Abu-Daud:
General Behavior (Kitab Al-Adab)
(Chapter: Regarding good interactions with people)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
4789.
سیدنا انس ؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص نبی کریم ﷺ کے پاس آیا جبکہ اس پر زرد رنگ کا کچھ نشان تھا۔ اور رسول اللہ ﷺ کسی شخص کو اس کے منہ پر بہت کم ایسی بات کہتے تھے جو اس کو ناگوار ہو۔ (یعنی اس کی غلطی پر اس کو نہ ٹوکتے تھے۔) جب وہ چلا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا: ”اگر تم ہی اس کو کہہ دو کہ اس (رنگ) کو دھو ڈالے (تو بہتر ہو)۔“ امام ابوداؤد ؓ فرماتے ہیں کہ اس کا راوی ”سلم علوی“ حقیقت میں اولاد علی میں سے نہیں (یہ دوسرا شخص ہے۔ اس کا نام سلم بن قیس ہے اور یہ بصری ہے چونکہ ستارے اوپر ہوتے ہیں) ستاروں پر نظر رکھنے کی وجہ سے اسے علوی کہا جانے لگا۔ اس نے سیدنا عدی بن ارطاۃ کے سامنے چاند دیکھنے کی گواہی دی تو انہوں نے قبول نہ کی۔
٭ : ادب کے لغوی اور اصطلاحی معنی : لغت میں "ادب " سے مرادہیں اخلاق،اچھا طریقہ ،شائستگی سلیقہ شعاری اور تہذیب ۔ اصطلاح میں ادب کی تعریف یوں کی گئی ہے :قابل ستائش قول وفعل کو اپناناادب ہے ۔
اسلامی تعلیمات کے روشن ابواب پر ایک طائرانہ نظر ڈالی جائے تویہ حقیقت پوری طرح عیاں ہوجاتی ہے اس کا نظام اوب وتربیت نہایت شاندارہے۔ دنیا کا کوئی بھی مذہب یا تہذیب اس کا مقابلہ کرنے سے قاصرہے ۔ اسلام نے اپنےپیروکاروں کو زندگی کے ہر شعبے میں سلیقہ شعاری اور مہذب اندازاپنانے کے لئے خوبصورت آداب کی تعلیم دی ہے ۔ ان آداب کو اپنی زندگی کا جزولاینفک بنا کر ہی مسلمان دنیا وآخرت میں سرخروہو سکتے ہیں ۔ کیو نکہ دنیا وآخرت کی کامیابی وکامرانی دین سے وابستگی کے ساتھ ممکن ہے اوردین حنیف سراپا ادب ہے ۔
٭:حافظ قیم ؒ فرماتے ہیں :"دین (محمدی )سراپا ادب ہے ۔
٭ :اسلامی آداب کی اہمیت کے پیش نظر امام عبداللہ بن مبارک ؒ فرماتے ہیں "ہمیں بہت زیادہ علم کی بجائے تھوڑے سے ادب کی زیادہ ضرورت ہے "
٭ :اللہ تعالی نے مومنوں کو آگ سے بچنے اور اپنی اولاد کو بچانے کا حکم دیا ہے ،ارشاد باری تعالی ہے :"اے ایمان والو!اپنی جانوں اور گھر والوں کو آگ سے بچاو۔ "
٭:حضرت علی رضی اللہ اس کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں "اپنے گھروالوں کواسلامی آداب سکھاو اور اسلامی تعلیمات دو ۔
٭ :ادب کی اہمیت واضح کرتے ہوئے جناب یوسف بن حسین ؒ فرماتے ہیں "ادب ہی کے ساتھ علم کی فہم وفراست ملتی ہے اور علم ہی کے ساتھ اعمال درست ہوتے ہیں اور حکمت کا حصول اعمال پر منحصرہے جبکہ زہدوتقوی کی بنیاد بھی حکمت ہی پر ہے ،دنیا سے بے رغبتی زیدوتقوی ہی سے حاصل ہوتی ہے اوردنیا سے بے رغبتی آخرت میں دلچسپی کی چابی ہے اور آخرت کی سعادت کےذوق وشوق ہی سے اللہ تعالی کے ہاں رتبے ملتے ہیں ۔
