مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
4414.
ابن ابی نجیح نے جناب مجاہد سے روایت کیا کہ ’’سبیل“ (راستے) سے مراد حد کا نازل کرنا ہے۔ سفیان نے کہا: ”ان دونوں کو سزا دو۔“ سے مراد غیر شادی شدہ مرد و عورت ہیں۔ اور ”ان کو گھر میں روکے رکھو۔“ سے مراد شادی شدہ عورتیں ہیں۔
حدود‘حد کی جمع ہے ۔لغت میں ’’حد‘‘ اس رکاوٹ کو کہتے ہیں جو دو چیزوں کے درمیان حائل ہو اور انہیں آپس میں خلط ہونے سے مانع ہو ۔ اصطلاح شرع میں اس سے مراد ’’ وہ خاص سزائیں ہوتی ہیں جو بلحاظ حقوق اللہ مخصوص غلطیوں اور نا فرمانیوں پر ان کے مرتکبین کو دی جاتی ہیں اور یہ اللہ یا اس کے رسول کی طرف سے مقرر ہیں ۔‘‘ان سزاؤں کو ’’حد ‘‘کہنے کی وجہ یہ ہے کہ یہ سزائیں لوگوں کو ان نافرمانیوں کے ارتکاب سے مانع ہوتی ہیں اور تعزیرات ‘ان سزاؤں کو کہتے ہیں جو مقرر نہیں ہیں ‘ بلکہ قاضی یا حاکم مجاز اپنی صواب دیدے حالات کے مطابق مختلف جرائم پر دیتے ہیں ۔
اللہ تعالیٰ نے چند شنبع جرائم کی سزائیں مقرر فرما دی ہیں جو لوگوں کو جرائم کے ارتکاب سے روکتی ہیں ۔ اس لیے انہیں حدود کہا جاتا ہ وہ جرائم اور ان کی سزائیں درج ذیل ہیں:
1۔چوری: مسلمان کا مال حرمت والا ہے ‘اسے چرانے والے کی سزا ہاتھ کاٹنا ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے (وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَةُ فَاقْطَعُوا أَيْدِيَهُمَا جَزَاءً بِمَا كَسَبَا نَكَالًا مِنَ اللَّهِ وَاللَّهُ)(المائدۃ:38)’’اور تم چوری کرنے والے مرد اور چور کرنے والی عورت کے ہاتھ کاٹ دو‘یہ اللہ کی طرف سے اس گناہ کی عبرت ناک سزا ہے جو انہوں نے کیا –‘‘
2 تہمت لگانا : پاک دامن مسلمان پر جھوٹی تہمت لگانا موجب سزا ہے جو کہ 80 کوڑے ہیں ‘ارشاد باری تعالیٰ ہے (فَاجْلِدُوهُمْ ثَمَانِينَ جَلْدَةً) (النور:4)’’ تو تم انہیں اسّی کوڑے مارو۔‘‘
3۔زنا: اس قبیح اور شنبع جرم کی بڑی سخت سزا مقرر کی گئی ہے اگر شادی شدہ شخص یہ جرم کرے تو اسے پتھروں سے رجم کرنے کا حکم دیا گیا اور اگر کنوارا ہو تو سو کوڑے اس کی سزا ہے (صحیح مسلم ‘الحدود ‘باب حدّالزنی‘ حدیث :1690)
4۔بغاوت اور ارتداد: اگر کوئی شخص اسلام لانے کے بعد مرتد ہو جائے تو اس کی گردن اڑا دی جائے ۔ باغیوں کے خلاف مسلح جدوجہد کی جائے گی تا آنکہ وہ مسلمان امام کی اطاعت میں واپس آ جائیں ۔ارشاد باری تعالیٰ ہے (إِنَّمَا جَزَاءُ الَّذِينَ يُحَارِبُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيَسْعَوْنَ فِي الْأَرْضِ فَسَادًا أَنْ يُقَتَّلُوا أَوْ يُصَلَّبُوا أَوْ تُقَطَّعَ أَيْدِيهِمْ وَأَرْجُلُهُمْ مِنْ خِلَافٍ أَوْ يُنْفَوْا مِنَ الْأَرْضِ....)الایۃ ’’ جو لوگ اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کرتے ہیں اور زمین میں فساد کے لیے بھاگ دوڑ کرتے ہیں ان کی سزا تو صرف یہ ہے کہ انہیں قتل کیا جائے یا سولی دی جائے یا ان کے ہاتھ اور پاؤں مخالف جانب سے کاٹ دیے جائیں یا انہیں جلاوطن کر دیا جائے ۔ یہ دنیا میں ان کے لیے ذلت ہے اور آخرت میں ان کے لیے بہت بڑا عذاب ہے ۔‘‘ المائدۃ:33)
5۔قتل عدم صورت میں اس جرم کے مرتکب شخص کی سزا بھی قتل ہے ‘ ارشاد باری تعالیٰ ہے : (وَكَتَبْنَا عَلَيْهِمْ فِيهَا أَنَّ النَّفْسَ بِالنَّفْسِ) ’’ اور ہم نے ان کے ذمہ یہ بات تو رات میں مقرر کر دی تھی کہ جان کے بدلے جان ہے ۔‘‘المائدۃ:45)
تمہید باب
ہروہ جنسی اتصال جوغیر شرعی بنیاد پرہو"زنا" کہلاتاہےاور شرعی حداسی صورت میں لازم آتی ہے جب حشفہ کسی طبی مرغوب حرام فرجمیں داخل ہوجائے'انزال ہویا نہ ہواور کسی نکاح کا شبہ بھی نہ ہو۔ ان شرطوں میں"طبعی مرغوب"سے مراد کسی عورت کی شرم گاہ ہے'اس سے حیواناتخارج ہو جاتے ہیں۔ "حرام فرج" جو شرعی نکاح کےعلاوہ ہو جیسےکہ بیوی کی فرجحلال ہے۔ "بلاشبہ نکاح"سے مقصد یہ ہےکہ اگرکہیں منکوحہ ہونے کے شبہ میں ایساکام ہواتو حد نہیں ہوگی۔ مزید یہ ہے کہ اس کا مرتکب عاقل بالٖغ ہو۔
قاضی کےسامنے ازخوداقرار کرے توچاربار کرے۔اور اگرکوئی گواہی دے تو ان کی تعدادچار مرد ہونا ضروری ہے جواس فعل کے بغیرکسی احتمال کے عین بعین اورہوبہو ہونے کی گواہی دیں۔(تفصیل کے لیےملاخط ہو"فقہ السنتہ"سید سابقرحمتہ اللہ)
ابن ابی نجیح نے جناب مجاہد سے روایت کیا کہ ’’سبیل“ (راستے) سے مراد حد کا نازل کرنا ہے۔ سفیان نے کہا: ”ان دونوں کو سزا دو۔“ سے مراد غیر شادی شدہ مرد و عورت ہیں۔ اور ”ان کو گھر میں روکے رکھو۔“ سے مراد شادی شدہ عورتیں ہیں۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
مجاہد کہتے ہیں کہ «سبیل» سے مراد حد ہے۔ سفیان کہتے ہیں: «فآذوهما» سے مراد کنوارا مرد اور کنواری عورت ہے، اور «فأمسكوهن في البيوت» سے مراد غیر کنواری عورتیں ہیں۔
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Mujahid said: Apponting a way in the verse (iv.15) means prescribed punishment. Sufiyan said: “Punish them “refers to unmarried, and “confine them to houses” refers to the women who are married.