باب: جانور لات مارے یا معدنی کان میں کوئی حادثہ ہو جائے
)
Abu-Daud:
Types of Blood-Wit (Kitab Al-Diyat)
(Chapter: No Recompense Is Due For Al-'Ajma' (Beasts), Mines And Wells)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
4593.
سیدنا ابوہریرہ ؓ رسول اللہ ﷺ سے بیان کرتے تھے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: ”جانور کا زخمی کر دینا، معدنی کان میں حادثہ ہو جانا یا کنویں میں گر پڑنا سب ضائع ہیں اور اگر کسی کو کوئی دفینہ ملے تو اس میں خمس ہے۔“ (پانچواں حصہ ادا کرنا شرعی حق ہے)۔ امام ابوداؤد ؓ فرماتے ہیں جانور جب بھاگ گیا ہو اور اس کے ساتھ کوئی نہ ہو اور یہ حادثہ دن کے وقت ہوا ہو رات میں نہ ہوا ہو۔
تشریح:
1: جانور بے شعور اور ناسمجھ مخلوق ہے، اس کے کاٹ کھانے یا لات مار دینے میں اس مالک کا قصور نہیں، الا جب وہ اس کے قریب ہو اور اس کو ضبط رکھنے پر قادر ہو، یا یقین ہو کہ لوگوں کو نقصان پہنچا سکتا ہے اور پھر بھی وہ اسے کھلا چھوڑ دے۔ امام ابو داودؒ کے قوم کا یہی مفہوم ہے۔ 2: مزدور کو جب معلوم ہو کہ اس نے معدنی کان میں کام کرنا ہے۔۔۔۔۔ یا اسی طرح کسی اور جگہ پت چڑھنا ہے اور وہ اپنی رضا مندی سے کام کرے تو اتفاقی حادثہ کی وجہ سے مالک قصوروارنہیں ہو گا۔ 3: اپنی زمین میں کسی نے کنواں کھودا اور کوئی اس میں جا گرے تو مالک کا کوئی قصور نہیں سمجھا جائے گا، بخلاف اس کے کہ کسی عام گزرگاہ پر کھودے یا پھر اس پر باڑا وغیرہ نہ لگائے۔
٭دیت کی لغوی اوراصطلاحی تعریف"الدية"ودٰی فعل کا مصدرہے جس کےمعنی ہیں "خون کی بہا اداکرنا"عرب کہتےہیں :وديت القتل: أي اعطيت ديته"میں نے مقتول مقتول کی دیت اداکی"دیت کو "عقل"بھی کہا جاتاہے"عقل"کےمعنی "باندھنے"کےہیں۔عرب کارواج تھاکہ وہ مقتول کی دیت کےاونٹ اس کےگھر کےصحن میں باندھ دیتےتھے۔ اس لیےدیت کو عقل کہا جانے لگا۔
٭اصطلاحی تعریف یوں کی گئی ہے: (الدية مال يجب بقتل آدمى حرمين دمه أو بجرحه مقدر شرعاً لا باجتهاد)"دیت سےمرادوہ مال ہے جس کی ادائیگی کسی آزادشخص کو قتل کرنے یازخمی کرنے کی صورت میں واجب ہےاور اس کی مقدار شریعت میں مقررہے ،یہ اجتہادی مسئلہ نہیں ہے ۔
٭دیت کی مشروعیت: اللہ تعالی نے مسلمان کے جان ومال کو دوسروں پر محترم قراردیاہے۔ لہذاان دو میں سے کسی ظلم وزیادتی کی صورت میں ہرجانہ اورخون بہا کی صورت میں سزامقررکردی گئی ہے ،ارشاد بانی ہے (وَمَنْ قَتَلَ مُؤْمِنًا خَطَأً فَتَحْرِيرُ رَقَبَةٍ مُؤْمِنَةٍ وَدِيَةٌ مُسَلَّمَةٌ إِلَى أَهْلِهِ)
"اور جس نے مسلمان شخص کو غلطی سے قتل کردیا تو مومن غلام آزادکرے اوراولیاء(مقتول کے ورثا) کودیت ادا کرے ۔ "
رسول اکر م ﷺنے دیت کی مشروعیت بیان کرتے ہوئے فرمایا:[ فَمَنْ قُتِلَ فَهُوَ بِخَيْرِ النَّظَرَيْنِ: إِمَّا أَنْ يُعْقَلَ، وَإِمَّا أَنْ يُقَادَ أَهْلُ القَتِيلِ](صحيح البخارى ،الديات،باب من قتل له قتيل فهو بخير النظرين،حديث:6880)
"جس کا کوئی شخص قتل کردیا جائے اسے دوچیزوں کا اختیار ہے ،اسے دیت دی جائے یاقصاص دلایا جائے ۔ "
٭دیت کی ادائیگی : دیت کی ادائیگی کی دو صورتیں ہیں
1 : اگر قاتل نے عمداقتل کیا ہے اور مقتول کے ورثاقصاص کی بجائے دیت لینے پرراضی ہو گئے ہیں تو دیت قاتل خوداداکرے گا ۔
2 :اگر قتل غلطی سے ہوا تھا یا شبہ عمدکی شکل میں تھا تو دیت قاتل کے رشتہ داروں پر ہوں گی ۔
دیت کی مقداراور تعیین : اللہ تعالی نے انسانی جان کے بلاوجہ تلف کرنے پر سخت سزائیں مقررکی ہیں۔ایک انسانی جان کی قدروقیمت اللہ تعالی کے نزدیک کتنی بلندہے اس کا اندازہ اس ارشادبانی سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔( مَنْ قَتَلَ نَفْسًا بِغَيْرِ نَفْسٍ أَوْ فَسَادٍ فِي الْأَرْضِ فَكَأَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِيعًا) (المائدۃ:32)
