Abu-Daud:
Prayer (Kitab Al-Salat)
(Chapter: An Idolater Entering The Masajid)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
486.
سیدنا انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص آیا‘ وہ اونٹ پر تھا، اس نے اونٹ کو مسجد (کے احاطے) میں بٹھایا، پھر اسے باندھا، پھر کہا: تم میں سے ”محمد“ کون ہے؟ جب کہ رسول اللہ ﷺ صحابہ کے درمیان ٹیک لگائے بیٹھے تھے۔ ہم نے کہا کہ یہ جو گورا چٹا شخص ٹیک لگائے ہوئے ہیں (یہی محمد ﷺ ہیں) تو اس آدمی نے آپ سے کہا: اے ابن عبدالمطلب! آپ نے فرمایا: ”جواب دے رہا ہوں۔“ اس نے کہا: اے محمد! میں آپ سے پوچھنا چاہتا ہوں، اور حدیث بیان کی۔
تشریح:
صحیح بخاری میں روایت مفصل آئی ہے۔ اس نے کہا میرے پوچھنے میں کچھ ختگی ہو تو محسوس نہ فرمایئے گا۔ آپ نے فرمایا پوچھو کیا پوچھتے ہو؟ میں تمھیں تمہارے اور تم سے پہلوں کے رب کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں۔ کہ کیا اللہ نے آپ کو تمام لوگوں کوطرف رسول بنا کر بھیجا ہے۔؟ آپ نے فرمایا: ہاں بلا شبہ کہنے لگا میں تمھیں اللہ کی قسم دیتا ہوں۔ کیا اللہ نے تمھیں دن اور رات میں پانچ نمازوں کا حکم دیا ہے۔؟ آپ نے فرمایا: ہاں، بلاشبہ کہنے لگا میں تم کواللہ کی قسم دیتا ہوں۔ کیا اللہ نے تم کو ہر سال اس مہینے کے روزے رکھنے کا حکم دیا ہے۔؟ آپ نے فرمایا۔ ہاں بلاشبہ۔ کہنے لگا میں تم کو اللہ کی قسم دیتا ہوں کیا اللہ نے تم کو حکم دیا ہے کہ ہمارے اغنیاء سے آپ زکوۃ لیں۔ اور ہمارے فقراء میں بانٹ دیں۔ آپ نے فرمایا۔ ہاں بلاشبہ۔ تو اس نے کہا میں ایمان لاتا ہوں۔ ان باتوں پر جو آپ ﷺ لے کر آئے ہیں۔ اور میں اپنے پیچھے اپنی قوم کا نمائندہ ہوں۔ میرا نام ضمام بن ثعلبہ ہے۔ او ر قبیلہ بن سعد بن بکر سے تعلق رکھتا ہوں۔(صحیح بخاري، حدیث: 63) 2۔ اس حدیث سے اور دیگر درج زیل احادیث سے ثابت ہوتا ہے۔ کہ غیر مسلم یہود ونصاریٰ ہندو یا مجوسی وغیرہ کوئی بھی ہوں۔ کسی بھی معقول ضرورت سے مسجدوں میں آسکتے ہیں۔البتہ قرآن مجید کی آیت کریمہ (إِنَّمَا الْمُشْرِكُونَ نَجَسٌ فَلَا يَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ بَعْدَ عَامِهِمْ هَـٰذَا)(توبة: 28) مشرکین نجس ہیں تو اس سال کے بعد مسجد حرام کے قریب نہ آنے پایئں اس سے مراد ان کی معنوی نجاست ہے۔ یعنی ان کا عقیدہ نجس ہے۔ اور اس آیت میں مسلمانوں کو تعلیم ہے کہ اب تک بیت اللہ پر کفار کا جو تسلط تھا۔ اسے توڑ دیا گیا ہے۔ تو ائندہ کے لئے یہ لوگ اپنے کفریہ شعائر کے ساتھ یا ان کے اظہار کے لئے یہاں نہ آنے پایئں۔ تمام مسلمانوں پر فرض ہے کہ بیت اللہ کی ظاہری ومعنوی طہارت وحفاظت کا اہتمام کریں۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح على شرط مسلم. وأخرجه البخاري في صحيحه بتمامه، وهو: ... فمشدِّد عليك في المسألة، فلا تجد عليّ في نفسك، فقال: سل عمّا بدا لك . فقال: أسألك بربك ورب من قبلك: الله أرسلك إلى الناس كلهم؟ فقال: اللهم! نعم . قال: آنْشُدك بالله: آلله أمرك أن نصلي الصلوات الخمس في اليوم والليلة؟ قال: اللهم! نعم . قال: أنشدك بالله: آلله أمرك أن نصوم هذا الشهر من السنة؟ قال: اللهم! نعم . قال: أنشدك بالله: آلله أمرك أن تأخذ هذه الصدقة من أغنيائنا فتقسمها على فقرائنا؟ فقال النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: اللهم! نعم . فقال الرجل: امنت بما جئت به، وأنا رسولُ مَن ورائي من قومي، وأنا ضِمَامُ بن ثعلبة، أخو بني سعد بن بكر. وأخرجه مسلم وأبو عوانة في صحيحيهما بأتم منه، وزادا في آخره: ثم ولى، قال: والذي بعثك بالحق؛ لا أزيد عليهن ولا أنقص منهن، فقال النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لئن صدق ليدخُلَنَ الجنة ) . إسناده: حدثنا عيسى بن حماد: أنا الليث عن سعيد المَقْبُرِي عن شَرِيك بن عبد الله بن أبي نَمِرٍ أنه سمع أنس بن مالك يقول...
