Abu-Daud:
Prayer (Kitab Al-Salat)
(Chapter: Separating The Women From The Men In The Masjid)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
462.
سیدنا ابن عمر ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ”اگر ہم یہ دروازہ عورتوں کے لیے چھوڑ دیں۔“ (اور مرد اس سے داخل نہ ہوں تو بہت بہتر ہو)۔ نافع کہتے ہیں کہ (یہ ارشاد سننے کے بعد) ابن عمر ؓ مرتے دم تک کبھی اس دروازے سے مسجد میں نہیں آئے۔ عبدالوارث کے علاوہ دیگر راویوں نے اسے سیدنا عمر ؓ کا قول بیان کیا ہے اور یہ زیادہ صحیح ہے۔
تشریح:
1۔ ظاہر ہے کہ جب مسجد جیسے پاکیزہ مقام و ماحول میں بھی عورتوں اور مردوں کے اختلاط کی اجازت نہیں ہے تو دیگر مقامات اور مواقع پر اور زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے۔ 2۔ صاحب عون المعبود لکھتے ہیں کہ یہ حدیث مرفوع اور موقوف دونوں طرح ہوسکتی ہے۔ عبد الوارث ثقہ ہیں۔ اور ان کی زیادت قابل قبول ہے۔
الحکم التفصیلی:
قلت: إسناده صحيح على شرط الشيخين) . إسناده: حدثنا عبد الله بن عمرو أبو معمر: ثنا عبد الوارث: ثنا أيوب عن نافع عن ابن عمر. وقال غير عبد الوارث: قال عمر. وهو أصح.
قلت: وهذا إسناد صحيح على شرط الشيخين. وأعله المصنف بأن غير عبد الوارث رواه موقوفاً على عمر. ثم أخرجه من طريق إسماعيل عن أيوب عن نافع قال : قال عمر بن الخطاب رضي الله عنه بمعناه، قال: وهو أصح . ثم رواه من طريق بكير عن نافع قال: إن عمر بن الخطاب كان ينهى أن يدخل من باب النساء.
قلت: عبد الوارث- وهو ابن سعيد بن ذكوان العنبري مولاهم- ثقة ثبت، وقدرواه مرفوعاً عن ابن عمر؛ فهي زيادة منه يجب قبولها، ورواية غيره عن عمر لا يعله؛ بل لنافع روايتان: الأولى: عن ابن عمر مرفوعاً، وهي هذه. والأخرى: عن عمر موقوفاً، وهي رواية إسماعيل عن أيوب وبكير عن نافع. ولذلك قال في عون المعبود : والأشبه أن يكون الحديث مرفوعاً وموقوفاً، وعبد الوارث ثقة تقبل زيادته، والله أعلم .
قلت: على أن الرواية عن عمر منقطعة؛ ولذلك أوردناها دي الكتاب الآخر (رقم 72) .
’’نماز‘‘ مسلمانوں کے ہاں اللہ عزوجل کی عبادت کا ایک مخصوص انداز ہے اس میں قیام رکوع‘سجدہ‘ اور تشہد میں متعین ذکر اور دعائیں پڑھی جاتی ہیں اس کی ابتدا کلمہ ’’اللہ اکبر‘‘ سے اور انتہا ’’السلام علیکم ور حمۃ اللہ‘‘ سے ہوتی ہے تمام امتوں میں اللہ کی عبادت کے جو طور طریقے رائج تھے یا ابھی تک موجود ہیں ان سب میں سے ہم مسلمانوں کی نماز ‘انتہائی عمدہ خوبصورت اور کامل عبادت ہے ۔بندے کی بندگی کا عجزہ اور رب ذوالجلال کی عظمت کا جو اظہار اس طریق عبادت میں ہے ‘کسی اور میں دکھائی نہیں دیتا۔ اسلام میں بھی اس کے مقابلے کی اور کوئی عباد نہیں ہے یہ ایک ایساستون ہے جس پر دین کی پوری عمارت کڑی ہوتی ہے ‘ اگر یہ گر جائے تو پوری عمار گر جاتی ہے سب سے پہلے اسی عباد کا حکم دیا گیا اور شب معراج میں اللہ عزوجل نے اپنے رسول کو بلا واسطہ براہ راست خطاب سے اس کا حکم دیا اور پھر جبرئیل امین نے نبئ کریم ﷺ کو دوبار امامت کرائی اور اس کی تمام تر جزئیات سے آپ کو عملاً آگاہ فرمایا اور آپ نے بھی جس تفصیل سے نماز کے احکام و آداب بیان کیے ہیں کسی اور عبادت کے اس طرح بیان نہیں کیے۔