Abu-Daud:
Model Behavior of the Prophet (Kitab Al-Sunnah)
(Chapter: The Offspring Of Polytheists)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
4712.
ام المؤمنین سیدہ عائشہ ؓ کہتی ہیں کہ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! مومنوں کی اولادوں کا کیا انجام ہو گا؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا: ”وہ اپنے آباء میں سے ہیں۔“ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! عمل کے بغیر ہی؟ فرمایا: ”اللہ کو خوب علم ہے کہ وہ کیا عمل کرنے والے تھے۔“ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! مشرکوں کی اولادوں کا انجام کیا ہو گا؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”وہ اپنے آباء میں سے ہیں۔“ میں نے کہا: عمل کے بغیر ہی؟ فرمایا: ”اللہ کو بہتر علم ہے جو وہ عمل کرنے والے تھے۔“
تشریح:
بچوں کا کیا انجام ہوگا؟ یہ قابل غور مسئلہ ہے۔ وہ فطرت اسلام پر پیدا ہوتے ہیں، چاہے مسلمان کے گھر پیدا ہوں چاہے کا فر کے۔ (صحيح البخاري، كتاب التفسير، سورة الروم‘ باب (لاتبديل الخلق الله، حديث:٤٧٧٥) كفار اپنے بچوں کو اپنے دین کے مطابق ڈھال کر کافر بنا لیتے ہیں، اس باب کی احادیث٤٧١٤ اور٤٧١٦ سے یہ حقیقت واضح ہے۔ غیر مسلموں اور مشرکوں کے بچے سن تمیز سے پہلے فوت ہو جائیں اور ان کے والدین کا فر ہوں تو دنیا میں ان کا حکم کافروں کا ہو گا، انہیں نہ غسل دیا جائے گا نہ کفن دیا جائے گا، نہ جنازہ پڑھا جائے گا او ر نہ ہی انہیں مسلمانوں کے ساتھ دفن کیا جائے گا، کیونکہ وہ اپنے والدین کے ساتھ ہی کافر ہیں اور آخرت میں ان کا معاملہ اللہ تعالی کے سپرد ہے، صحیح حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے جب مشرکوں کے بچوں کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ ؐ نے فرمایا: (الله أعلم بما کانوا عاملین)(صحیح البخاري، القدر، باب الله أعلم بما کانوا عاملین، حدیث: 6597) اللہ تعالی ان بابت زیادہ بہتر جانتا ہے کہ وہ کیا عمل کرنے والے تھے؟ ان کے بارے میں صحیح ترین قول یہ ہے کہ اللہ تعالی قیامت کے دن انہیں کوئی حکم دے کر ان کی آزمائش کرے گا اور اگر وہ اللہ تعالی کے حکم کی اطاعت کرلیں گے تو اللہ تعالی انہیں جنت میں داخل کرے گا اور اگر وہ نافرمانی کریں گے تو پھر اللہ تعالی انہیں جہنم رسید کرے گا۔ صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ اہل فترہ (جن کے پاس انبیا کی دعوت نہ پہنچی ہوگی۔) کا قیامت کے دن امتحان ہو گا۔ اہل فترہ کی بابت سب سے زیادہ صحیح اور راجح قول یہی ہے، جسے شیخ الاسلام ان تیمیہ، امام بن قیم ۔ فضیلہ الشیخ محمد بن صالح العثمین اور فضیلہ الشیخ عبدالعزیز عبداللہ بن باز ؒنے بھی اختیار کیا ہے، اسی طرح جو لوگ ان کے حکم میں ہوں گے مثلا مشرکوں کے بچے، ان کا بھی امتحان ہو گا کیو نکہ ارشاد باری تعالی ہے: (وَمَا كُنَّا مُعَذِّبِينَ حَتَّى نَبْعَثَ رَسُولًا) کہ اور جب تک ہم پیغمبر نہ بھجیں ہم عذاب نہیں دیا کرتے۔ (مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو، سنن ابوداود، کتاب الجہاد، حدیث:2521)
عربی لغت میں سنت طریق کو کہتے ہیں محدثین اور علمائے اصول کے نزدیک سنت سے مراد "رسول اللہ ﷺکے اقوال ،اعمال ،تقریرات اور جو کچھ آپ نے کرنے کا ارادہ فرمایا نیزوہ سب کچھ بھی شامل ہے جو آپ ؐ کی طرف سے (امت تک ) پہنچا "۔فتح الباری‘کتاب الاعتصام بالسنۃ
