Abu-Daud:
Prayer (Kitab Al-Salat)
(Chapter: The Virtue Of Sitting In The Masjid)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
472.
سیدنا ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جو شخص جس نیت سے مسجد میں آیا ہو، اس کا وہی نصیبہ ہے۔“
تشریح:
فائدہ۔ یہ روایت سندا ضعیف ہے۔ لیکن معنا صحیح ہے۔ کیونکہ یہ حدیث (إِنما الأعمالُ بِالنیاتِ)(صحیح بخاري، حدیث نمبر: 1) کے ہم معنی ہے۔ یہ حدیث انتہائی اہم ہے۔ کہ انسان کو خیال رکھناچاہیے اور اپنے نفس کا محاسبہ کرتے رہنا چاہیے کہ وہ کس نیت سے اپنے اعمال سر انجام دے رہا ہے۔ جو نیت ہوگی اس کے مطابق اجرملے گا۔ چاہیے کہ ہمیشہ اللہ کی رضا پیش نظر رہے۔
الحکم التفصیلی:
عن أبي هريرة قال: قال رسول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ أتى المسجدَ لشيءٍ فهو حَظُّه . (قلت: إسناده حسن، ورمز له بذلك السيوطي) . إسناده: حدثنا هشام بن عمار: ثنا صدقة بن خالد: نا عثمان بن أبي العاتكة الأزدي عن عمير بن هانئ العَنْسِي عن أبي هريرة.
قلت: وهذا إسناد حسن إن شاء الله تعالى، رجاله كلهم ثقات رجال البخاري؛ لكنه إنما أخرج لعثمان بن أبي العاتكة في الأدب المفرد ، وهو مختلف فيه؛ قال ابن معين والنسائي: ليس بالقوي . وقال أبو مُسْهِر وإسحاق ويعقوب بن سفيان: ضعيف الحديث . وقال ابن عدي: مع ضعفه يكتب حديثه . وساق له من طريق هشام عن صدقة عنه عن علي بن يزيد عن القاسم عن أبي أمامة ثلاثين حديثاً، عامتها ليست مستقيمة.
قلت: علي بن يزيد: هو ابن أبي زياد الألهاني؛ قال الساجي: اتفق أهل العلم على ضعفه . فالحمل في هذه الأحاديث عليه، فلا يقدح بها على عثمان بن أبي العاتكة. ولذلك قال أبو حاتم عن دُحَيْمً: لا بأس به، كان قاصَّ الجند، ولم ينكر حديثه عن غير علي بن يزيد، والأمر من علي بن يزيد . وقال أحمد: لا بأس به، بليَّته من علي بن يزيد . وقال ابن أبي حاتم عن أبيه: لا بأس به، بأسه من كثرة روايته عن علي بن يزيد، فأما روايته عن غير علي؛ فهو مقارب، يكتب حديثه . وقال المصنف: صالح . وقال خليفة: ثقة؛ كثير الحديث . وقال ابن سعد: كان ثقة في الحديث . وقال العجلي: لا بأس به . وذكره ابن حبان في الثقات . ويتلخص عندي مما سبق: أن الرجل ثقة في نفسه غير متهم في روايته؛ لكن في حفظه ضعف يسير إن شاء الله تعالى؛ فهو حسن الحديث حين لا يظهر خطؤه؛ وفي غير روايته عن علي بن يزيد الألهاني. ولذلك لم يضعفه الحافظ في روايته عن غيره؛ فقال في التقريب : ضعفوه في روايته عن علي بن يزيد الألهاني . والحديث رمز السيوطي في الجامع لحسنه، وعزاه للمصنف وحده. وقال الشارح المناوي: ورواه عنه: ابن ماجه أيضا !
