Abu-Daud:
Prayer (Kitab Al-Salat)
(Chapter: Separating The Women From The Men In The Masjid)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
463.
جناب نافع نے کہا کہ سیدنا عمر ؓ نے فرمایا اور مذکورہ بالا حدیث کے ہم معنی بیان کیا۔ اور یہ (زیادت یعنی سیدنا عمر ؓ کا قول ہونا) زیادہ صحیح ہے۔
تشریح:
الحکم التفصیلی:
(قلت: يعني: بمعنى حديث قبله، رواه من طريق نافع أيضاً عن ابن عمر قال: قال رسول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : لو تركنا هذا الباب للنساء . وإسناده صحيح؛ وإن رجح المصنف هذا الموقوف عليه، ولذلك أوردناه في الكتاب الآخر (رقم (483) . وأما هذا فهو معلول؛ قال أحمد بن حنبل: نافع عن عمر منقطع . وبهذا أعله المنذري في مختصره ) . إسناده: حدثنا محمد بن قُدامة بن أعْين. ثنا إسماعيل عن أيوب عن نافع.
قلت: وهذا إسناد ضعيف، رجاله كلهم ثقات؛ لكنه منقطع لما ذكرنا آنفا. وأخرجه البخاري في التاريخ الكبير من طريق رجل عن محمد بن أبي حكِيمٍ سمع ابن عمرعن عمرقال: لا تدخلوا المسجد من باب النساء. وهذا إسناد مجهول، كما بينته في الضعيفة (5981) . وله طريق أخرى عن ابن عمر... مرفوعاً نحوه. لكن إسناده واه، كما بينته هناك.
’’نماز‘‘ مسلمانوں کے ہاں اللہ عزوجل کی عبادت کا ایک مخصوص انداز ہے اس میں قیام رکوع‘سجدہ‘ اور تشہد میں متعین ذکر اور دعائیں پڑھی جاتی ہیں اس کی ابتدا کلمہ ’’اللہ اکبر‘‘ سے اور انتہا ’’السلام علیکم ور حمۃ اللہ‘‘ سے ہوتی ہے تمام امتوں میں اللہ کی عبادت کے جو طور طریقے رائج تھے یا ابھی تک موجود ہیں ان سب میں سے ہم مسلمانوں کی نماز ‘انتہائی عمدہ خوبصورت اور کامل عبادت ہے ۔بندے کی بندگی کا عجزہ اور رب ذوالجلال کی عظمت کا جو اظہار اس طریق عبادت میں ہے ‘کسی اور میں دکھائی نہیں دیتا۔ اسلام میں بھی اس کے مقابلے کی اور کوئی عباد نہیں ہے یہ ایک ایساستون ہے جس پر دین کی پوری عمارت کڑی ہوتی ہے ‘ اگر یہ گر جائے تو پوری عمار گر جاتی ہے سب سے پہلے اسی عباد کا حکم دیا گیا اور شب معراج میں اللہ عزوجل نے اپنے رسول کو بلا واسطہ براہ راست خطاب سے اس کا حکم دیا اور پھر جبرئیل امین نے نبئ کریم ﷺ کو دوبار امامت کرائی اور اس کی تمام تر جزئیات سے آپ کو عملاً آگاہ فرمایا اور آپ نے بھی جس تفصیل سے نماز کے احکام و آداب بیان کیے ہیں کسی اور عبادت کے اس طرح بیان نہیں کیے۔قیامت کے روز بھی سب سے پہلے نماز ہی کا حساب ہو گا جس کی نماز درست اور صحیح نکلی اس کے باقی اعمال بھی صحیح ہو جائیں گے اور اگر یہی خراب نکلی تو باقی اعمال بھی برباد ہو جائیں گے رسول اللہ ﷺ اپنی ساری زندگی نماز کی تعلیم و تا کید فرماتے رہے حتی کہ دنیا سے کوچ کے آخری لمحات میں بھی ’’نماز ‘نماز‘‘ کی وصیت آپ کی زبان مبارک پر تھی آپ نے امت کو متنبہ فرمایا کہ اسلام ایک ایک کڑی کر ک ٹوٹتا اور کھلتا چلا جائے گا ‘ جب ایک کڑی ٹوٹے گی تو لوگ دوسری میں مبتلا ہو جائیں گے اور سب سے آخر میں نماز بھی چھوٹ جائے گی ۔۔(موارد الظمآ ن : 1/401‘حدیث 257 الی زوائد ابن حبان)
قرآن مجید کی سیکڑوں آیات اس کی فرضیت اور اہمیت بیان کرتی ہیں سفر ‘حضر‘صحت‘مرض ‘امن اور خوف ‘ہر حال میں نماز فرض ہے اور اس کے آداب بیان کیے گئے ہیں نماز میں کوتاہی کر نے والو کے متعلق قرآن مجید اور احادیث میں بڑی سخت وعید سنائی گئی ہیں۔
امام ابوداود نے اس کتاب میں نماز کے مسائل بڑی تفصیل سے بیان فرمائے ہیں۔
جناب نافع نے کہا کہ سیدنا عمر ؓ نے فرمایا اور مذکورہ بالا حدیث کے ہم معنی بیان کیا۔ اور یہ (زیادت یعنی سیدنا عمر ؓ کا قول ہونا) زیادہ صحیح ہے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
نافع سے روایت ہے کہ عمر بن خطاب ؓ نے یہ بات کہی اور یہی زیادہ صحیح ہے۱؎۔
حدیث حاشیہ:
۱؎: یعنی یہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا اپنا قول ہے، یہی صحیح روایت ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
This tradition has been reported by 'Umar (RA) b. al-Khattab through a different chain of narrators. He narrated it to the same effect and that is more correct.