Abu-Daud:
Prescribed Punishments (Kitab Al-Hudud)
(Chapter: Stoning of Ma'iz bin Malik)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
4432.
جریری نے ابونضرہ سے روایت کرتے ہوئے کہا کہ ایک شخص نبی کریم ﷺ کے پاس آیا۔ اور مذکورہ بالا حدیث کی مانند روایت کیا، لیکن اس کی روایت مکمل نہیں ہے۔ راوی نے کہا کہ لوگ اسے گالیاں دینے لگے، تو آپ ﷺ نے ان کو منع کیا۔ (پھر) وہ اس کے لیے استغفار کرنے لگے، تو آپ ﷺ نے ان کو منع کر دیا اور کہا: ”یہ ایسا آدمی ہے جس نے گناہ کا ارتکاب کیا ہے اور اللہ ہی اس کا حساب لینے والا ہے۔“
تشریح:
فائدہ: یہ روایت سندا ضعیف ہے، صحیح بات یہ ہے کہ کسی مسلمان نے خواہ کس فدر گناہ کیا ہو، اس کے لئے استغفار جائز ہے۔ حضرت ماعز رضی اللہ عنہ کے لیے بھی بعد میں نماز جنازہ پڑھی گئی تھی، جیسا کہ صحیح بخاری مبں صراحت ہے دیکھئیے: (صحیح البخاریي، الحدود، حدیث: 6820)
حدود‘حد کی جمع ہے ۔لغت میں ’’حد‘‘ اس رکاوٹ کو کہتے ہیں جو دو چیزوں کے درمیان حائل ہو اور انہیں آپس میں خلط ہونے سے مانع ہو ۔ اصطلاح شرع میں اس سے مراد ’’ وہ خاص سزائیں ہوتی ہیں جو بلحاظ حقوق اللہ مخصوص غلطیوں اور نا فرمانیوں پر ان کے مرتکبین کو دی جاتی ہیں اور یہ اللہ یا اس کے رسول کی طرف سے مقرر ہیں ۔‘‘ان سزاؤں کو ’’حد ‘‘کہنے کی وجہ یہ ہے کہ یہ سزائیں لوگوں کو ان نافرمانیوں کے ارتکاب سے مانع ہوتی ہیں اور تعزیرات ‘ان سزاؤں کو کہتے ہیں جو مقرر نہیں ہیں ‘ بلکہ قاضی یا حاکم مجاز اپنی صواب دیدے حالات کے مطابق مختلف جرائم پر دیتے ہیں ۔
اللہ تعالیٰ نے چند شنبع جرائم کی سزائیں مقرر فرما دی ہیں جو لوگوں کو جرائم کے ارتکاب سے روکتی ہیں ۔ اس لیے انہیں حدود کہا جاتا ہ وہ جرائم اور ان کی سزائیں درج ذیل ہیں:
1۔چوری: مسلمان کا مال حرمت والا ہے ‘اسے چرانے والے کی سزا ہاتھ کاٹنا ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے (وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَةُ فَاقْطَعُوا أَيْدِيَهُمَا جَزَاءً بِمَا كَسَبَا نَكَالًا مِنَ اللَّهِ وَاللَّهُ)(المائدۃ:38)’’اور تم چوری کرنے والے مرد اور چور کرنے والی عورت کے ہاتھ کاٹ دو‘یہ اللہ کی طرف سے اس گناہ کی عبرت ناک سزا ہے جو انہوں نے کیا –‘‘
2 تہمت لگانا : پاک دامن مسلمان پر جھوٹی تہمت لگانا موجب سزا ہے جو کہ 80 کوڑے ہیں ‘ارشاد باری تعالیٰ ہے (فَاجْلِدُوهُمْ ثَمَانِينَ جَلْدَةً) (النور:4)’’ تو تم انہیں اسّی کوڑے مارو۔‘‘
3۔زنا: اس قبیح اور شنبع جرم کی بڑی سخت سزا مقرر کی گئی ہے اگر شادی شدہ شخص یہ جرم کرے تو اسے پتھروں سے رجم کرنے کا حکم دیا گیا اور اگر کنوارا ہو تو سو کوڑے اس کی سزا ہے (صحیح مسلم ‘الحدود ‘باب حدّالزنی‘ حدیث :1690)