الغرض آداب مسلمان کی زندگی کا لازمی جز ہیں اور یہ اس کی زندگی کی تمام سرگرمیوں پر حاوی ہیں ، مثلا :آداب الہی ،آداب رسول ﷺ،آداب قرآن حکیم ،آداب حقوق العباد ،آداب سفر وحضر،آداب تجارت ،آداب تعلیم وتعلم ،آداب طعام وشراب ،آداب مجلس ومحفل ،آداب لباس،آداب نیند ،آداب مہمان نوازی ،آداب والدین واستاتذہ ،آداب سیاست وحکمرانی وغیرہ ۔ ان آداب زندگی کو اپنانادنیا وآخرت کی سعادت کا باعث ہے جبکہ ان آداب سے تہی دامنی درحقیقت اصل محرومی اور بد نصیبی ہے ۔ اللہ تعالی ہمیں اسلامی آداب اپنانے کی توفیق فرمائے ،آمین
سیدنا انس ؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص نبی کریم ﷺ کے پاس آیا جبکہ اس پر زرد رنگ کا کچھ نشان تھا۔ اور رسول اللہ ﷺ کسی شخص کو اس کے منہ پر بہت کم ایسی بات کہتے تھے جو اس کو ناگوار ہو۔ (یعنی اس کی غلطی پر اس کو نہ ٹوکتے تھے۔) جب وہ چلا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا: ”اگر تم ہی اس کو کہہ دو کہ اس (رنگ) کو دھو ڈالے (تو بہتر ہو)۔“ امام ابوداؤد ؓ فرماتے ہیں کہ اس کا راوی ”سلم علوی“ حقیقت میں اولاد علی میں سے نہیں (یہ دوسرا شخص ہے۔ اس کا نام سلم بن قیس ہے اور یہ بصری ہے چونکہ ستارے اوپر ہوتے ہیں) ستاروں پر نظر رکھنے کی وجہ سے اسے علوی کہا جانے لگا۔ اس نے سیدنا عدی بن ارطاۃ کے سامنے چاند دیکھنے کی گواہی دی تو انہوں نے قبول نہ کی۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
انس ؓ کہتے ہیں کہ ایک شخص رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا، اس پر زردی کا نشان تھا، رسول اللہ ﷺ کا حال یہ تھا کہ آپ بہت کم کسی ایسے شخص کے روبرو ہوتے، جس کے چہرے پر کوئی ایسی چیز ہوتی جسے آپ ناپسند کرتے تو جب وہ نکل گیا، تو آپ ﷺ نے فرمایا: ”کاش تم لوگ اس سے کہتے کہ وہ اسے اپنے سے دھو ڈالے۔“ ابوداؤد کہتے ہیں: سلم علوی (یعنی اولاد علی میں سے) نہیں تھا بلکہ وہ ستارے دیکھا کرتا تھا۱؎ اور اس نے عدی بن ارطاۃ کے پاس چاند دیکھنے کی گواہی دی تو انہوں نے اس کی گواہی قبول نہیں کی۔
حدیث حاشیہ:
۱؎: یعنی علو (بلندی) کی طرف دیکھتا تھا، کیونکہ ستارے بلندی ہی میں ہوتے ہیں، اسی وجہ سے علو کی طرف نسبت کر کے اسے علوی کہا جاتا تھا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Anas ibn Malik: A man who had the mark of yellowness on him came to the Apostle of Allah (ﷺ) . The apostle of Allah (ﷺ) rarely mentioned anything of a man which he disliked before him. When he went out, he said: Would that you asked him to wash it from him.