Abu-Daud:
Prayer (Kitab Al-Salat)
(Chapter: An Idolater Entering The Masajid)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
487.
سیدنا ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ قبیلہ بنو سعد بن بکر نے ضمام بن ثعلبہ کو رسول اللہ ﷺ کی طرف بھیجا، تو وہ آپ ﷺ کے پاس آیا۔ اس نے آ کر اپنا اونٹ دروازے کے پاس بٹھایا، پھر اسے باندھا اور مسجد کے اندر آ گیا۔ اور مذکورہ بالا حدیث کی مانند بیان کیا۔ اس نے کہا: تم میں سے ابن عبدالمطلب کون ہے؟ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”میں ابن عبدالمطلب ہوں۔“ اس نے کہا: اے ابن عبدالمطلب! اور حدیث بیان کی۔
تشریح:
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده حسن، وصححه الحاكم والذهبي؛ وتمامه عنده: إني سائلك ومغلِّط عليك في المسألة، فلا تجدنَّ عليّ في نفسك؛ فإني لا أجد في نفسي ( كذا في للالمستدرك ! وفي المسند : قال: فإني لا أجد في نفسي؛ فَسَلْ... إلخ؛ ولعله الصواب! (2/389)) ، قال: سل عما بدا لك . قال: أنشدك اللهَ إلهَك وإلهَ مَنْ قَبْلك وإلهَ من هو كائن بعدك: آلله بعثك إلينا رسولا؟ قال: اللهم! نعم . قال: أنشدك الله إلهك وإله من قبلك وإله من هو كائن بعدك: الله أمرك أن نعبده ولا نشرك به شيئاً، وأن نخلع هذه الأوثان والأنداد التي كان آباؤنا يعبدون؟ فقال صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: اللهم! نعم . ثم جعل يذكر فرائض الإسلام فريضة فريضة: الصلاة والزكاة والصيام والحج، وفرائض الإسلام كلها؛ ينشده عند كل فريضة كلما أنشده في التي
كان قبلها، حتى إذا فرغ قال: فإني أشهد أن لا إله إلا الله، وأنك عبده ورسوله، وساؤدي هذه الفرائض، واجتنب ما نهيتني عنه، لا أزيد ولا أنقص، ثم انصرف راجعاً إلى بعيره، فقال رسول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - حين ولّى-: إنْ يصدقْ ذو العَقِيصتين يدخلِ الجنة . وكان ضمامٌ رجلاً جلداً أشعر ذا غديرتين، ثم أتى بعيره فأطلق عقاله؛ حتى قدم على قومه، فاجتمعوا إليه، فكان أولَ ما تكلم به، وهو يَسب اللات والعزّى، فقالوا: مَهْ يا ضِمَام!! اتق البَرَصَ والجُذ ام والجنون! فقال: ويلكم! إنهما- والله- لا يضزَان ولا ينفعان. إن الله قد بعث رسولاً، وأنزل عليه كتاباً استنقذكم به مما كنتم فيه، وإني أشهد أن لا إله إلا الله، وأن محمداً عبده ورسوله، وإني فد جئتكم من عنده بما أمركم به ونهاكم عنه. فوالله ما أمسى ذلك اليوم من حاضرته رجل ولا امرأة إلا مسلماً. قال ابن عباس رضي الله تعالى عنهما: فما سمعنا بوافد قوم كان أفضل من ضِمامِ بن ثعلبة رضي الله تعالى عنه (. إسناده: حدثنا محمد بن عمرو: ثنا سَلَمَةُ: حدثني محمد بن إسحاق: حدثني سَلَمَةُ بن كُهَيْل ومحمد بن الوليد بن نوَيْفع عن كُرَيْبٍ عن ابن عباس.
