باب: اگر کوئی شخص کسی غیر کو اپنی بیوی کے پاس پائے تو کیا اسے قتل کر دے؟
)
Abu-Daud:
Types of Blood-Wit (Kitab Al-Diyat)
(Chapter: If A Man Finds A Man With His Wife, Should He Kill Him ?)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
4533.
سیدنا ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ سیدنا سعد بن عبادہ ؓ نے رسول اللہ ﷺ سے کہا: فرمائیے کہ اگر میں اپنی بیوی کے ساتھ کسی غیر آدمی کو پاؤں تو کیا اسے چھوڑ دوں حتیٰ کہ چار گواہ لاؤں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”ہاں۔“
تشریح:
1: دوسری احادیث میں ہے، رسول اللہ ؐ نے فرمایا دیکھو سعد کس قدر غیرت مند ہے اور میں اس سے زیادی غیرت مند ہوں اور اللہ سب سے بڑھ کر غیرت والا ہے۔ (صحیح البخاري، النکاح، قبل الحدیث:5220، صحیح مسلم:اللعان، حدیث:1498) 2: اس حدیث میں یہ بیان ہوا ہے کہ صاحب ایمان کو اللہ کی حدود پر ٹھہرنے والا ہونا چاہیے نہ ان سے تجاوز کرنے والا۔ اسلام میں انسانی جان کی بہت زیادہ قدراہمیت ہے اور اس قسم کے حادثے میں بھی کسی کو قتل کرنے کی اجازت نہیں بلکہ چار گواہوں یا اقرر ہو تو تن رجم ہو گا۔ اگر گواہ ہوں، نہ عورت کا اقراربلکہ صرف خاوند کا دعوی ہو تو اس صورت میں رجم نہیں ہو گا، بلکہ لعان ہو گا۔
٭دیت کی لغوی اوراصطلاحی تعریف"الدية"ودٰی فعل کا مصدرہے جس کےمعنی ہیں "خون کی بہا اداکرنا"عرب کہتےہیں :وديت القتل: أي اعطيت ديته"میں نے مقتول مقتول کی دیت اداکی"دیت کو "عقل"بھی کہا جاتاہے"عقل"کےمعنی "باندھنے"کےہیں۔عرب کارواج تھاکہ وہ مقتول کی دیت کےاونٹ اس کےگھر کےصحن میں باندھ دیتےتھے۔ اس لیےدیت کو عقل کہا جانے لگا۔
٭اصطلاحی تعریف یوں کی گئی ہے: (الدية مال يجب بقتل آدمى حرمين دمه أو بجرحه مقدر شرعاً لا باجتهاد)"دیت سےمرادوہ مال ہے جس کی ادائیگی کسی آزادشخص کو قتل کرنے یازخمی کرنے کی صورت میں واجب ہےاور اس کی مقدار شریعت میں مقررہے ،یہ اجتہادی مسئلہ نہیں ہے ۔
٭دیت کی مشروعیت: اللہ تعالی نے مسلمان کے جان ومال کو دوسروں پر محترم قراردیاہے۔ لہذاان دو میں سے کسی ظلم وزیادتی کی صورت میں ہرجانہ اورخون بہا کی صورت میں سزامقررکردی گئی ہے ،ارشاد بانی ہے (وَمَنْ قَتَلَ مُؤْمِنًا خَطَأً فَتَحْرِيرُ رَقَبَةٍ مُؤْمِنَةٍ وَدِيَةٌ مُسَلَّمَةٌ إِلَى أَهْلِهِ)
"اور جس نے مسلمان شخص کو غلطی سے قتل کردیا تو مومن غلام آزادکرے اوراولیاء(مقتول کے ورثا) کودیت ادا کرے ۔ "
رسول اکر م ﷺنے دیت کی مشروعیت بیان کرتے ہوئے فرمایا:[ فَمَنْ قُتِلَ فَهُوَ بِخَيْرِ النَّظَرَيْنِ: إِمَّا أَنْ يُعْقَلَ، وَإِمَّا أَنْ يُقَادَ أَهْلُ القَتِيلِ](صحيح البخارى ،الديات،باب من قتل له قتيل فهو بخير النظرين،حديث:6880)
"جس کا کوئی شخص قتل کردیا جائے اسے دوچیزوں کا اختیار ہے ،اسے دیت دی جائے یاقصاص دلایا جائے ۔ "
٭دیت کی ادائیگی : دیت کی ادائیگی کی دو صورتیں ہیں
1 : اگر قاتل نے عمداقتل کیا ہے اور مقتول کے ورثاقصاص کی بجائے دیت لینے پرراضی ہو گئے ہیں تو دیت قاتل خوداداکرے گا ۔
2 :اگر قتل غلطی سے ہوا تھا یا شبہ عمدکی شکل میں تھا تو دیت قاتل کے رشتہ داروں پر ہوں گی ۔