قلت: وهذا إسناد صحيح على شرط مسلم. والحديث أخرجه البيهقي (2/444) من طريق المصنف. وبإسناده: أخرجه النسائي (1/297) ، وابن ماجه (1/427- 428) بتمامه. وأخرجه البخاري (1/122- 124) ، وأحمد (3/168) من طرق أخرى عن الليث... به. وللحديث طريق أخرى بأتم منه: أخرجه مسلم (1/32) ، وأبو عوانة (1/2- 3) ، وأحمد (3/143 و 193) من طرق عن سليمان بن المغيرة عن ثابت عن أنس. وعلقه البخاري (1/125) .
’’نماز‘‘ مسلمانوں کے ہاں اللہ عزوجل کی عبادت کا ایک مخصوص انداز ہے اس میں قیام رکوع‘سجدہ‘ اور تشہد میں متعین ذکر اور دعائیں پڑھی جاتی ہیں اس کی ابتدا کلمہ ’’اللہ اکبر‘‘ سے اور انتہا ’’السلام علیکم ور حمۃ اللہ‘‘ سے ہوتی ہے تمام امتوں میں اللہ کی عبادت کے جو طور طریقے رائج تھے یا ابھی تک موجود ہیں ان سب میں سے ہم مسلمانوں کی نماز ‘انتہائی عمدہ خوبصورت اور کامل عبادت ہے ۔بندے کی بندگی کا عجزہ اور رب ذوالجلال کی عظمت کا جو اظہار اس طریق عبادت میں ہے ‘کسی اور میں دکھائی نہیں دیتا۔ اسلام میں بھی اس کے مقابلے کی اور کوئی عباد نہیں ہے یہ ایک ایساستون ہے جس پر دین کی پوری عمارت کڑی ہوتی ہے ‘ اگر یہ گر جائے تو پوری عمار گر جاتی ہے سب سے پہلے اسی عباد کا حکم دیا گیا اور شب معراج میں اللہ عزوجل نے اپنے رسول کو بلا واسطہ براہ راست خطاب سے اس کا حکم دیا اور پھر جبرئیل امین نے نبئ کریم ﷺ کو دوبار امامت کرائی اور اس کی تمام تر جزئیات سے آپ کو عملاً آگاہ فرمایا اور آپ نے بھی جس تفصیل سے نماز کے احکام و آداب بیان کیے ہیں کسی اور عبادت کے اس طرح بیان نہیں کیے۔قیامت کے روز بھی سب سے پہلے نماز ہی کا حساب ہو گا جس کی نماز درست اور صحیح نکلی اس کے باقی اعمال بھی صحیح ہو جائیں گے اور اگر یہی خراب نکلی تو باقی اعمال بھی برباد ہو جائیں گے رسول اللہ ﷺ اپنی ساری زندگی نماز کی تعلیم و تا کید فرماتے رہے حتی کہ دنیا سے کوچ کے آخری لمحات میں بھی ’’نماز ‘نماز‘‘ کی وصیت آپ کی زبان مبارک پر تھی آپ نے امت کو متنبہ فرمایا کہ اسلام ایک ایک کڑی کر ک ٹوٹتا اور کھلتا چلا جائے گا ‘ جب ایک کڑی ٹوٹے گی تو لوگ دوسری میں مبتلا ہو جائیں گے اور سب سے آخر میں نماز بھی چھوٹ جائے گی ۔۔(موارد الظمآ ن : 1/401‘حدیث 257 الی زوائد ابن حبان)
قرآن مجید کی سیکڑوں آیات اس کی فرضیت اور اہمیت بیان کرتی ہیں سفر ‘حضر‘صحت‘مرض ‘امن اور خوف ‘ہر حال میں نماز فرض ہے اور اس کے آداب بیان کیے گئے ہیں نماز میں کوتاہی کر نے والو کے متعلق قرآن مجید اور احادیث میں بڑی سخت وعید سنائی گئی ہیں۔
امام ابوداود نے اس کتاب میں نماز کے مسائل بڑی تفصیل سے بیان فرمائے ہیں۔
سیدنا انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص آیا‘ وہ اونٹ پر تھا، اس نے اونٹ کو مسجد (کے احاطے) میں بٹھایا، پھر اسے باندھا، پھر کہا: تم میں سے ”محمد“ کون ہے؟ جب کہ رسول اللہ ﷺ صحابہ کے درمیان ٹیک لگائے بیٹھے تھے۔ ہم نے کہا کہ یہ جو گورا چٹا شخص ٹیک لگائے ہوئے ہیں (یہی محمد ﷺ ہیں) تو اس آدمی نے آپ سے کہا: اے ابن عبدالمطلب! آپ نے فرمایا: ”جواب دے رہا ہوں۔“ اس نے کہا: اے محمد! میں آپ سے پوچھنا چاہتا ہوں، اور حدیث بیان کی۔
حدیث حاشیہ:
