Abu-Daud:
Prayer (Kitab Al-Salat)
(Chapter: What A Person Should Say When He Enters The Masjid)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
466.
جناب حیوہ بن شریح کہتے ہیں کہ میں عقبہ بن مسلم سے ملا اور ان سے کہا کہ مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ آپ سیدنا عبداللہ بن عمرو بن العاص ؓ کی سند سے نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ ﷺ جب مسجد میں داخل ہوتے تو کہا کرتے تھے : «أَعُوذُ بِاللَّهِ الْعَظِيمِ، وَبِوَجْهِهِ الْكَرِيمِ، وَسُلْطَانِهِ الْقَدِيمِ، مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ» ”میں شیطان مردود کے شر سے اللہ کی پناہ چاہتا ہوں جو انتہائی عظمت والا ہے، میں اس کے انتہائی محترم چہرے کی پناہ لیتا ہوں اور اس کے سلطان قدیم کی پناہ لیتا ہوں۔“ کہا بس اتنا ہی؟ میں نے کہا: ہاں۔ کہا کہ انسان جب یہ کہہ لیتا ہے تو ابلیس کہتا ہے کہ آج سارے دن کیلئے یہ مجھ سے محفوظ ہو گیا۔
تشریح:
الحکم التفصیلی:
عن حَيْوة بن شريح قال: لَقِيث عقْبةَ بنَ مسلم، فقلت له: بلغني أنك حَدّثْتَ عن عبد الله بن عمرو بن العاص عن النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أنه كان إذا دخل المسجد قال: أعوذ بالله العظيم، وبوجهه الكريم، وبسلطانه القديم من الشيطان الرجيم ؟! قال: آقَطْ ؟ قلت: نعم. قال: فإذا قال ذلك؛ قال الشيطان: حُفِظ منِّي سائرَ اليوم . (قلت: إسناده صحيح، وقال النووي: حديث حسن، إسناده جيد! ) . إسناده: حدثنا إسماعيل بن بشر بن منصور: ثنا عبد الرحمن بن مهدي عن عبد الله بن المبارك عن حيوة بن شريح.
قلت: وهذا إسناد صحيح، رجاله كلهم ثقات؛ وقوّاه النووي كما ذكرنا آنفاً، وهو في الأذكار له. والحديث من أفراد المؤلف رحمه الله. ووهم الحافظ ابن كثير رحمه الله؛ حيث عزاه في تفسيره (3/293) لى صحيح البخاري !
’’نماز‘‘ مسلمانوں کے ہاں اللہ عزوجل کی عبادت کا ایک مخصوص انداز ہے اس میں قیام رکوع‘سجدہ‘ اور تشہد میں متعین ذکر اور دعائیں پڑھی جاتی ہیں اس کی ابتدا کلمہ ’’اللہ اکبر‘‘ سے اور انتہا ’’السلام علیکم ور حمۃ اللہ‘‘ سے ہوتی ہے تمام امتوں میں اللہ کی عبادت کے جو طور طریقے رائج تھے یا ابھی تک موجود ہیں ان سب میں سے ہم مسلمانوں کی نماز ‘انتہائی عمدہ خوبصورت اور کامل عبادت ہے ۔بندے کی بندگی کا عجزہ اور رب ذوالجلال کی عظمت کا جو اظہار اس طریق عبادت میں ہے ‘کسی اور میں دکھائی نہیں دیتا۔ اسلام میں بھی اس کے مقابلے کی اور کوئی عباد نہیں ہے یہ ایک ایساستون ہے جس پر دین کی پوری عمارت کڑی ہوتی ہے ‘ اگر یہ گر جائے تو پوری عمار گر جاتی ہے سب سے پہلے اسی عباد کا حکم دیا گیا اور شب معراج میں اللہ عزوجل نے اپنے رسول کو بلا واسطہ براہ راست خطاب سے اس کا حکم دیا اور پھر جبرئیل امین نے نبئ کریم ﷺ کو دوبار امامت کرائی اور اس کی تمام تر جزئیات سے آپ کو عملاً آگاہ فرمایا اور آپ نے بھی جس تفصیل سے نماز کے احکام و آداب بیان کیے ہیں کسی اور عبادت کے اس طرح بیان نہیں کیے۔