Abu-Daud:
Prayer (Kitab Al-Salat)
(Chapter: The Virtue Of Sitting In The Masjid)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
470.
سیدنا ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جب تک بندے کو نماز (مسجد میں) روکے رکھے وہ (گویا) نماز میں ہوتا ہے (بشرطیکہ) اسے اپنے اہل میں لوٹنے سے روکنے والی صرف نماز ہی ہو۔“
تشریح:
یعنی مسجد میں رکنا صرف نماز اور اذکار کے لئے ہو نہ کہ کسی اور غرض سے۔
الحکم التفصیلی:
عن أبي هريرة: أن رسول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قال: لا يزال أحدُكم في صلاةِ؛ ما كانتِ الصلاةُ تَحْبِسُهُ، لا يَمْنَعُه أن ينقَلِبَ إلى أهلِهِ إلا الصلاة . (قلت: إسناده صحيح على شرطهما. وقد أخرجه البخاري بإسناد المصنف، ورواه مسلم أيضا وأبو عوانة في صحيحيهما ) . إسناده: حدثنا القعنبي عن مالك عن أبي الزناد عن الأعرج عن أبي هريرة.
قلت: وهذا إسناد صحيح على شرطهما. والحديث أخرجه البخاري (2/112- 113) ... بإسناد المصنف؛ لكنه قرنه بالحديث الذي قبله، وجعلهما حديثاً واحداً. وهو في الموطَّأ (1/175) مفرقاً. قال الحافظ: قوله: لا يزال أحدكم ؛ هذا القدر أفرده مالك في الموطأ عما قبله، وأكثر الرواة ضموه إلى الأول، فجعلوه حديثاً واحداً، ولا حَجْرَ في ذلك .
قلت: وكذلك أخرجه أبو عوانة (2/22) من طريق ابن وهب والقعنبي عن مالك؛ مضموماً إلى الأول. وأخرجه مسلم (2/129) ؛ هذا القدر وحده. ومما ذكرنا؛ تعلم أن عزو المنذري الحديث لمسلم وحده! قصور أو دْهول!
’’نماز‘‘ مسلمانوں کے ہاں اللہ عزوجل کی عبادت کا ایک مخصوص انداز ہے اس میں قیام رکوع‘سجدہ‘ اور تشہد میں متعین ذکر اور دعائیں پڑھی جاتی ہیں اس کی ابتدا کلمہ ’’اللہ اکبر‘‘ سے اور انتہا ’’السلام علیکم ور حمۃ اللہ‘‘ سے ہوتی ہے تمام امتوں میں اللہ کی عبادت کے جو طور طریقے رائج تھے یا ابھی تک موجود ہیں ان سب میں سے ہم مسلمانوں کی نماز ‘انتہائی عمدہ خوبصورت اور کامل عبادت ہے ۔بندے کی بندگی کا عجزہ اور رب ذوالجلال کی عظمت کا جو اظہار اس طریق عبادت میں ہے ‘کسی اور میں دکھائی نہیں دیتا۔ اسلام میں بھی اس کے مقابلے کی اور کوئی عباد نہیں ہے یہ ایک ایساستون ہے جس پر دین کی پوری عمارت کڑی ہوتی ہے ‘ اگر یہ گر جائے تو پوری عمار گر جاتی ہے سب سے پہلے اسی عباد کا حکم دیا گیا اور شب معراج میں اللہ عزوجل نے اپنے رسول کو بلا واسطہ براہ راست خطاب سے اس کا حکم دیا اور پھر جبرئیل امین نے نبئ کریم ﷺ کو دوبار امامت کرائی اور اس کی تمام تر جزئیات سے آپ کو عملاً آگاہ فرمایا اور آپ نے بھی جس تفصیل سے نماز کے احکام و آداب بیان کیے ہیں کسی اور عبادت کے اس طرح بیان نہیں کیے۔قیامت کے روز بھی سب سے پہلے نماز ہی کا حساب ہو گا جس کی نماز درست اور صحیح نکلی اس کے باقی اعمال بھی صحیح ہو جائیں گے اور اگر یہی خراب نکلی تو باقی اعمال بھی برباد ہو جائیں گے رسول اللہ ﷺ اپنی ساری زندگی نماز کی تعلیم و تا کید فرماتے رہے حتی کہ دنیا سے کوچ کے آخری لمحات میں بھی ’’نماز ‘نماز‘‘ کی وصیت آپ کی زبان مبارک پر تھی آپ نے امت کو متنبہ فرمایا کہ اسلام ایک ایک کڑی کر ک ٹوٹتا اور کھلتا چلا جائے گا ‘ جب ایک کڑی ٹوٹے گی تو لوگ دوسری میں مبتلا ہو جائیں گے اور سب سے آخر میں نماز بھی چھوٹ جائے گی ۔۔(موارد الظمآ ن : 1/401‘حدیث 257 الی زوائد ابن حبان)
قرآن مجید کی سیکڑوں آیات اس کی فرضیت اور اہمیت بیان کرتی ہیں سفر ‘حضر‘صحت‘مرض ‘امن اور خوف ‘ہر حال میں نماز فرض ہے اور اس کے آداب بیان کیے گئے ہیں نماز میں کوتاہی کر نے والو کے متعلق قرآن مجید اور احادیث میں بڑی سخت وعید سنائی گئی ہیں۔
امام ابوداود نے اس کتاب میں نماز کے مسائل بڑی تفصیل سے بیان فرمائے ہیں۔
سیدنا ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جب تک بندے کو نماز (مسجد میں) روکے رکھے وہ (گویا) نماز میں ہوتا ہے (بشرطیکہ) اسے اپنے اہل میں لوٹنے سے روکنے والی صرف نماز ہی ہو۔“
حدیث حاشیہ:
یعنی مسجد میں رکنا صرف نماز اور اذکار کے لئے ہو نہ کہ کسی اور غرض سے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
اسی سند سے ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”تم میں سے ہر ایک شخص برابر نماز ہی میں رہتا ہے جب تک نماز اس کو روکے رہے یعنی اپنے گھر والوں کے پاس واپس جانے سے اسے نماز کے علاوہ کوئی اور چیز نہ روکے۔“
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Abu Hurairah (RA) reported the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) as saying; one is considered to be at prayer so long as one is detained by prayer: Nothing prevents one from going home to one’s family except prayer.