"كتاب السنةايك جامع باب ہے جس میں عقائد اوراعمال دونوں میں رسول ﷺکی پیروی کی اہمیت واضح کی گئی ہے ،رسول ﷺ اور خلفائے راشدین کے بعد واعمال میں جو بھی انحراف سامنے آیا تھا اس کی تفصیلات اور اس حوالے سےرسول ﷺکے اختیار کردی طریق کی وضاحت بیان کی گئی ہے اس کتاب کے موضوعات میں سنت اور اس پیروی ،دعوت الی السنۃ اور اس کا اجر ،امت کا اتفاق واتحاداور وہ فتنےجن سےیہ اتفاق انتشار میں بدلا شامل ہیں ، عقائد ونظریات میں جو انحراف آیااس کے اسباب کا بھی اچھی جائزہ لیا گیا اور منحرف نظریات کے معاملے میں صحیح عقائد کی وضاحت کی گئی ہے۔ یہ نظریاتی انحراف صحابہ کے درمیان تفصیل مسئلہ خلافت کے حوالے سے اختلاف ،حکمرانوں کی آمریت اور سرکشی سے پیدا ہوا اور آہستہ آہستہ ،فتنہ پردازوں نے ایمان ،تقدیر ،صفات باری تعالی ،حشر ونشر ،میزان،شفاعت ،جنت ،دوزخ حتی کہ قرآن کے حوالے سے لوگوں میں شکوک وشبہات پیداکرنے کی کوشش کی ۔
امام ابوداودؒ نے اپنی کتاب کے اس حصے میں ان تمام موضوعات کے حوالے سے صحیح عقائد اور رسول ﷺکی تعلیمات کو پیش کیا ۔ ان فتنوں کے استیصال کا کام محدثین ہی کا کارنامہ ہے ۔ محدثین کے علاوہ دوسر ے علما وقفہاء نے اس میدان میں اس انداز سے کام نہیں کیا بلکہ مختلف فقہی مکاتب فکر کے لوگ خصوصااپنی رائے اور عقل پر اعتماد کرنے والے حضرات خود ان کے فتنوں کا شکار ہو گئے
ابو داودکی "كتاب السنة "اور دیگر محدثین کے متعلقہ ابواب کا مطالعہ کرنے سے پتہ چلتاہے کہ جامعیت کے ساتھ محدثین نے ہر میدان میں کس طرح رہنمائی مہیاکی اور اہل یہود کے حملوں سے اسلام کا دفاع کیا ۔ انہوں نےمحض شرعی اور فقہی امور تک اپنی توجہ محدود نہیں رکھی بلکہ اسلام کے ہر پہلو اور دفاع عن الاسلام کے ہرمیدان میں کمر بستہ رہے ۔
ام المؤمنین سیدہ عائشہ ؓ کہتی ہیں کہ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! مومنوں کی اولادوں کا کیا انجام ہو گا؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا: ”وہ اپنے آباء میں سے ہیں۔“ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! عمل کے بغیر ہی؟ فرمایا: ”اللہ کو خوب علم ہے کہ وہ کیا عمل کرنے والے تھے۔“ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! مشرکوں کی اولادوں کا انجام کیا ہو گا؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”وہ اپنے آباء میں سے ہیں۔“ میں نے کہا: عمل کے بغیر ہی؟ فرمایا: ”اللہ کو بہتر علم ہے جو وہ عمل کرنے والے تھے۔“
حدیث حاشیہ:
بچوں کا کیا انجام ہوگا؟ یہ قابل غور مسئلہ ہے۔ وہ فطرت اسلام پر پیدا ہوتے ہیں، چاہے مسلمان کے گھر پیدا ہوں چاہے کا فر کے۔ (صحيح البخاري، كتاب التفسير، سورة الروم‘ باب (لاتبديل الخلق الله، حديث:٤٧٧٥) كفار اپنے بچوں کو اپنے دین کے مطابق ڈھال کر کافر بنا لیتے ہیں، اس باب کی احادیث٤٧١٤ اور٤٧١٦ سے یہ حقیقت واضح ہے۔ غیر مسلموں اور مشرکوں کے بچے سن تمیز سے پہلے فوت ہو جائیں اور ان کے والدین کا فر ہوں تو دنیا میں ان کا حکم کافروں کا ہو گا، انہیں نہ غسل دیا جائے گا نہ کفن دیا جائے گا، نہ جنازہ پڑھا جائے گا او ر نہ ہی انہیں مسلمانوں کے ساتھ دفن کیا جائے گا، کیونکہ وہ اپنے والدین کے ساتھ ہی کافر ہیں اور آخرت میں ان کا معاملہ اللہ تعالی کے سپرد ہے، صحیح حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے جب مشرکوں کے بچوں کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ ؐ نے فرمایا: (الله أعلم بما کانوا عاملین)(صحیح البخاري، القدر، باب الله أعلم بما کانوا عاملین، حدیث: 6597) اللہ تعالی ان بابت زیادہ بہتر جانتا ہے کہ وہ کیا عمل کرنے والے تھے؟ ان کے بارے میں صحیح ترین قول یہ ہے کہ اللہ تعالی قیامت کے دن انہیں کوئی حکم دے کر ان کی آزمائش کرے گا اور اگر وہ اللہ تعالی کے حکم کی اطاعت کرلیں گے تو اللہ تعالی انہیں جنت میں داخل کرے گا اور اگر وہ نافرمانی کریں گے تو پھر اللہ تعالی انہیں جہنم رسید کرے گا۔ صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ اہل فترہ (جن کے پاس انبیا کی دعوت نہ پہنچی ہوگی۔) کا قیامت کے دن امتحان ہو گا۔ اہل فترہ کی بابت سب سے زیادہ صحیح اور راجح قول یہی ہے، جسے شیخ الاسلام ان تیمیہ، امام بن قیم ۔ فضیلہ الشیخ محمد بن صالح العثمین اور فضیلہ الشیخ عبدالعزیز عبداللہ بن باز ؒنے بھی اختیار کیا ہے، اسی طرح جو لوگ ان کے حکم میں ہوں گے مثلا مشرکوں کے بچے، ان کا بھی امتحان ہو گا کیو نکہ ارشاد باری تعالی ہے: (وَمَا كُنَّا مُعَذِّبِينَ حَتَّى نَبْعَثَ رَسُولًا) کہ اور جب تک ہم پیغمبر نہ بھجیں ہم عذاب نہیں دیا کرتے۔ (مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو، سنن ابوداود، کتاب الجہاد، حدیث:2521)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ام المؤمنین عائشہ ؓ کہتی ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! مومنوں کے بچوں کا کیا حال ہو گا؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”وہ اپنے ماں باپ کے حکم میں ہوں گے۔“ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! بغیر کسی عمل کے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”اللہ زیادہ بہتر جانتا ہے کہ وہ کیا عمل کرتے۔“ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! اور مشرکین کے بچے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”اپنے ماں باپ کے حکم میں ہوں گے۔“ میں نے عرض یا بغیر کسی عمل کے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”اللہ بہتر جانتا ہے کہ وہ کیا عمل کرتے۔“۱؎
حدیث حاشیہ:
۱؎: ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کا سوال ان بچوں کے متعلق تھا جو قبل بلوغت انتقال کر گئے تھے، رسول اکرم ﷺ کا جواب یہ ہے کہ وہ اپنے والدین کے ساتھ ہی رہیں گے، اگرچہ ان سے کوئی کفر یا نیک عمل صادر نہ ہوا، لیکن اللہ بہتر جانتا ہے کہ وہ اگر زندہ رہتے تو کیا کرتے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
‘A’ishah said : I said : Messenger of Allah (May peace be upon him) what happens to the offspring of believers ? He replied : They are joined to their parents. I asked : Messenger of Allah! Although they have done nothing ? He replied : Allah knows best what they were doing. I asked : what happens to the offspring of polytheists, Messenger of Allah ? he replied! They are joined to their parents. I asked : Although they have done nothing? He replied : Allah knows best what they were doing.