4۔بغاوت اور ارتداد: اگر کوئی شخص اسلام لانے کے بعد مرتد ہو جائے تو اس کی گردن اڑا دی جائے ۔ باغیوں کے خلاف مسلح جدوجہد کی جائے گی تا آنکہ وہ مسلمان امام کی اطاعت میں واپس آ جائیں ۔ارشاد باری تعالیٰ ہے (إِنَّمَا جَزَاءُ الَّذِينَ يُحَارِبُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيَسْعَوْنَ فِي الْأَرْضِ فَسَادًا أَنْ يُقَتَّلُوا أَوْ يُصَلَّبُوا أَوْ تُقَطَّعَ أَيْدِيهِمْ وَأَرْجُلُهُمْ مِنْ خِلَافٍ أَوْ يُنْفَوْا مِنَ الْأَرْضِ....)الایۃ ’’ جو لوگ اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کرتے ہیں اور زمین میں فساد کے لیے بھاگ دوڑ کرتے ہیں ان کی سزا تو صرف یہ ہے کہ انہیں قتل کیا جائے یا سولی دی جائے یا ان کے ہاتھ اور پاؤں مخالف جانب سے کاٹ دیے جائیں یا انہیں جلاوطن کر دیا جائے ۔ یہ دنیا میں ان کے لیے ذلت ہے اور آخرت میں ان کے لیے بہت بڑا عذاب ہے ۔‘‘ المائدۃ:33)
5۔قتل عدم صورت میں اس جرم کے مرتکب شخص کی سزا بھی قتل ہے ‘ ارشاد باری تعالیٰ ہے : (وَكَتَبْنَا عَلَيْهِمْ فِيهَا أَنَّ النَّفْسَ بِالنَّفْسِ) ’’ اور ہم نے ان کے ذمہ یہ بات تو رات میں مقرر کر دی تھی کہ جان کے بدلے جان ہے ۔‘‘المائدۃ:45)
جریری نے ابونضرہ سے روایت کرتے ہوئے کہا کہ ایک شخص نبی کریم ﷺ کے پاس آیا۔ اور مذکورہ بالا حدیث کی مانند روایت کیا، لیکن اس کی روایت مکمل نہیں ہے۔ راوی نے کہا کہ لوگ اسے گالیاں دینے لگے، تو آپ ﷺ نے ان کو منع کیا۔ (پھر) وہ اس کے لیے استغفار کرنے لگے، تو آپ ﷺ نے ان کو منع کر دیا اور کہا: ”یہ ایسا آدمی ہے جس نے گناہ کا ارتکاب کیا ہے اور اللہ ہی اس کا حساب لینے والا ہے۔“
حدیث حاشیہ:
فائدہ: یہ روایت سندا ضعیف ہے، صحیح بات یہ ہے کہ کسی مسلمان نے خواہ کس فدر گناہ کیا ہو، اس کے لئے استغفار جائز ہے۔ حضرت ماعز رضی اللہ عنہ کے لیے بھی بعد میں نماز جنازہ پڑھی گئی تھی، جیسا کہ صحیح بخاری مبں صراحت ہے دیکھئیے: (صحیح البخاریي، الحدود، حدیث: 6820)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابونضرہ سے روایت ہے ایک شخص نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا، آگے اسی جیسی روایت ہے، اور پوری نہیں ہے اس میں ہے: لوگ اسے برا بھلا کہنے لگے، تو آپ نے انہیں منع فرمایا، پھر لوگ اس کی مغفرت کی دعا کرنے لگے تو آپ ﷺ نے انہیں روک دیا، اور فرمایا: ”وہ ایک شخص تھا جس نے گناہ کیا، اب اللہ اس سے سمجھ لے گا (چاہے گا تو معاف کر دے ورنہ اسے سزا دے گا تم کیوں دخل دیتے ہو)۔“
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Abu Nadrah said: A man came to Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم). He then mentioned a similar tradition but not completely. This version has: People began to speak ill of him but he (the Prophet صلی اللہ علیہ وسلم) forbade them. Then they began to ask forgiveness from him, but he forbade them by saying. He is a man who had committed a sin. Allah will call him to account himself.