Abu-Daud:
General Behavior (Kitab Al-Adab)
(Chapter: Regarding backbiting (al-ghibah))
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
4875.
ام المؤمنین سیدہ عائشہ ؓ کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے کہہ دیا: آپ کو صفیہ ؓ میں یہی کافی ہے کہ وہ ایسے ایسے ہے، مسدد کے علاوہ دوسرے نے وضاحت کی کہ اس سے ان کی مراد سیدہ صفیہ ؓ کا پستہ قد ہونا تھا۔ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”تم نے ایسا کلمہ کہا ہے کہ اگر اسے سمندر میں ملا دیا جائے تو کڑوا ہو جائے۔“ سیدہ عائشہ ؓ کہتی ہیں کہ میں نے آپ ﷺ کے سامنے کسی کی نقل اتاری تو آپ ﷺ نے فرمایا: ”میں کسی کی نقل اتارنا پسند نہیں کرتا، خواہ مجھے اتنا اتنا مال بھی ملے۔“
تشریح:
کسی کی فطری خلقت پر عیب لگانا اور تمسخر اور ٹھٹھا کرنا حرام ہے۔ یہ گو یا اللہ عزوجل پر عیب لگانا اور اپنی بڑائی کا اظہار ہے۔ جب فطری امور پر عیب لگانا حرام ہے تو اعمال پر تبصرہ بھی جائز نہیں الا یہ کہ کوئی مصیبت کا عمل ہوتا کہ عبرت ہو۔ اگر اس نے توبہ کرلی ہو تو ذکر کرنا بالاولٰی جائز نہیں۔ البتہ اعمالِ خیر کا ذکر جائز ہے۔
٭ : ادب کے لغوی اور اصطلاحی معنی : لغت میں "ادب " سے مرادہیں اخلاق،اچھا طریقہ ،شائستگی سلیقہ شعاری اور تہذیب ۔ اصطلاح میں ادب کی تعریف یوں کی گئی ہے :قابل ستائش قول وفعل کو اپناناادب ہے ۔
اسلامی تعلیمات کے روشن ابواب پر ایک طائرانہ نظر ڈالی جائے تویہ حقیقت پوری طرح عیاں ہوجاتی ہے اس کا نظام اوب وتربیت نہایت شاندارہے۔ دنیا کا کوئی بھی مذہب یا تہذیب اس کا مقابلہ کرنے سے قاصرہے ۔ اسلام نے اپنےپیروکاروں کو زندگی کے ہر شعبے میں سلیقہ شعاری اور مہذب اندازاپنانے کے لئے خوبصورت آداب کی تعلیم دی ہے ۔ ان آداب کو اپنی زندگی کا جزولاینفک بنا کر ہی مسلمان دنیا وآخرت میں سرخروہو سکتے ہیں ۔ کیو نکہ دنیا وآخرت کی کامیابی وکامرانی دین سے وابستگی کے ساتھ ممکن ہے اوردین حنیف سراپا ادب ہے ۔
٭:حافظ قیم ؒ فرماتے ہیں :"دین (محمدی )سراپا ادب ہے ۔
٭ :اسلامی آداب کی اہمیت کے پیش نظر امام عبداللہ بن مبارک ؒ فرماتے ہیں "ہمیں بہت زیادہ علم کی بجائے تھوڑے سے ادب کی زیادہ ضرورت ہے "
٭ :اللہ تعالی نے مومنوں کو آگ سے بچنے اور اپنی اولاد کو بچانے کا حکم دیا ہے ،ارشاد باری تعالی ہے :"اے ایمان والو!اپنی جانوں اور گھر والوں کو آگ سے بچاو۔ "
٭:حضرت علی رضی اللہ اس کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں "اپنے گھروالوں کواسلامی آداب سکھاو اور اسلامی تعلیمات دو ۔
٭ :ادب کی اہمیت واضح کرتے ہوئے جناب یوسف بن حسین ؒ فرماتے ہیں "ادب ہی کے ساتھ علم کی فہم وفراست ملتی ہے اور علم ہی کے ساتھ اعمال درست ہوتے ہیں اور حکمت کا حصول اعمال پر منحصرہے جبکہ زہدوتقوی کی بنیاد بھی حکمت ہی پر ہے ،دنیا سے بے رغبتی زیدوتقوی ہی سے حاصل ہوتی ہے اوردنیا سے بے رغبتی آخرت میں دلچسپی کی چابی ہے اور آخرت کی سعادت کےذوق وشوق ہی سے اللہ تعالی کے ہاں رتبے ملتے ہیں ۔