قلت: وهذا إسناد حسن، محمد بن عمرو: هو ابن بكر بن سالم أبو غسان الرازي الطيالسي المعروف بـ (زنَيْج) ؛ وهو ثقة من رجال مسلم. وشيخه سلمة: هو ابن الفضل؛ وهو مختلف فيه، ويظهر من مجموع أقوال الأثمة فيه: أنه في نفسه ثقة، ولكنه سيئ الحفظ ؛ فينظر فيما تفرد به. لكن له اختصاص في الرواية عن ابن إسحاق؛ فقد ذكره الذهبي في الميزان : وقال زُنيج: سمعت سلمة الأبرش يقول: سمعت المغازي من ابن إسحاق مرتين، وكتبت عنه من الحديث مثل المغازي . وقال علي الهِسِنْجَانِي عن ابن معين: سمعت جريراً يقول: ليس من لَدُنْ بغداد إلى خراسان أثبث في ابن إسحاق من سلمة . فهو عن ابن إسحاق حسن الحديث إن شَاء الله تعالى. ومحمد بن الوليد بن نويفع؛ ذكره ابن حبان في الثقات . وقال الدارقطني: يُعْتَبَرُ به . وقال الذهبي في الميزان : ما روى عنه سوى ابن إسحاق .
قلت: لكن حديثه هذا مقرون مع سلمة بن كُهَيل، وهو ثقة من رجال الشيخين؛ كشيخهما كريب. وأما ابن إسحاق؛ فقد صرح بالسماع، وهو حسن الحديث، كما سبق ذكره مرارا. والحديث أخرجه الحاكم (3/54- 55) ، وأحمد (1/250 و 264- 265 و 265) من طرق أخرى عن ابن إسحاق: ثني محمد بن الوليد بن نويفع عن كريب... به؛ ليس فيه: سلمة بن كهيل. وقال الحاكم: صحيح ، ووافقه الذهبي.
(1) وفي المسند : وأشهد أن سيدنا محمداً رسول الله
والظاهر ان لفظة (سيد) مُقْحمة من بعض النساخ؛ فإنها لم ترد في المكانْ الأخر من
المسند ؛ مع أن الإسناد واحد!
’’نماز‘‘ مسلمانوں کے ہاں اللہ عزوجل کی عبادت کا ایک مخصوص انداز ہے اس میں قیام رکوع‘سجدہ‘ اور تشہد میں متعین ذکر اور دعائیں پڑھی جاتی ہیں اس کی ابتدا کلمہ ’’اللہ اکبر‘‘ سے اور انتہا ’’السلام علیکم ور حمۃ اللہ‘‘ سے ہوتی ہے تمام امتوں میں اللہ کی عبادت کے جو طور طریقے رائج تھے یا ابھی تک موجود ہیں ان سب میں سے ہم مسلمانوں کی نماز ‘انتہائی عمدہ خوبصورت اور کامل عبادت ہے ۔بندے کی بندگی کا عجزہ اور رب ذوالجلال کی عظمت کا جو اظہار اس طریق عبادت میں ہے ‘کسی اور میں دکھائی نہیں دیتا۔ اسلام میں بھی اس کے مقابلے کی اور کوئی عباد نہیں ہے یہ ایک ایساستون ہے جس پر دین کی پوری عمارت کڑی ہوتی ہے ‘ اگر یہ گر جائے تو پوری عمار گر جاتی ہے سب سے پہلے اسی عباد کا حکم دیا گیا اور شب معراج میں اللہ عزوجل نے اپنے رسول کو بلا واسطہ براہ راست خطاب سے اس کا حکم دیا اور پھر جبرئیل امین نے نبئ کریم ﷺ کو دوبار امامت کرائی اور اس کی تمام تر جزئیات سے آپ کو عملاً آگاہ فرمایا اور آپ نے بھی جس تفصیل سے نماز کے احکام و آداب بیان کیے ہیں کسی اور عبادت کے اس طرح بیان نہیں کیے۔قیامت کے روز بھی سب سے پہلے نماز ہی کا حساب ہو گا جس کی نماز درست اور صحیح نکلی اس کے باقی اعمال بھی صحیح ہو جائیں گے اور اگر یہی خراب نکلی تو باقی اعمال بھی برباد ہو جائیں گے رسول اللہ ﷺ اپنی ساری زندگی نماز کی تعلیم و تا کید فرماتے رہے حتی کہ دنیا سے کوچ کے آخری لمحات میں بھی ’’نماز ‘نماز‘‘ کی وصیت آپ کی زبان مبارک پر تھی آپ نے امت کو متنبہ فرمایا کہ اسلام ایک ایک کڑی کر ک ٹوٹتا اور کھلتا چلا جائے گا ‘ جب ایک کڑی ٹوٹے گی تو لوگ دوسری میں مبتلا ہو جائیں گے اور سب سے آخر میں نماز بھی چھوٹ جائے گی ۔۔(موارد الظمآ ن : 1/401‘حدیث 257 الی زوائد ابن حبان)