قیامت کے روز بھی سب سے پہلے نماز ہی کا حساب ہو گا جس کی نماز درست اور صحیح نکلی اس کے باقی اعمال بھی صحیح ہو جائیں گے اور اگر یہی خراب نکلی تو باقی اعمال بھی برباد ہو جائیں گے رسول اللہ ﷺ اپنی ساری زندگی نماز کی تعلیم و تا کید فرماتے رہے حتی کہ دنیا سے کوچ کے آخری لمحات میں بھی ’’نماز ‘نماز‘‘ کی وصیت آپ کی زبان مبارک پر تھی آپ نے امت کو متنبہ فرمایا کہ اسلام ایک ایک کڑی کر ک ٹوٹتا اور کھلتا چلا جائے گا ‘ جب ایک کڑی ٹوٹے گی تو لوگ دوسری میں مبتلا ہو جائیں گے اور سب سے آخر میں نماز بھی چھوٹ جائے گی ۔۔(موارد الظمآ ن : 1/401‘حدیث 257 الی زوائد ابن حبان)
قرآن مجید کی سیکڑوں آیات اس کی فرضیت اور اہمیت بیان کرتی ہیں سفر ‘حضر‘صحت‘مرض ‘امن اور خوف ‘ہر حال میں نماز فرض ہے اور اس کے آداب بیان کیے گئے ہیں نماز میں کوتاہی کر نے والو کے متعلق قرآن مجید اور احادیث میں بڑی سخت وعید سنائی گئی ہیں۔
امام ابوداود نے اس کتاب میں نماز کے مسائل بڑی تفصیل سے بیان فرمائے ہیں۔
سیدنا ابن عمر ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ”اگر ہم یہ دروازہ عورتوں کے لیے چھوڑ دیں۔“ (اور مرد اس سے داخل نہ ہوں تو بہت بہتر ہو)۔ نافع کہتے ہیں کہ (یہ ارشاد سننے کے بعد) ابن عمر ؓ مرتے دم تک کبھی اس دروازے سے مسجد میں نہیں آئے۔ عبدالوارث کے علاوہ دیگر راویوں نے اسے سیدنا عمر ؓ کا قول بیان کیا ہے اور یہ زیادہ صحیح ہے۔
حدیث حاشیہ:
1۔ ظاہر ہے کہ جب مسجد جیسے پاکیزہ مقام و ماحول میں بھی عورتوں اور مردوں کے اختلاط کی اجازت نہیں ہے تو دیگر مقامات اور مواقع پر اور زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے۔ 2۔ صاحب عون المعبود لکھتے ہیں کہ یہ حدیث مرفوع اور موقوف دونوں طرح ہوسکتی ہے۔ عبد الوارث ثقہ ہیں۔ اور ان کی زیادت قابل قبول ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ بن عمر ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اگر ہم اس دروازے کو عورتوں کے لیے چھوڑ دیں (تو بہتر ہے)“۱؎۔ نافع کہتے ہیں: تو ابن عمر ؓ تاحیات اس دروازے سے مسجد میں داخل نہیں ہوئے۔ عبدالوارث کے علاوہ دوسرے لوگ کہتے ہیں کہ (رسول اللہ ﷺ کے بجائے) یہ عمر ؓ کا قول ہے اور یہی زیادہ صحیح ہے۔
حدیث حاشیہ:
۱؎: کیونکہ اس سے مسجد میں آنے جانے میں عورتوں کا مردوں سے اختلاط اور میل جول نہیں ہو گا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Ibn 'Umar (RA) reported the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) as saying: If we left this door for women (it would have been better). Nafi' said: Ibn 'Umar did not enter (the door) until his death. The other except 'Abd al-Warith said: This was said by 'Umar (RA) (and not by Ibn 'Umar (RA)) and that is more correct.