Abu-Daud:
General Behavior (Kitab Al-Adab)
(Chapter: What should be said at the time of anger)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
4781.
سیدنا سلیمان بن صرد ؓ سے روایت ہے کہ دو آدمی نبی کریم ﷺ کے سامنے ایک دوسرے کو برا بھلا کہنے لگے حتیٰ کہ ایک کی آنکھیں سرخ ہو گئیں اور گلے کی رگیں پھول گئیں۔ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”مجھے ایک کلمہ معلوم ہے، اگر یہ شخص وہ کلمہ کہہ لے تو اس سے یہ کیفیت دور ہو جائے گی۔ (اور وہ کلمہ یہ ہے) «أعوذ بالله من الشيطان الرجيم» ”میں شیطان مردود کے شر سے اﷲ کی پناہ میں آتا ہوں۔“ مگر وہ آدمی کہنے لگا: کیا تم سمجھتے ہو کہ میں مجنون ہوں؟
تشریح:
1) شرعی غیرت کے علاوہ انتہائی غصہ شیطانی اثر ہوتا ہے اور اس کا علاج تعوذ ہے۔ بشرطیکہ بندہ اس حقیقت کا ادراک رکھتا ہو۔ 2) غیر شرعی غصے کی ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ انسان حق قبول نہیں کرتا۔
٭ : ادب کے لغوی اور اصطلاحی معنی : لغت میں "ادب " سے مرادہیں اخلاق،اچھا طریقہ ،شائستگی سلیقہ شعاری اور تہذیب ۔ اصطلاح میں ادب کی تعریف یوں کی گئی ہے :قابل ستائش قول وفعل کو اپناناادب ہے ۔
اسلامی تعلیمات کے روشن ابواب پر ایک طائرانہ نظر ڈالی جائے تویہ حقیقت پوری طرح عیاں ہوجاتی ہے اس کا نظام اوب وتربیت نہایت شاندارہے۔ دنیا کا کوئی بھی مذہب یا تہذیب اس کا مقابلہ کرنے سے قاصرہے ۔ اسلام نے اپنےپیروکاروں کو زندگی کے ہر شعبے میں سلیقہ شعاری اور مہذب اندازاپنانے کے لئے خوبصورت آداب کی تعلیم دی ہے ۔ ان آداب کو اپنی زندگی کا جزولاینفک بنا کر ہی مسلمان دنیا وآخرت میں سرخروہو سکتے ہیں ۔ کیو نکہ دنیا وآخرت کی کامیابی وکامرانی دین سے وابستگی کے ساتھ ممکن ہے اوردین حنیف سراپا ادب ہے ۔
٭:حافظ قیم ؒ فرماتے ہیں :"دین (محمدی )سراپا ادب ہے ۔
٭ :اسلامی آداب کی اہمیت کے پیش نظر امام عبداللہ بن مبارک ؒ فرماتے ہیں "ہمیں بہت زیادہ علم کی بجائے تھوڑے سے ادب کی زیادہ ضرورت ہے "
٭ :اللہ تعالی نے مومنوں کو آگ سے بچنے اور اپنی اولاد کو بچانے کا حکم دیا ہے ،ارشاد باری تعالی ہے :"اے ایمان والو!اپنی جانوں اور گھر والوں کو آگ سے بچاو۔ "
٭:حضرت علی رضی اللہ اس کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں "اپنے گھروالوں کواسلامی آداب سکھاو اور اسلامی تعلیمات دو ۔
٭ :ادب کی اہمیت واضح کرتے ہوئے جناب یوسف بن حسین ؒ فرماتے ہیں "ادب ہی کے ساتھ علم کی فہم وفراست ملتی ہے اور علم ہی کے ساتھ اعمال درست ہوتے ہیں اور حکمت کا حصول اعمال پر منحصرہے جبکہ زہدوتقوی کی بنیاد بھی حکمت ہی پر ہے ،دنیا سے بے رغبتی زیدوتقوی ہی سے حاصل ہوتی ہے اوردنیا سے بے رغبتی آخرت میں دلچسپی کی چابی ہے اور آخرت کی سعادت کےذوق وشوق ہی سے اللہ تعالی کے ہاں رتبے ملتے ہیں ۔
الغرض آداب مسلمان کی زندگی کا لازمی جز ہیں اور یہ اس کی زندگی کی تمام سرگرمیوں پر حاوی ہیں ، مثلا :آداب الہی ،آداب رسول ﷺ،آداب قرآن حکیم ،آداب حقوق العباد ،آداب سفر وحضر،آداب تجارت ،آداب تعلیم وتعلم ،آداب طعام وشراب ،آداب مجلس ومحفل ،آداب لباس،آداب نیند ،آداب مہمان نوازی ،آداب والدین واستاتذہ ،آداب سیاست وحکمرانی وغیرہ ۔ ان آداب زندگی کو اپنانادنیا وآخرت کی سعادت کا باعث ہے جبکہ ان آداب سے تہی دامنی درحقیقت اصل محرومی اور بد نصیبی ہے ۔ اللہ تعالی ہمیں اسلامی آداب اپنانے کی توفیق فرمائے ،آمین
سیدنا سلیمان بن صرد ؓ سے روایت ہے کہ دو آدمی نبی کریم ﷺ کے سامنے ایک دوسرے کو برا بھلا کہنے لگے حتیٰ کہ ایک کی آنکھیں سرخ ہو گئیں اور گلے کی رگیں پھول گئیں۔ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”مجھے ایک کلمہ معلوم ہے، اگر یہ شخص وہ کلمہ کہہ لے تو اس سے یہ کیفیت دور ہو جائے گی۔ (اور وہ کلمہ یہ ہے) «أعوذ بالله من الشيطان الرجيم» ”میں شیطان مردود کے شر سے اﷲ کی پناہ میں آتا ہوں۔“ مگر وہ آدمی کہنے لگا: کیا تم سمجھتے ہو کہ میں مجنون ہوں؟
حدیث حاشیہ:
1) شرعی غیرت کے علاوہ انتہائی غصہ شیطانی اثر ہوتا ہے اور اس کا علاج تعوذ ہے۔ بشرطیکہ بندہ اس حقیقت کا ادراک رکھتا ہو۔ 2) غیر شرعی غصے کی ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ انسان حق قبول نہیں کرتا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
سلیمان بن صرد کہتے ہیں کہ دو شخصوں نے نبی اکرم ﷺ کے پاس گالی گلوج کی تو ان میں سے ایک کی آنکھیں سرخ ہو گئیں، اور رگیں پھول گئیں تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”مجھے ایک ایسا کلمہ معلوم ہے کہ اگر وہ اسے کہہ دے تو جو غصہ وہ اپنے اندر پا رہا ہے دور ہو جائے گا، وہ کلمہ «أعوذ بالله من الشيطان الرجيم» تو اس آدمی نے کہا: کیا آپ یہ سمجھتے ہیں کہ مجھے جنون ہے۱؎۔
حدیث حاشیہ:
۱؎ : غالباً اس نے یہ سمجھا کہ «أعوذ بالله من الشيطان الرجيم» پڑھنا جنون ہی کے ساتھ مخصوص ہے، یا ہو سکتا ہے کہ وہ کوئی منافق یا غیر مہذب اور غیر مہذب بدوی رہا ہو۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Sulaiman b. Surad said: Two men reviled each other in the presence of the Prophet (ﷺ). Then the eyes of one of them became red and his jugular veins swelled. The Apostle of Allah (ﷺ) said: I know a phrase by repeating which the man could get rid of the angry feelings: I seek refuge in Allah from the accursed devil. The man said: Do you see insanity in me.