"جو شخص کسی کو بغیر اس کے وہ کسی کا قاتل ہو یا زمین میں فسادمچانے والا ہو، قتل کرڈالے تو گویا ااس نے تمام لوگوں کوقتل کرڈالا اور جو شخص کسی کی جان بچائے تو اس گویا تمام لوگوں کو زندہ کردیا ۔ "لہذاکسی محترم کو ختم کرنے کی سزا نہایت سخت رکھی گئی ہے لیکن غلطی سے بھی کسی کی جان ضائع کردی جائے یا اس کو زخمی کردیا جائے تو اس پر سزائیں مقرر کردی گئی ہیں مثلا :
1 : اگر مقتول مسلمان آزاد مردتھاتو اس کی دیت سواونٹ ہیں اگر اونٹ میسر نہ ہوں تو ایک ہزارمثقال سونا یا بارہ ہزاردرہم چاندی یا دوگائیں ،یا دوہزاربھیڑبکریاں ادا کی جائیں گی ۔ البتہ غلام شخص کی دیت اس کی قیمت کے برابر ہو گی ۔
2 : بعض انسانی اعضا ایسے ہیں کہ جن کے تلف ہونے کی صورت میں مکمل دیت ادا کرنا پڑتی ہے مثلا عقل کا زائل ہونا ،دونوں کان ،دونوں آنکھیں ،زبان ،ناک،خصیتین کٹنے سے قوت جماع ختم ہو جائے ،ریڑھ کی ہڈی ۔ ان میں کسی ایک کے بے کار ہو جانے پر مکمل شخص کی دیت لاگو ہو گی ۔
3 :مذکورہ بالا اعضا میں سے جو جوڑے ہیں مثلا : دو ہاتھ ،دوکان وغیرہ ان میں سے ایک تلف تو نصف دیت واجب ہو گی ۔
4 :اس کے علاوہ مختلف زخموں کی نوعیت کے لحاظ سے دیت کی مقدارمختلف ہے ۔
سیدنا ابوہریرہ ؓ رسول اللہ ﷺ سے بیان کرتے تھے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: ”جانور کا زخمی کر دینا، معدنی کان میں حادثہ ہو جانا یا کنویں میں گر پڑنا سب ضائع ہیں اور اگر کسی کو کوئی دفینہ ملے تو اس میں خمس ہے۔“ (پانچواں حصہ ادا کرنا شرعی حق ہے)۔ امام ابوداؤد ؓ فرماتے ہیں جانور جب بھاگ گیا ہو اور اس کے ساتھ کوئی نہ ہو اور یہ حادثہ دن کے وقت ہوا ہو رات میں نہ ہوا ہو۔
حدیث حاشیہ:
1: جانور بے شعور اور ناسمجھ مخلوق ہے، اس کے کاٹ کھانے یا لات مار دینے میں اس مالک کا قصور نہیں، الا جب وہ اس کے قریب ہو اور اس کو ضبط رکھنے پر قادر ہو، یا یقین ہو کہ لوگوں کو نقصان پہنچا سکتا ہے اور پھر بھی وہ اسے کھلا چھوڑ دے۔ امام ابو داودؒ کے قوم کا یہی مفہوم ہے۔ 2: مزدور کو جب معلوم ہو کہ اس نے معدنی کان میں کام کرنا ہے۔۔۔۔۔ یا اسی طرح کسی اور جگہ پت چڑھنا ہے اور وہ اپنی رضا مندی سے کام کرے تو اتفاقی حادثہ کی وجہ سے مالک قصوروارنہیں ہو گا۔ 3: اپنی زمین میں کسی نے کنواں کھودا اور کوئی اس میں جا گرے تو مالک کا کوئی قصور نہیں سمجھا جائے گا، بخلاف اس کے کہ کسی عام گزرگاہ پر کھودے یا پھر اس پر باڑا وغیرہ نہ لگائے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جانور کسی کو زخمی کر دے تو اس میں ہرجانہ نہیں ہے، کان میں ہلاک ہونے والے کا ہرجانہ نہیں ہے اور کنواں میں ہلاک ہو جانے والے کا ہرجانہ نہیں ہے۱؎ اور رکاز میں پانچواں حصہ دینا ہو گا۔“ ابوداؤد کہتے ہیں: جانور سے مراد وہ جانور ہے جو چھڑا کر بھاگ گیا ہو اور اس کے ساتھ کوئی نہ ہو اور دن ہو، رات نہ ہو۔
حدیث حاشیہ:
۱؎: یعنی جانور کسی کو زخمی کر دے یا کان اور کنویں میں گر کر کوئی ہلاک ہو جائے تو ان کے مالکوں پر اس کی دیت نہ ہو گی۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA): The Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) as saying: No retaliation is payable for a wound caused by a dumb animal, for a mine, and for a well. On the treasure found buried in the land there is a fifth. Abu Dawud رحمۃ اللہ علیہ said: A dumb animal means an animal which is free and has not tether, and there is no one (as a watchman) with it. It causes harm by day and not by night.