قرآن مجید کی سیکڑوں آیات اس کی فرضیت اور اہمیت بیان کرتی ہیں سفر ‘حضر‘صحت‘مرض ‘امن اور خوف ‘ہر حال میں نماز فرض ہے اور اس کے آداب بیان کیے گئے ہیں نماز میں کوتاہی کر نے والو کے متعلق قرآن مجید اور احادیث میں بڑی سخت وعید سنائی گئی ہیں۔
امام ابوداود نے اس کتاب میں نماز کے مسائل بڑی تفصیل سے بیان فرمائے ہیں۔
سیدنا ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ قبیلہ بنو سعد بن بکر نے ضمام بن ثعلبہ کو رسول اللہ ﷺ کی طرف بھیجا، تو وہ آپ ﷺ کے پاس آیا۔ اس نے آ کر اپنا اونٹ دروازے کے پاس بٹھایا، پھر اسے باندھا اور مسجد کے اندر آ گیا۔ اور مذکورہ بالا حدیث کی مانند بیان کیا۔ اس نے کہا: تم میں سے ابن عبدالمطلب کون ہے؟ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”میں ابن عبدالمطلب ہوں۔“ اس نے کہا: اے ابن عبدالمطلب! اور حدیث بیان کی۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ بن عباس ؓ کہتے ہیں کہ بنی سعد بن بکرنے ضمام بن ثعلبہ کو رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں بھیجا، وہ آپ کے پاس آئے انہوں نے اپنا اونٹ مسجد کے دروازے پر بٹھایا اور اسے باندھ دیا پھر مسجد میں داخل ہوئے، پھر محمد بن عمرو نے اسی طرح کی حدیث ذکر کی، اس میں ہے اس نے کہا: تم میں عبدالمطلب کا بیٹا کون ہے؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”عبدالمطلب کا بیٹا میں ہوں۔“ تو اس نے کہا: اے عبدالمطلب کے بیٹے! اور راوی نے پوری حدیث اخیر تک بیان کی۔
حدیث حاشیہ:
صحیح بخاری میں یہ روایت مفصل آئی ہے۔ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ سوالات پوچھے آپ نے ان سوالات کے جوابات دئیے پھر یہ ایمان لے آئے تھے (صحیح بخاری، حدیث: ۶۳) اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ غیر مسلم یہود، نصاریٰ، ہندو یا مجوسی وغیرہ کوئی بھی ہوں کسی بھی معقول ضرورت سے مسجدوں میں آ سکتے ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Ibn ‘Abbas (RA) reported: Banu Sa’d b. Bakr sent Qamam b. Tha’labah to the apostle of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم). He came to him and made his camel kneel down near the gate of the mosque. He then tied its leg and entered the mosque. The narrator then reported in a similar way. He then said: Who among you is the son of Abd al-Muttalib? The Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) replied: I am the son of Ibn ‘Abd al-Muttalib. He said: O son of ‘Abd al-Muttalib. The narrator then reported the rest of the tradition.