باب: ایسے لوگ جن کی برائی کرنا غیبت شمار نہیں ہوتا
)
Abu-Daud:
General Behavior (Kitab Al-Adab)
(Chapter: Cases where it is not backbiting)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
4885.
سیدنا جندب (جندب بن عبداللہ بجلی ؓ) سے روایت ہے کہ ایک دیہاتی آیا، اس نے اپنی سواری بٹھائی، اس کا گھٹنا باندھا پھر مسجد کے اندر آ گیا اور رسول اللہ ﷺ کے پیچھے نماز پڑھی۔ جب رسول اللہ ﷺ نے سلام پھیرا تو وہ اپنی سواری کے پاس آیا، اسے کھولا، اس پر سوار ہوا پھر اونچی آواز میں بولا: اے اللہ! مجھ پر رحم کر اور محمدﷺ پر رحم کر، اور ہماری اس رحمت میں کسی اور کو شریک نہ کر۔ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”تم کیا سمجھتے ہو یہ زیادہ جاہل ہے یا اس کا اونٹ۔ کیا تم نے سنا نہیں جو وہ کہہ رہا ہے؟“ صحابہ نے کہا: کیوں نہیں۔
تشریح:
اس روایت کا پہلا حصہ (اللھم ار حمني۔۔۔۔۔) اے اللہ مجھ پر رحم کر اور حضرت محمدﷺ پر رحم کر اور ہماری اس رحمت میں کسی کو شریک نہ کر صحیح ہے جو پہلے حدیث نمبر: 380 میں گزر چکا ہے، جبکہ دوسرا حصہ صحیح نہیں ہے۔ بہر حال بطور نصیحت و عبرت جاہلوں کی جاہلیت کا ذکر جائز ہے۔
٭ : ادب کے لغوی اور اصطلاحی معنی : لغت میں "ادب " سے مرادہیں اخلاق،اچھا طریقہ ،شائستگی سلیقہ شعاری اور تہذیب ۔ اصطلاح میں ادب کی تعریف یوں کی گئی ہے :قابل ستائش قول وفعل کو اپناناادب ہے ۔
اسلامی تعلیمات کے روشن ابواب پر ایک طائرانہ نظر ڈالی جائے تویہ حقیقت پوری طرح عیاں ہوجاتی ہے اس کا نظام اوب وتربیت نہایت شاندارہے۔ دنیا کا کوئی بھی مذہب یا تہذیب اس کا مقابلہ کرنے سے قاصرہے ۔ اسلام نے اپنےپیروکاروں کو زندگی کے ہر شعبے میں سلیقہ شعاری اور مہذب اندازاپنانے کے لئے خوبصورت آداب کی تعلیم دی ہے ۔ ان آداب کو اپنی زندگی کا جزولاینفک بنا کر ہی مسلمان دنیا وآخرت میں سرخروہو سکتے ہیں ۔ کیو نکہ دنیا وآخرت کی کامیابی وکامرانی دین سے وابستگی کے ساتھ ممکن ہے اوردین حنیف سراپا ادب ہے ۔
٭:حافظ قیم ؒ فرماتے ہیں :"دین (محمدی )سراپا ادب ہے ۔
٭ :اسلامی آداب کی اہمیت کے پیش نظر امام عبداللہ بن مبارک ؒ فرماتے ہیں "ہمیں بہت زیادہ علم کی بجائے تھوڑے سے ادب کی زیادہ ضرورت ہے "
٭ :اللہ تعالی نے مومنوں کو آگ سے بچنے اور اپنی اولاد کو بچانے کا حکم دیا ہے ،ارشاد باری تعالی ہے :"اے ایمان والو!اپنی جانوں اور گھر والوں کو آگ سے بچاو۔ "
٭:حضرت علی رضی اللہ اس کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں "اپنے گھروالوں کواسلامی آداب سکھاو اور اسلامی تعلیمات دو ۔
٭ :ادب کی اہمیت واضح کرتے ہوئے جناب یوسف بن حسین ؒ فرماتے ہیں "ادب ہی کے ساتھ علم کی فہم وفراست ملتی ہے اور علم ہی کے ساتھ اعمال درست ہوتے ہیں اور حکمت کا حصول اعمال پر منحصرہے جبکہ زہدوتقوی کی بنیاد بھی حکمت ہی پر ہے ،دنیا سے بے رغبتی زیدوتقوی ہی سے حاصل ہوتی ہے اوردنیا سے بے رغبتی آخرت میں دلچسپی کی چابی ہے اور آخرت کی سعادت کےذوق وشوق ہی سے اللہ تعالی کے ہاں رتبے ملتے ہیں ۔
