Abu-Daud:
Prayer (Kitab Al-Salat)
(Chapter: An Idolater Entering The Masajid)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
488.
قبیلہ مزینہ کے ایک آدمی نے، جب کہ ہم سعید بن مسیب کے پاس بیٹھے ہوئے تھے۔ ہمیں سیدنا ابوہریرہ ؓ سے روایت بیان کی کہ (کچھ) یہودی نبی کریم ﷺ کی خدمت میں آئے جب کہ آپ ﷺ مسجد میں اپنے اصحاب کے ساتھ تشریف فرما تھے، انہوں نے آ کر کہا: اے ابوالقاسم! اور ان کے ایک مرد اور ایک عورت نے زنا کیا تھا، اس کے بارے میں دریافت کیا۔
تشریح:
اگرچہ یہ روایت سندا ضعیف ہے۔ تاہم اصل واقعہ صحیحین میں موجود ہے۔ اور یہ حدیث کتاب الحدود میں بھی مفصل آئی ہے۔ (سنن أبي داود، حدیث: 4450) اس سے معلوم ہوا کہ اہم ضرورت کے تحت یہودی مسجد میں داخل ہو سکتے ہیں۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: هذا إسناد ضعيف،؛ قال المنذري: رجل من مزينة مجهول . ويغني عنه حديث أنس في الباب؛ انظره في الكتاب الأخر (رقم 504) ) . إسناده: حدثنا محمد بن يحيى بن فارس: ثنا عبد الرزاق: أنا معمر عن الزهري.
قلت: وهذا إسناد رجاله ثقات رجال البخاري؛ غير الرجل من مزينة، فهو مجهول، كما قال المنذري في مختصره . والحديث أخرجه البيهقي (2/444) من طريق المصنف. وأخرجه أحمد (2/279- 280) : ثنا عبد الرزاق... به مختصراً؛ بلفظ: أن النبيّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رجم يهودياً ويهودية. وقد أخرجه المصنف في الحدود ... بهذا الإسناد مطولاً.
’’نماز‘‘ مسلمانوں کے ہاں اللہ عزوجل کی عبادت کا ایک مخصوص انداز ہے اس میں قیام رکوع‘سجدہ‘ اور تشہد میں متعین ذکر اور دعائیں پڑھی جاتی ہیں اس کی ابتدا کلمہ ’’اللہ اکبر‘‘ سے اور انتہا ’’السلام علیکم ور حمۃ اللہ‘‘ سے ہوتی ہے تمام امتوں میں اللہ کی عبادت کے جو طور طریقے رائج تھے یا ابھی تک موجود ہیں ان سب میں سے ہم مسلمانوں کی نماز ‘انتہائی عمدہ خوبصورت اور کامل عبادت ہے ۔بندے کی بندگی کا عجزہ اور رب ذوالجلال کی عظمت کا جو اظہار اس طریق عبادت میں ہے ‘کسی اور میں دکھائی نہیں دیتا۔ اسلام میں بھی اس کے مقابلے کی اور کوئی عباد نہیں ہے یہ ایک ایساستون ہے جس پر دین کی پوری عمارت کڑی ہوتی ہے ‘ اگر یہ گر جائے تو پوری عمار گر جاتی ہے سب سے پہلے اسی عباد کا حکم دیا گیا اور شب معراج میں اللہ عزوجل نے اپنے رسول کو بلا واسطہ براہ راست خطاب سے اس کا حکم دیا اور پھر جبرئیل امین نے نبئ کریم ﷺ کو دوبار امامت کرائی اور اس کی تمام تر جزئیات سے آپ کو عملاً آگاہ فرمایا اور آپ نے بھی جس تفصیل سے نماز کے احکام و آداب بیان کیے ہیں کسی اور عبادت کے اس طرح بیان نہیں کیے۔قیامت کے روز بھی سب سے پہلے نماز ہی کا حساب ہو گا جس کی نماز درست اور صحیح نکلی اس کے باقی اعمال بھی صحیح ہو جائیں گے اور اگر یہی خراب نکلی تو باقی اعمال بھی برباد ہو جائیں گے رسول اللہ ﷺ اپنی ساری زندگی نماز کی تعلیم و تا کید فرماتے رہے حتی کہ دنیا سے کوچ کے آخری لمحات میں بھی ’’نماز ‘نماز‘‘ کی وصیت آپ کی زبان مبارک پر تھی آپ نے امت کو متنبہ فرمایا کہ اسلام ایک ایک کڑی کر ک ٹوٹتا اور کھلتا چلا جائے گا ‘ جب ایک کڑی ٹوٹے گی تو لوگ دوسری میں مبتلا ہو جائیں گے اور سب سے آخر میں نماز بھی چھوٹ جائے گی ۔۔(موارد الظمآ ن : 1/401‘حدیث 257 الی زوائد ابن حبان)
قرآن مجید کی سیکڑوں آیات اس کی فرضیت اور اہمیت بیان کرتی ہیں سفر ‘حضر‘صحت‘مرض ‘امن اور خوف ‘ہر حال میں نماز فرض ہے اور اس کے آداب بیان کیے گئے ہیں نماز میں کوتاہی کر نے والو کے متعلق قرآن مجید اور احادیث میں بڑی سخت وعید سنائی گئی ہیں۔
امام ابوداود نے اس کتاب میں نماز کے مسائل بڑی تفصیل سے بیان فرمائے ہیں۔
قبیلہ مزینہ کے ایک آدمی نے، جب کہ ہم سعید بن مسیب کے پاس بیٹھے ہوئے تھے۔ ہمیں سیدنا ابوہریرہ ؓ سے روایت بیان کی کہ (کچھ) یہودی نبی کریم ﷺ کی خدمت میں آئے جب کہ آپ ﷺ مسجد میں اپنے اصحاب کے ساتھ تشریف فرما تھے، انہوں نے آ کر کہا: اے ابوالقاسم! اور ان کے ایک مرد اور ایک عورت نے زنا کیا تھا، اس کے بارے میں دریافت کیا۔
حدیث حاشیہ:
اگرچہ یہ روایت سندا ضعیف ہے۔ تاہم اصل واقعہ صحیحین میں موجود ہے۔ اور یہ حدیث کتاب الحدود میں بھی مفصل آئی ہے۔ (سنن أبي داود، حدیث: 4450) اس سے معلوم ہوا کہ اہم ضرورت کے تحت یہودی مسجد میں داخل ہو سکتے ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ یہود نبی اکرم ﷺ کے پاس آئے اور آپ مسجد میں اپنے اصحاب میں بیٹھے ہوئے تھے تو ان یہودیوں نے کہا: اے ابوالقاسم! ہم ایک مرد اور ایک عورت کے سلسلے میں جنہوں نے زنا کر لیا ہے۱؎ آئے ہیں (تو ان کے سلسلہ میں کیا حکم ہے؟)۔
حدیث حاشیہ:
۱؎: باب کی ان حدیثوں سے ثابت ہوتا ہے کہ کافر بوقت ضرورت مسجد میں داخل ہو سکتا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Abu Hurairah (RA) said: The Jews came to the Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم) and he was sitting in the mosque among his Companions. They said: O Abu al-Qasim (صلی اللہ علیہ وسلم), a man and a woman have committed adultery.