باب: مرتد ، یعنی دین اسلام سے پھر جانے والے کا حکم
)
Abu-Daud:
Prescribed Punishments (Kitab Al-Hudud)
(Chapter: Ruling on one who apostatizes)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
4357.
جانب قاسم (قاسم بن عبدالرحمٰن ہذلی) نے یہ قصہ بیان کیا، اس میں ہے کہ سیدنا معاذ ؓ اپنی سواری سے اس وقت تک نہ اترے جب تک کہ اس کی گردن نہ مار دی گئی اور اس شخص سے توبہ نہ کروائی۔
تشریح:
یہ روایت ضعیف ہے اور اوپر والی روایت میں اس سے توبہ کرانے کا بیان صیح سند سے ثابت ہے۔
حدود‘حد کی جمع ہے ۔لغت میں ’’حد‘‘ اس رکاوٹ کو کہتے ہیں جو دو چیزوں کے درمیان حائل ہو اور انہیں آپس میں خلط ہونے سے مانع ہو ۔ اصطلاح شرع میں اس سے مراد ’’ وہ خاص سزائیں ہوتی ہیں جو بلحاظ حقوق اللہ مخصوص غلطیوں اور نا فرمانیوں پر ان کے مرتکبین کو دی جاتی ہیں اور یہ اللہ یا اس کے رسول کی طرف سے مقرر ہیں ۔‘‘ان سزاؤں کو ’’حد ‘‘کہنے کی وجہ یہ ہے کہ یہ سزائیں لوگوں کو ان نافرمانیوں کے ارتکاب سے مانع ہوتی ہیں اور تعزیرات ‘ان سزاؤں کو کہتے ہیں جو مقرر نہیں ہیں ‘ بلکہ قاضی یا حاکم مجاز اپنی صواب دیدے حالات کے مطابق مختلف جرائم پر دیتے ہیں ۔
اللہ تعالیٰ نے چند شنبع جرائم کی سزائیں مقرر فرما دی ہیں جو لوگوں کو جرائم کے ارتکاب سے روکتی ہیں ۔ اس لیے انہیں حدود کہا جاتا ہ وہ جرائم اور ان کی سزائیں درج ذیل ہیں:
1۔چوری: مسلمان کا مال حرمت والا ہے ‘اسے چرانے والے کی سزا ہاتھ کاٹنا ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے (وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَةُ فَاقْطَعُوا أَيْدِيَهُمَا جَزَاءً بِمَا كَسَبَا نَكَالًا مِنَ اللَّهِ وَاللَّهُ)(المائدۃ:38)’’اور تم چوری کرنے والے مرد اور چور کرنے والی عورت کے ہاتھ کاٹ دو‘یہ اللہ کی طرف سے اس گناہ کی عبرت ناک سزا ہے جو انہوں نے کیا –‘‘
2 تہمت لگانا : پاک دامن مسلمان پر جھوٹی تہمت لگانا موجب سزا ہے جو کہ 80 کوڑے ہیں ‘ارشاد باری تعالیٰ ہے (فَاجْلِدُوهُمْ ثَمَانِينَ جَلْدَةً) (النور:4)’’ تو تم انہیں اسّی کوڑے مارو۔‘‘
3۔زنا: اس قبیح اور شنبع جرم کی بڑی سخت سزا مقرر کی گئی ہے اگر شادی شدہ شخص یہ جرم کرے تو اسے پتھروں سے رجم کرنے کا حکم دیا گیا اور اگر کنوارا ہو تو سو کوڑے اس کی سزا ہے (صحیح مسلم ‘الحدود ‘باب حدّالزنی‘ حدیث :1690)