دیت کی مقداراور تعیین : اللہ تعالی نے انسانی جان کے بلاوجہ تلف کرنے پر سخت سزائیں مقررکی ہیں۔ایک انسانی جان کی قدروقیمت اللہ تعالی کے نزدیک کتنی بلندہے اس کا اندازہ اس ارشادبانی سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔( مَنْ قَتَلَ نَفْسًا بِغَيْرِ نَفْسٍ أَوْ فَسَادٍ فِي الْأَرْضِ فَكَأَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِيعًا) (المائدۃ:32)
"جو شخص کسی کو بغیر اس کے وہ کسی کا قاتل ہو یا زمین میں فسادمچانے والا ہو، قتل کرڈالے تو گویا ااس نے تمام لوگوں کوقتل کرڈالا اور جو شخص کسی کی جان بچائے تو اس گویا تمام لوگوں کو زندہ کردیا ۔ "لہذاکسی محترم کو ختم کرنے کی سزا نہایت سخت رکھی گئی ہے لیکن غلطی سے بھی کسی کی جان ضائع کردی جائے یا اس کو زخمی کردیا جائے تو اس پر سزائیں مقرر کردی گئی ہیں مثلا :
1 : اگر مقتول مسلمان آزاد مردتھاتو اس کی دیت سواونٹ ہیں اگر اونٹ میسر نہ ہوں تو ایک ہزارمثقال سونا یا بارہ ہزاردرہم چاندی یا دوگائیں ،یا دوہزاربھیڑبکریاں ادا کی جائیں گی ۔ البتہ غلام شخص کی دیت اس کی قیمت کے برابر ہو گی ۔
2 : بعض انسانی اعضا ایسے ہیں کہ جن کے تلف ہونے کی صورت میں مکمل دیت ادا کرنا پڑتی ہے مثلا عقل کا زائل ہونا ،دونوں کان ،دونوں آنکھیں ،زبان ،ناک،خصیتین کٹنے سے قوت جماع ختم ہو جائے ،ریڑھ کی ہڈی ۔ ان میں کسی ایک کے بے کار ہو جانے پر مکمل شخص کی دیت لاگو ہو گی ۔
3 :مذکورہ بالا اعضا میں سے جو جوڑے ہیں مثلا : دو ہاتھ ،دوکان وغیرہ ان میں سے ایک تلف تو نصف دیت واجب ہو گی ۔
4 :اس کے علاوہ مختلف زخموں کی نوعیت کے لحاظ سے دیت کی مقدارمختلف ہے ۔
سیدنا ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ سیدنا سعد بن عبادہ ؓ نے رسول اللہ ﷺ سے کہا: فرمائیے کہ اگر میں اپنی بیوی کے ساتھ کسی غیر آدمی کو پاؤں تو کیا اسے چھوڑ دوں حتیٰ کہ چار گواہ لاؤں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”ہاں۔“
حدیث حاشیہ:
1: دوسری احادیث میں ہے، رسول اللہ ؐ نے فرمایا دیکھو سعد کس قدر غیرت مند ہے اور میں اس سے زیادی غیرت مند ہوں اور اللہ سب سے بڑھ کر غیرت والا ہے۔ (صحیح البخاري، النکاح، قبل الحدیث:5220، صحیح مسلم:اللعان، حدیث:1498) 2: اس حدیث میں یہ بیان ہوا ہے کہ صاحب ایمان کو اللہ کی حدود پر ٹھہرنے والا ہونا چاہیے نہ ان سے تجاوز کرنے والا۔ اسلام میں انسانی جان کی بہت زیادہ قدراہمیت ہے اور اس قسم کے حادثے میں بھی کسی کو قتل کرنے کی اجازت نہیں بلکہ چار گواہوں یا اقرر ہو تو تن رجم ہو گا۔ اگر گواہ ہوں، نہ عورت کا اقراربلکہ صرف خاوند کا دعوی ہو تو اس صورت میں رجم نہیں ہو گا، بلکہ لعان ہو گا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ سعد بن عبادہ ؓ نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا: بتائیے اگر میں اپنی بیوی کے ساتھ کسی مرد کو پاؤں تو کیا چار گواہ لانے تک اسے مہلت دوں؟ آپ نے فرمایا: ”ہاں۔“
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA): That Sa'd b. 'Ubadah said to the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم): What do you think if I find with my wife a man ; should I give him some time until I bring four witnesses"? He said: "Yes".