صحیح بخاری میں روایت مفصل آئی ہے۔ اس نے کہا میرے پوچھنے میں کچھ ختگی ہو تو محسوس نہ فرمایئے گا۔ آپ نے فرمایا پوچھو کیا پوچھتے ہو؟ میں تمھیں تمہارے اور تم سے پہلوں کے رب کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں۔ کہ کیا اللہ نے آپ کو تمام لوگوں کوطرف رسول بنا کر بھیجا ہے۔؟ آپ نے فرمایا: ہاں بلا شبہ کہنے لگا میں تمھیں اللہ کی قسم دیتا ہوں۔ کیا اللہ نے تمھیں دن اور رات میں پانچ نمازوں کا حکم دیا ہے۔؟ آپ نے فرمایا: ہاں، بلاشبہ کہنے لگا میں تم کواللہ کی قسم دیتا ہوں۔ کیا اللہ نے تم کو ہر سال اس مہینے کے روزے رکھنے کا حکم دیا ہے۔؟ آپ نے فرمایا۔ ہاں بلاشبہ۔ کہنے لگا میں تم کو اللہ کی قسم دیتا ہوں کیا اللہ نے تم کو حکم دیا ہے کہ ہمارے اغنیاء سے آپ زکوۃ لیں۔ اور ہمارے فقراء میں بانٹ دیں۔ آپ نے فرمایا۔ ہاں بلاشبہ۔ تو اس نے کہا میں ایمان لاتا ہوں۔ ان باتوں پر جو آپ ﷺ لے کر آئے ہیں۔ اور میں اپنے پیچھے اپنی قوم کا نمائندہ ہوں۔ میرا نام ضمام بن ثعلبہ ہے۔ او ر قبیلہ بن سعد بن بکر سے تعلق رکھتا ہوں۔(صحیح بخاري، حدیث: 63) 2۔ اس حدیث سے اور دیگر درج زیل احادیث سے ثابت ہوتا ہے۔ کہ غیر مسلم یہود ونصاریٰ ہندو یا مجوسی وغیرہ کوئی بھی ہوں۔ کسی بھی معقول ضرورت سے مسجدوں میں آسکتے ہیں۔البتہ قرآن مجید کی آیت کریمہ (إِنَّمَا الْمُشْرِكُونَ نَجَسٌ فَلَا يَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ بَعْدَ عَامِهِمْ هَـٰذَا)(توبة: 28) مشرکین نجس ہیں تو اس سال کے بعد مسجد حرام کے قریب نہ آنے پایئں اس سے مراد ان کی معنوی نجاست ہے۔ یعنی ان کا عقیدہ نجس ہے۔ اور اس آیت میں مسلمانوں کو تعلیم ہے کہ اب تک بیت اللہ پر کفار کا جو تسلط تھا۔ اسے توڑ دیا گیا ہے۔ تو ائندہ کے لئے یہ لوگ اپنے کفریہ شعائر کے ساتھ یا ان کے اظہار کے لئے یہاں نہ آنے پایئں۔ تمام مسلمانوں پر فرض ہے کہ بیت اللہ کی ظاہری ومعنوی طہارت وحفاظت کا اہتمام کریں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
انس بن مالک ؓ کہتے ہیں کہ ایک شخص اونٹ پر سوار ہو کر آیا، اس نے اسے مسجد میں بٹھایا پھر اسے باندھا، پھر پوچھا: تم میں محمد کون ہے؟ رسول اللہ ﷺ اس وقت ان (لوگوں) کے بیچ ٹیک لگائے بیٹھے تھے، ہم نے اس سے کہا: یہ گورے شخص ہیں جو ٹیک لگائے ہوئے ہیں، پھر اس شخص نے آپ ﷺ سے کہا: اے عبدالمطلب کے بیٹے! تو نبی اکرم ﷺ نے اس سے فرمایا: ”میں نے تمہاری بات سن لی، (کہو کیا کہنا چاہتے ہو)“ تو اس شخص نے کہا: محمد! میں آپ سے پوچھتا ہوں، پھر راوی نے پوری حدیث بیان کی۱؎۔
حدیث حاشیہ:
۱؎: مسجد میں داخل ہونے والا شخص مشرک تھا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے مسجد میں داخل ہونے سے منع نہیں کیا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Anas b. Malik (RA) reported: A man entered the mosque on camel and made it kneel down, and then tied his leg with rope. He then asked: Who among you is Muhammad? The Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) was sitting leaning upon something among them. We said to him: This white (man) who is leaning. The man said: O son of ‘Abd al-Muttalib. The Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم) said; I already responded to you. The man (again) said: O Muhammad. I am asking you. The narrator then narrated the rest of the tradition.