Abu-Daud:
Model Behavior of the Prophet (Kitab Al-Sunnah)
(Chapter: Refutation Of The Murji'ah)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
4678.
سیدنا جابر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”بندے اور کفر کے درمیان فرق نماز چھوڑ دینا ہے۔“
تشریح:
معلوم ہوا کہ عمل ایمان کا حصہ ہے، علامہ خطابی ؒ نے لکھا ہے کہ نماز چھوڑنے کی تین صورتیں ہیں: 1: مطلقا نماز کا انکار کرنا، یعنی یہ سمجھنا کہ دین کا کوئی حصہ نہیں، یہ عقیدہ اجماعی طور پر صریح کفر ہے، بلکہ اس طرح سے دین میں ثابت کسی بھی چیز کا انکار کفر ہے۔ 2: غفلت اور بھول سے نماز چھوڑ دینا، آدمی بہ اجماع امت کا فر نہیں۔ عمدًا نماز چھوڑے رہنا مگر انکار بھی نہ کرنا، ایسے شخص کے بارے میں ائمہ کا ختلاف ہے۔ ابراہیم نخعی، ابن مبارک، احمد بن حنبل اور اسحاق بن راہویہ کا یہ قول ہے کہ بلا ناغہ عمدًا تارک صلاۃ حتی کہ اس کا وقت نکل جائے، کافر ہے۔ امام احمد کا کہنا ہے کہ ہم تارک صلاۃ کے سوا کسی کو کسی گناہ پر کافر نہیں کہتے۔ زیادہ سخت موقف امام مکحول اور امام شافعی کا ہے کہ تارک صلاۃ کو اسی طرح قتل کیا جائے جیسے کافر کو کیا جاتا ہے، لیکن اس سبب سے وہ ملت سے خارج نہیں ہوتا۔ مسلمانوں کے قبرستان میں دفن ہو گا۔ اس کے اہل اس کے وارث ہوں گے۔ امام شافعی ؒؒ کے کئی اصحاب نے کہا کہ اس کا جنازہ نہ پڑھاجائے۔ امام ابو حنیفہ ؒ اور ان کے اصحاب کا کہنا ہے کہ تارک صلاۃ کو قید کیا جائے اور جسمانی سزا دی جائے حتی کہ وہ نماز پڑھنےلگے۔
عربی لغت میں سنت طریق کو کہتے ہیں محدثین اور علمائے اصول کے نزدیک سنت سے مراد "رسول اللہ ﷺکے اقوال ،اعمال ،تقریرات اور جو کچھ آپ نے کرنے کا ارادہ فرمایا نیزوہ سب کچھ بھی شامل ہے جو آپ ؐ کی طرف سے (امت تک ) پہنچا "۔فتح الباری‘کتاب الاعتصام بالسنۃ
"كتاب السنةايك جامع باب ہے جس میں عقائد اوراعمال دونوں میں رسول ﷺکی پیروی کی اہمیت واضح کی گئی ہے ،رسول ﷺ اور خلفائے راشدین کے بعد واعمال میں جو بھی انحراف سامنے آیا تھا اس کی تفصیلات اور اس حوالے سےرسول ﷺکے اختیار کردی طریق کی وضاحت بیان کی گئی ہے اس کتاب کے موضوعات میں سنت اور اس پیروی ،دعوت الی السنۃ اور اس کا اجر ،امت کا اتفاق واتحاداور وہ فتنےجن سےیہ اتفاق انتشار میں بدلا شامل ہیں ، عقائد ونظریات میں جو انحراف آیااس کے اسباب کا بھی اچھی جائزہ لیا گیا اور منحرف نظریات کے معاملے میں صحیح عقائد کی وضاحت کی گئی ہے۔ یہ نظریاتی انحراف صحابہ کے درمیان تفصیل مسئلہ خلافت کے حوالے سے اختلاف ،حکمرانوں کی آمریت اور سرکشی سے پیدا ہوا اور آہستہ آہستہ ،فتنہ پردازوں نے ایمان ،تقدیر ،صفات باری تعالی ،حشر ونشر ،میزان،شفاعت ،جنت ،دوزخ حتی کہ قرآن کے حوالے سے لوگوں میں شکوک وشبہات پیداکرنے کی کوشش کی ۔
امام ابوداودؒ نے اپنی کتاب کے اس حصے میں ان تمام موضوعات کے حوالے سے صحیح عقائد اور رسول ﷺکی تعلیمات کو پیش کیا ۔ ان فتنوں کے استیصال کا کام محدثین ہی کا کارنامہ ہے ۔ محدثین کے علاوہ دوسر ے علما وقفہاء نے اس میدان میں اس انداز سے کام نہیں کیا بلکہ مختلف فقہی مکاتب فکر کے لوگ خصوصااپنی رائے اور عقل پر اعتماد کرنے والے حضرات خود ان کے فتنوں کا شکار ہو گئے
ابو داودکی "كتاب السنة "اور دیگر محدثین کے متعلقہ ابواب کا مطالعہ کرنے سے پتہ چلتاہے کہ جامعیت کے ساتھ محدثین نے ہر میدان میں کس طرح رہنمائی مہیاکی اور اہل یہود کے حملوں سے اسلام کا دفاع کیا ۔ انہوں نےمحض شرعی اور فقہی امور تک اپنی توجہ محدود نہیں رکھی بلکہ اسلام کے ہر پہلو اور دفاع عن الاسلام کے ہرمیدان میں کمر بستہ رہے ۔