الغرض آداب مسلمان کی زندگی کا لازمی جز ہیں اور یہ اس کی زندگی کی تمام سرگرمیوں پر حاوی ہیں ، مثلا :آداب الہی ،آداب رسول ﷺ،آداب قرآن حکیم ،آداب حقوق العباد ،آداب سفر وحضر،آداب تجارت ،آداب تعلیم وتعلم ،آداب طعام وشراب ،آداب مجلس ومحفل ،آداب لباس،آداب نیند ،آداب مہمان نوازی ،آداب والدین واستاتذہ ،آداب سیاست وحکمرانی وغیرہ ۔ ان آداب زندگی کو اپنانادنیا وآخرت کی سعادت کا باعث ہے جبکہ ان آداب سے تہی دامنی درحقیقت اصل محرومی اور بد نصیبی ہے ۔ اللہ تعالی ہمیں اسلامی آداب اپنانے کی توفیق فرمائے ،آمین
ام المؤمنین سیدہ عائشہ ؓ کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے کہہ دیا: آپ کو صفیہ ؓ میں یہی کافی ہے کہ وہ ایسے ایسے ہے، مسدد کے علاوہ دوسرے نے وضاحت کی کہ اس سے ان کی مراد سیدہ صفیہ ؓ کا پستہ قد ہونا تھا۔ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”تم نے ایسا کلمہ کہا ہے کہ اگر اسے سمندر میں ملا دیا جائے تو کڑوا ہو جائے۔“ سیدہ عائشہ ؓ کہتی ہیں کہ میں نے آپ ﷺ کے سامنے کسی کی نقل اتاری تو آپ ﷺ نے فرمایا: ”میں کسی کی نقل اتارنا پسند نہیں کرتا، خواہ مجھے اتنا اتنا مال بھی ملے۔“
حدیث حاشیہ:
کسی کی فطری خلقت پر عیب لگانا اور تمسخر اور ٹھٹھا کرنا حرام ہے۔ یہ گو یا اللہ عزوجل پر عیب لگانا اور اپنی بڑائی کا اظہار ہے۔ جب فطری امور پر عیب لگانا حرام ہے تو اعمال پر تبصرہ بھی جائز نہیں الا یہ کہ کوئی مصیبت کا عمل ہوتا کہ عبرت ہو۔ اگر اس نے توبہ کرلی ہو تو ذکر کرنا بالاولٰی جائز نہیں۔ البتہ اعمالِ خیر کا ذکر جائز ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ام المؤمنین عائشہ ؓ کہتی ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ سے عرض کیا: آپ کے لیے تو صفیہ ؓ کا یہ اور یہ عیب ہی کافی ہے، یعنی پستہ قد ہونا تو آپ نے فرمایا: ”تم نے ایسی بات کہی ہے کہ اگر وہ سمندر کے پانی میں گھول دی جائے تو وہ اس پر بھی غالب آ جائے۔“ اور میں نے ایک شخص کی نقل کی تو آپ نے فرمایا: ”مجھے یہ بات پسند نہیں کہ میں کسی انسان کی نقل کروں اگرچہ میرے لیے اتنا اور اتنا (مال) ہو۔“
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Aisha (RA) , Ummul Mu'minin (RA) : I said to the Prophet (ﷺ) : It is enough for you in Safiyyah that she is such and such (the other version than Musaddad's has:) meaning that she was short-statured. He replied; You have said a word which would change the sea if it were mixed in it. She said: I imitated a man before him (out of disgrace). He said: I do not like that I imitate anyone even if I should get such and such.