4۔بغاوت اور ارتداد: اگر کوئی شخص اسلام لانے کے بعد مرتد ہو جائے تو اس کی گردن اڑا دی جائے ۔ باغیوں کے خلاف مسلح جدوجہد کی جائے گی تا آنکہ وہ مسلمان امام کی اطاعت میں واپس آ جائیں ۔ارشاد باری تعالیٰ ہے (إِنَّمَا جَزَاءُ الَّذِينَ يُحَارِبُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيَسْعَوْنَ فِي الْأَرْضِ فَسَادًا أَنْ يُقَتَّلُوا أَوْ يُصَلَّبُوا أَوْ تُقَطَّعَ أَيْدِيهِمْ وَأَرْجُلُهُمْ مِنْ خِلَافٍ أَوْ يُنْفَوْا مِنَ الْأَرْضِ....)الایۃ ’’ جو لوگ اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کرتے ہیں اور زمین میں فساد کے لیے بھاگ دوڑ کرتے ہیں ان کی سزا تو صرف یہ ہے کہ انہیں قتل کیا جائے یا سولی دی جائے یا ان کے ہاتھ اور پاؤں مخالف جانب سے کاٹ دیے جائیں یا انہیں جلاوطن کر دیا جائے ۔ یہ دنیا میں ان کے لیے ذلت ہے اور آخرت میں ان کے لیے بہت بڑا عذاب ہے ۔‘‘ المائدۃ:33)
5۔قتل عدم صورت میں اس جرم کے مرتکب شخص کی سزا بھی قتل ہے ‘ ارشاد باری تعالیٰ ہے : (وَكَتَبْنَا عَلَيْهِمْ فِيهَا أَنَّ النَّفْسَ بِالنَّفْسِ) ’’ اور ہم نے ان کے ذمہ یہ بات تو رات میں مقرر کر دی تھی کہ جان کے بدلے جان ہے ۔‘‘المائدۃ:45)
تمہید باب
"مرتد ہونا یا اتداد"۔۔۔۔۔ کسی عاقل'بالغ مسلمان(مرد'عورت) کے بغیر کسی جبروا کراہ کے اسلام سے منکرہوجانے کو کہتے ہیں۔ کوئی بچہ یامجنون ایسی بات کہے تو اس کا اعتبار نہیں اور اگر کو ئی کسی کے جبروا کراہ سے ایسا کہنے پر مجبور ہوجائے تومعاف ہے'ارشاد باری تعالیٰ ہے: (مَنْ كَفَرَ بِاللَّهِ مِنْ بَعْدِ إِيمَانِهِ إِلَّا مَنْ أُكْرِهَ وَقَلْبُهُ مُطْمَئِنٌّ بِالْإِيمَانِ) (النحل:106)" جس نے ایمان لے آنے کے بعداللہ سے کفر کیا سوائے اس کے جسے مجبور کردیا گیا اور اس کادل ایمان پر مطمئن رہا
جانب قاسم (قاسم بن عبدالرحمٰن ہذلی) نے یہ قصہ بیان کیا، اس میں ہے کہ سیدنا معاذ ؓ اپنی سواری سے اس وقت تک نہ اترے جب تک کہ اس کی گردن نہ مار دی گئی اور اس شخص سے توبہ نہ کروائی۔
حدیث حاشیہ:
یہ روایت ضعیف ہے اور اوپر والی روایت میں اس سے توبہ کرانے کا بیان صیح سند سے ثابت ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
قاسم سے بھی یہی واقعہ مروی ہے اس میں ہے کہ جب تک اس کی گردن مار نہیں دی گئی وہ سواری سے نیچے نہیں اترے اور انہوں نے اس سے توبہ نہیں کرائی۱؎۔
حدیث حاشیہ:
۱؎: یہ اس سے پہلے والی روایت کے معارض ہے جس میں ذکر ہے کہ معاذ نے اسے اسلام کی دعوت دی، لیکن اس نے اسے قبول نہیں کیا، لیکن مسعودی کی یہ روایت سنداً ضعیف ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
The tradition mention above has also been transmitted by Abu Musa through a different chain if narrators. But there is no mention of demand of repentance.