تمہید باب
مرجیۂ سے مراد وہ لوگ ہیں جن کا نظریہ یہ رہا ہے کہ اعمال صالحہ ایمان میں داخل نہیں اور کلمہ توحید ورسالت ادا کرلینے کے بعد کسی گناہ کا کوئی نقصان نہیں اور مرتکب کبیرہ کا معاملہ آخرت تک مؤخر ہے ۔ دنیا میں ان کے بارے میں نہیں کہا جا سکتا کہ و ہ جنتی ہے یا دوزخی ۔ ان میں سے بعض نے کہا کہ ایمان کم وپیش نہیں ہوتا او ر کچھ نے کہا کہ ایمان بڑھتاہے لیکن کم نہیں ہوتا ۔ بعض نے کہا کہ اللہ عزوجل انسانی صورت پر ہے اور تقدیر کا خیر وشرہونابندے کی طرف سے ہے ۔
سیدنا جابر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”بندے اور کفر کے درمیان فرق نماز چھوڑ دینا ہے۔“
حدیث حاشیہ:
معلوم ہوا کہ عمل ایمان کا حصہ ہے، علامہ خطابی ؒ نے لکھا ہے کہ نماز چھوڑنے کی تین صورتیں ہیں: 1: مطلقا نماز کا انکار کرنا، یعنی یہ سمجھنا کہ دین کا کوئی حصہ نہیں، یہ عقیدہ اجماعی طور پر صریح کفر ہے، بلکہ اس طرح سے دین میں ثابت کسی بھی چیز کا انکار کفر ہے۔ 2: غفلت اور بھول سے نماز چھوڑ دینا، آدمی بہ اجماع امت کا فر نہیں۔ عمدًا نماز چھوڑے رہنا مگر انکار بھی نہ کرنا، ایسے شخص کے بارے میں ائمہ کا ختلاف ہے۔ ابراہیم نخعی، ابن مبارک، احمد بن حنبل اور اسحاق بن راہویہ کا یہ قول ہے کہ بلا ناغہ عمدًا تارک صلاۃ حتی کہ اس کا وقت نکل جائے، کافر ہے۔ امام احمد کا کہنا ہے کہ ہم تارک صلاۃ کے سوا کسی کو کسی گناہ پر کافر نہیں کہتے۔ زیادہ سخت موقف امام مکحول اور امام شافعی کا ہے کہ تارک صلاۃ کو اسی طرح قتل کیا جائے جیسے کافر کو کیا جاتا ہے، لیکن اس سبب سے وہ ملت سے خارج نہیں ہوتا۔ مسلمانوں کے قبرستان میں دفن ہو گا۔ اس کے اہل اس کے وارث ہوں گے۔ امام شافعی ؒؒ کے کئی اصحاب نے کہا کہ اس کا جنازہ نہ پڑھاجائے۔ امام ابو حنیفہ ؒ اور ان کے اصحاب کا کہنا ہے کہ تارک صلاۃ کو قید کیا جائے اور جسمانی سزا دی جائے حتی کہ وہ نماز پڑھنےلگے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
جابر ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”بندے اور کفر کے درمیان حد فاصل نماز کا ترک کرنا ہے۱؎۔“
حدیث حاشیہ:
۱؎: یعنی کفر اور بندے میں نماز حد فاصل ہے، اگر نماز ادا کرتا ہے تو صاحب ایمان ہے، نہیں ادا کرتا ہے تو کافر ہے، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کسی عمل کے ترک کو کفر نہیں خیال کرتے تھے سوائے نماز کے، عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ’’نماز کا ترک کرنا کفر ہے۔‘‘ عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: اس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں جو نماز چھوڑ دے، امام شافعی رحمہ اللہ کہتے ہیں: تارک نماز مرتد ہے، اگرچہ دین سے خارج نہیں ہوتا، اصحاب الرائے کا مذہب ہے کہ اس کو قید کیا جائے تاوقتیکہ نماز پڑھنے لگے، امام احمد بن حنبل، اور امام اسحاق بن راہویہ، اور ائمہ کی ایک بڑی جماعت تارک نماز کو کافر کہتی ہے، اس لئے ہر مسلمان کو اپنے ایمان کی حفاظت کے لئے نماز کا سخت اہتمام کرنا چاہئے، اور عام لوگوں میں اس عظیم عبادت، اور اسلامی رکن کی اہمیت کی تبلیغ کرنی چاہئے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Jabir reported the Messenger of Allah (May peace be upon him) as saying : Between a servant and unbelief there is the abandonment of prayer.