1690)
4۔بغاوت اور ارتداد: اگر کوئی شخص اسلام لانے کے بعد مرتد ہو جائے تو اس کی گردن اڑا دی جائے ۔ باغیوں کے خلاف مسلح جدوجہد کی جائے گی تا آنکہ وہ مسلمان امام کی اطاعت میں واپس آ جائیں ۔ارشاد باری تعالیٰ ہے (إِنَّمَا جَزَاءُ الَّذِينَ يُحَارِبُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيَسْعَوْنَ فِي الْأَرْضِ فَسَادًا أَنْ يُقَتَّلُوا أَوْ يُصَلَّبُوا أَوْ تُقَطَّعَ أَيْدِيهِمْ وَأَرْجُلُهُمْ مِنْ خِلَافٍ أَوْ يُنْفَوْا مِنَ الْأَرْضِ....)الایۃ ’’ جو لوگ اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کرتے ہیں اور زمین میں فساد کے لیے بھاگ دوڑ کرتے ہیں ان کی سزا تو صرف یہ ہے کہ انہیں قتل کیا جائے یا سولی دی جائے یا ان کے ہاتھ اور پاؤں مخالف جانب سے کاٹ دیے جائیں یا انہیں جلاوطن کر دیا جائے ۔ یہ دنیا میں ان کے لیے ذلت ہے اور آخرت میں ان کے لیے بہت بڑا عذاب ہے ۔‘‘ المائدۃ:33)
5۔قتل عدم صورت میں اس جرم کے مرتکب شخص کی سزا بھی قتل ہے ‘ ارشاد باری تعالیٰ ہے : (وَكَتَبْنَا عَلَيْهِمْ فِيهَا أَنَّ النَّفْسَ بِالنَّفْسِ) ’’ اور ہم نے ان کے ذمہ یہ بات تو رات میں مقرر کر دی تھی کہ جان کے بدلے جان ہے ۔‘‘المائدۃ:45)
تمہید باب
"مرتد ہونا یا اتداد"۔۔۔۔۔ کسی عاقل'بالغ مسلمان(مرد'عورت) کے بغیر کسی جبروا کراہ کے اسلام سے منکرہوجانے کو کہتے ہیں۔ کوئی بچہ یامجنون ایسی بات کہے تو اس کا اعتبار نہیں اور اگر کو ئی کسی کے جبروا کراہ سے ایسا کہنے پر مجبور ہوجائے تومعاف ہے'ارشاد باری تعالیٰ ہے: (مَنْ كَفَرَ بِاللَّهِ مِنْ بَعْدِ إِيمَانِهِ إِلَّا مَنْ أُكْرِهَ وَقَلْبُهُ مُطْمَئِنٌّ بِالْإِيمَانِ) (النحل:106)" جس نے ایمان لے آنے کے بعداللہ سے کفر کیا سوائے اس کے جسے مجبور کردیا گیا اور اس کادل ایمان پر مطمئن رہا
جناب ابوبردہ نے یہ قصہ بیان کیا ، کہتے ہیں کہ سیدنا ابوموسیٰ کے ہاں ایک آدمی پیش کیا گیا جو اسلام سے مرتد ہو چکا تھا۔ تو آپ اسے تقریباً! بیس رات دعوت دیتے رہے۔ پھر سیدنا معاذ ؓ تشریف لے آئے تو انہوں نے بھی اسے دعوت دی مگر اس نے انکار کر دیا، تو اس کی گردن مار دی گئی۔ امام ابوداؤد ؓ فرماتے ہیں کہ اس روایت کو عبدالملک بن عمیر نے ابوبردہ سے روایت کیا ہے، مگر اس میں توبہ کرانے کا بیان نہیں۔ اور ابن فضیل نے بواسطہ شیبانی، سعید بن ابی بردہ سے انہوں نے اپنے والد ابوموسیٰ سے روایت کیا تو اس میں بھی توبہ کرانے کا ذکر نہیں ہے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
اس سند سے بھی ابوبردہ ؓ سے یہی واقعہ مروی ہے، وہ کہتے ہیں ابوموسیٰ ؓ کے پاس ایک شخص کو لے کر آیا گیا جو اسلام سے مرتد گیا تھا، بیس دن تک یا اس کے لگ بھگ وہ اسے اسلام کی دعوت دیتے رہے کہ اسی دوران معاذ ؓ آ گئے تو آپ نے بھی اسے اسلام کی دعوت دی، لیکن اس نے انکار کر دیا تو آپ نے اس کی گردن مار دی۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اسے عبدالملک بن عمیر نے ابوبردہ سے روایت کیا ہے، لیکن انہوں نے اس میں ”توبہ کرانے کا ذکر نہیں کیا ہے۔“ اور اسے ابن فضیل نے شیبانی سے شیبانی نے سعید بن ابی بردہ سے، ابوبردہ نے اپنے والد ابوبردہ سے اور ابوبردہ نے ابوموسیٰ اشعری سے روایت کیا ہے اور اس میں بھی انہوں نے ”توبہ کرانے کا ذکر نہیں کیا ہے۔“
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Abu Burdah said: A man who turned back from Islam was brought to Abu Musa. He invited him to repent for twenty days or about so. Muadh then came and invited him (to embrace Islam) but he refused. So he was beheaded.