قیامت کے روز بھی سب سے پہلے نماز ہی کا حساب ہو گا جس کی نماز درست اور صحیح نکلی اس کے باقی اعمال بھی صحیح ہو جائیں گے اور اگر یہی خراب نکلی تو باقی اعمال بھی برباد ہو جائیں گے رسول اللہ ﷺ اپنی ساری زندگی نماز کی تعلیم و تا کید فرماتے رہے حتی کہ دنیا سے کوچ کے آخری لمحات میں بھی ’’نماز ‘نماز‘‘ کی وصیت آپ کی زبان مبارک پر تھی آپ نے امت کو متنبہ فرمایا کہ اسلام ایک ایک کڑی کر ک ٹوٹتا اور کھلتا چلا جائے گا ‘ جب ایک کڑی ٹوٹے گی تو لوگ دوسری میں مبتلا ہو جائیں گے اور سب سے آخر میں نماز بھی چھوٹ جائے گی ۔۔(موارد الظمآ ن : 1/401‘حدیث 257 الی زوائد ابن حبان)
قرآن مجید کی سیکڑوں آیات اس کی فرضیت اور اہمیت بیان کرتی ہیں سفر ‘حضر‘صحت‘مرض ‘امن اور خوف ‘ہر حال میں نماز فرض ہے اور اس کے آداب بیان کیے گئے ہیں نماز میں کوتاہی کر نے والو کے متعلق قرآن مجید اور احادیث میں بڑی سخت وعید سنائی گئی ہیں۔
امام ابوداود نے اس کتاب میں نماز کے مسائل بڑی تفصیل سے بیان فرمائے ہیں۔
جناب حیوہ بن شریح کہتے ہیں کہ میں عقبہ بن مسلم سے ملا اور ان سے کہا کہ مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ آپ سیدنا عبداللہ بن عمرو بن العاص ؓ کی سند سے نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ ﷺ جب مسجد میں داخل ہوتے تو کہا کرتے تھے : «أَعُوذُ بِاللَّهِ الْعَظِيمِ، وَبِوَجْهِهِ الْكَرِيمِ، وَسُلْطَانِهِ الْقَدِيمِ، مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ» ”میں شیطان مردود کے شر سے اللہ کی پناہ چاہتا ہوں جو انتہائی عظمت والا ہے، میں اس کے انتہائی محترم چہرے کی پناہ لیتا ہوں اور اس کے سلطان قدیم کی پناہ لیتا ہوں۔“ کہا بس اتنا ہی؟ میں نے کہا: ہاں۔ کہا کہ انسان جب یہ کہہ لیتا ہے تو ابلیس کہتا ہے کہ آج سارے دن کیلئے یہ مجھ سے محفوظ ہو گیا۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حیوہ بن شریح کہتے ہیں کہ میں عقبہ بن مسلم سے ملا تو میں نے ان سے کہا: مجھے یہ خبر پہنچی ہے کہ آپ نے عبداللہ بن عمرو بن العاص ؓ سے اور انہوں نے نبی اکرم ﷺ سے روایت کی ہے کہ آپ ﷺ جب مسجد میں تشریف لے جاتے تو فرماتے: «أَعُوذُ بِاللَّهِ الْعَظِيمِ، وَبِوَجْهِهِ الْكَرِيمِ، وَسُلْطَانِهِ الْقَدِيمِ، مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ» (میں اللہ عظیم کی، اس کی ذات کریم کی اور اس کی قدیم بادشاہت کی مردود شیطان سے پناہ چاہتا ہوں) تو عقبہ نے کہا: کیا بس اتنا ہی؟ میں نے کہا: ہاں، انہوں نے کہا: جب مسجد میں داخل ہونے والا آدمی یہ کہتا ہے تو شیطان کہتا ہے: اب وہ میرے شر سے دن بھر کے لیے محفوظ کر لیا گیا۔
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Haiwah b. Shuraih (RA) reported: I met ‘Uqbah b. Muslim (RA) and said to him: it has been reported to me that someone has narrated to you from the prophet (صلی اللہ علیہ وسلم) that when he entered the mosque, he would say: I seek refuge in Allah, the Magnificent, and in His noble face, and in his eternal domain, from the accursed Devil. He asked: is it so much only? I said: Yes. He said: when anyone says so. The devil says: he is protected from me all the day long.