قلت: وأظن أنه وهم؛ فإني لم أجده عند ابن ماجه! ولم يعزه إليه المنذري في مختصره (رقم 443) ! ولا النابلسي في ذخائره (رقم 8547) ! ولا صاحب المشكاة رقم (725) ! ثم إن الحديث يشهد له أحاديث كثيرة في إخلاص النيهَ في العبادة: منها الحديث المتفق عليه: إنما الأعمال بالنيات، وإنما لكل امرئ ما نوى... . الحديث. ................................. (*) (*) هنا سجل الشيخ رحمه الله تاريخ انتهائه من دفتره الثالث: 19/8/1369 هـ . 20- باب في كراهية إنشاد الضالّة في المسجد
’’نماز‘‘ مسلمانوں کے ہاں اللہ عزوجل کی عبادت کا ایک مخصوص انداز ہے اس میں قیام رکوع‘سجدہ‘ اور تشہد میں متعین ذکر اور دعائیں پڑھی جاتی ہیں اس کی ابتدا کلمہ ’’اللہ اکبر‘‘ سے اور انتہا ’’السلام علیکم ور حمۃ اللہ‘‘ سے ہوتی ہے تمام امتوں میں اللہ کی عبادت کے جو طور طریقے رائج تھے یا ابھی تک موجود ہیں ان سب میں سے ہم مسلمانوں کی نماز ‘انتہائی عمدہ خوبصورت اور کامل عبادت ہے ۔بندے کی بندگی کا عجزہ اور رب ذوالجلال کی عظمت کا جو اظہار اس طریق عبادت میں ہے ‘کسی اور میں دکھائی نہیں دیتا۔ اسلام میں بھی اس کے مقابلے کی اور کوئی عباد نہیں ہے یہ ایک ایساستون ہے جس پر دین کی پوری عمارت کڑی ہوتی ہے ‘ اگر یہ گر جائے تو پوری عمار گر جاتی ہے سب سے پہلے اسی عباد کا حکم دیا گیا اور شب معراج میں اللہ عزوجل نے اپنے رسول کو بلا واسطہ براہ راست خطاب سے اس کا حکم دیا اور پھر جبرئیل امین نے نبئ کریم ﷺ کو دوبار امامت کرائی اور اس کی تمام تر جزئیات سے آپ کو عملاً آگاہ فرمایا اور آپ نے بھی جس تفصیل سے نماز کے احکام و آداب بیان کیے ہیں کسی اور عبادت کے اس طرح بیان نہیں کیے۔قیامت کے روز بھی سب سے پہلے نماز ہی کا حساب ہو گا جس کی نماز درست اور صحیح نکلی اس کے باقی اعمال بھی صحیح ہو جائیں گے اور اگر یہی خراب نکلی تو باقی اعمال بھی برباد ہو جائیں گے رسول اللہ ﷺ اپنی ساری زندگی نماز کی تعلیم و تا کید فرماتے رہے حتی کہ دنیا سے کوچ کے آخری لمحات میں بھی ’’نماز ‘نماز‘‘ کی وصیت آپ کی زبان مبارک پر تھی آپ نے امت کو متنبہ فرمایا کہ اسلام ایک ایک کڑی کر ک ٹوٹتا اور کھلتا چلا جائے گا ‘ جب ایک کڑی ٹوٹے گی تو لوگ دوسری میں مبتلا ہو جائیں گے اور سب سے آخر میں نماز بھی چھوٹ جائے گی ۔۔(موارد الظمآ ن : 1/401‘حدیث 257 الی زوائد ابن حبان)
قرآن مجید کی سیکڑوں آیات اس کی فرضیت اور اہمیت بیان کرتی ہیں سفر ‘حضر‘صحت‘مرض ‘امن اور خوف ‘ہر حال میں نماز فرض ہے اور اس کے آداب بیان کیے گئے ہیں نماز میں کوتاہی کر نے والو کے متعلق قرآن مجید اور احادیث میں بڑی سخت وعید سنائی گئی ہیں۔
امام ابوداود نے اس کتاب میں نماز کے مسائل بڑی تفصیل سے بیان فرمائے ہیں۔
سیدنا ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جو شخص جس نیت سے مسجد میں آیا ہو، اس کا وہی نصیبہ ہے۔“
حدیث حاشیہ:
فائدہ۔ یہ روایت سندا ضعیف ہے۔ لیکن معنا صحیح ہے۔ کیونکہ یہ حدیث (إِنما الأعمالُ بِالنیاتِ)(صحیح بخاري، حدیث نمبر: 1) کے ہم معنی ہے۔ یہ حدیث انتہائی اہم ہے۔ کہ انسان کو خیال رکھناچاہیے اور اپنے نفس کا محاسبہ کرتے رہنا چاہیے کہ وہ کس نیت سے اپنے اعمال سر انجام دے رہا ہے۔ جو نیت ہوگی اس کے مطابق اجرملے گا۔ چاہیے کہ ہمیشہ اللہ کی رضا پیش نظر رہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”مسجد میں جو جس کام کے لیے آئے گا وہی اس کا نصیبہ ہے۔“۱؎
حدیث حاشیہ:
۱؎: یعنی جیسی نیت ہو گی اسی کے مطابق اسے اجر و ثواب ملے گا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Abu Hurairah (RA) reported the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) as saying; one shall have the thing for which one comes to the mosque.Abu Hurairah (RA) reported the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) as saying; one shall have the thing for which one comes to the mosque.