الغرض آداب مسلمان کی زندگی کا لازمی جز ہیں اور یہ اس کی زندگی کی تمام سرگرمیوں پر حاوی ہیں ، مثلا :آداب الہی ،آداب رسول ﷺ،آداب قرآن حکیم ،آداب حقوق العباد ،آداب سفر وحضر،آداب تجارت ،آداب تعلیم وتعلم ،آداب طعام وشراب ،آداب مجلس ومحفل ،آداب لباس،آداب نیند ،آداب مہمان نوازی ،آداب والدین واستاتذہ ،آداب سیاست وحکمرانی وغیرہ ۔ ان آداب زندگی کو اپنانادنیا وآخرت کی سعادت کا باعث ہے جبکہ ان آداب سے تہی دامنی درحقیقت اصل محرومی اور بد نصیبی ہے ۔ اللہ تعالی ہمیں اسلامی آداب اپنانے کی توفیق فرمائے ،آمین
سیدنا جندب (جندب بن عبداللہ بجلی ؓ) سے روایت ہے کہ ایک دیہاتی آیا، اس نے اپنی سواری بٹھائی، اس کا گھٹنا باندھا پھر مسجد کے اندر آ گیا اور رسول اللہ ﷺ کے پیچھے نماز پڑھی۔ جب رسول اللہ ﷺ نے سلام پھیرا تو وہ اپنی سواری کے پاس آیا، اسے کھولا، اس پر سوار ہوا پھر اونچی آواز میں بولا: اے اللہ! مجھ پر رحم کر اور محمدﷺ پر رحم کر، اور ہماری اس رحمت میں کسی اور کو شریک نہ کر۔ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”تم کیا سمجھتے ہو یہ زیادہ جاہل ہے یا اس کا اونٹ۔ کیا تم نے سنا نہیں جو وہ کہہ رہا ہے؟“ صحابہ نے کہا: کیوں نہیں۔
حدیث حاشیہ:
اس روایت کا پہلا حصہ (اللھم ار حمني۔۔۔۔۔) اے اللہ مجھ پر رحم کر اور حضرت محمدﷺ پر رحم کر اور ہماری اس رحمت میں کسی کو شریک نہ کر صحیح ہے جو پہلے حدیث نمبر: 380 میں گزر چکا ہے، جبکہ دوسرا حصہ صحیح نہیں ہے۔ بہر حال بطور نصیحت و عبرت جاہلوں کی جاہلیت کا ذکر جائز ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابوعبداللہ جشمی کہتے ہیں کہ ہم سے جندب ؓ نے بیان کیا کہ ایک اعرابی آیا اس نے اپنی سواری بٹھائی پھر اسے باندھا، اس کے بعد وہ مسجد میں داخل ہوا اور رسول اللہ ﷺ کے پیچھے نماز پڑھی، جب آپ نے سلام پھیرا تو وہ اپنی سواری کے پاس آیا، اسے اس نے کھولا پھر اس پر سوار ہوا اور پکار کر کہا: اے اللہ! مجھ پر اور محمد پر رحم فرما اور ہمارے اس رحم میں کسی اور کو شامل نہ کر (یعنی کسی اور پر رحم نہ فرما) تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”تم لوگ کیا کہتے ہو؟ یہ زیادہ نادان ہے یا اس کا اونٹ؟ کیا تم نے وہ نہیں سنا جو اس نے کہا؟ لوگوں نے عرض کیا: کیوں نہیں ضرور سنا ہے۔“
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Jundub (RA) : A desert Arab came and making his camel kneel and tethering it, entered the mosque and prayed behind the Apostle of Allah (ﷺ) . When The Apostle of Allah (ﷺ) had given the salutation, he went to his riding beast and, after untethering and riding it, he called out: O Allah, show mercy to me and to Muhammad and associate no one else in Thy mercy to us. The Apostle of Allah (ﷺ) then said: Do you think that he or his camel is farther astray? Did you not listen to what he said? They replied: Certainly.